"DLK" (space) message & send to 7575

برق گرتی ہے تو…

اکثر کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے لیکن ضرورت اور ایجاد کا باہمی تعلق درحقیقت جدلیاتی ہے۔ کوئی ایجاد جب سماج کے اکثریتی حصے کی پہنچ میں آجائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ضرورت بن جاتی ہے۔بجلی کے حوالے سے بھی یہ بات بالکل درست ہے۔ بجلی انسانی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔پنجابی میں ایک بہت دلچسپ روایتی کہانی ہے۔ ایک غریب کسان رات کے اندھیرے میں گندم کی بوری چھت پر لے کر جارہا تھا۔اس کے ساتھی نے ماچس جلائی تاکہ سیڑھیوں کو روشن کرسکے۔کچھ لمحوں بعد ماچس بجھ گئی۔ اس کسان نے غصے سے کہا ’’تم نے تو مجھ سے میرا اندھیرا بھی چھین لیا ہے۔‘‘ جب ماچس بجھی تو اس کی آنکھیں جو اندھیرے کی عادی ہوگئی تھیں، وہ پہلے کی طرح اندھیرے میں دیکھنے سے قاصر تھیں۔بجلی، لوڈ شیڈنگ اور پاکستانی عوام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ موسم گرما کے شدت پکڑتے ہی پورا ملک ایک بار پھر بد ترین لوڈ شیڈنگ کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ملک کے طول و عرض میں اس وقت 8سے 22گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور بجلی کا بحران خوفناک شکل اختیارکر چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پانچ سالوں میں مسئلے کی اصل وجہ ہی معلوم نہیں کر پائی یا پھر دانستہ عوام سے جھوٹ بولتی رہی۔ حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بد ترین شکست کی ایک اہم وجہ بجلی کا بحران حل کرنے میں اس کی مکمل ناکامی بھی ہے۔پیپلز پارٹی حکومت میں ہونے والی کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے اگرچہ توانائی کے بحران نے شدت اختیار کی ہے لیکن کرپشن اور انتظامی نا اہلی اس مسئلہ کی بنیادی وجہ نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم میں توانائی کے بحران کو خاص طور پر استعمال کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اس سلسلے میںکبھی چھ ماہ، کبھی دو سال اور کبھی تین سال میںلوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے وعدے کئے۔ لیکن جوں جوں اقتدار میں آنے کا وقت قریب آرہا ہے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے وعدے بھی ماند پڑتے جا رہے ہیں۔ 800ارب کا سرکلر ڈیٹ اور لڑکھڑاتی معیشت، ن لیگ کی قیادت کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک کروا رہی ہے! اس سلسلے میں اگر نام نہاد ماہرین اور ’’تجزیہ نگاروں‘‘ کے تجزیوں اور تجاویز کا جائزہ لیا جائے تو زمینی حقائق پر تھوڑی سی نظر رکھنے والا شخص افسوس ہی کر سکتا ہے۔ عام آدمی کو یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے لوڈ شیڈنگ دراصل بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یا پیداواری صلاحیت میں کمی کا نتیجہ ہے اور نئے پراجیکٹس اس مسئلے کا حل ہیں۔حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔پاکستان میں اس وقت بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 23000میگاواٹ سے بھی زیادہ ہے جبکہ بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب (موسم گرما میں جب پورے ملک میں ائیرکنڈیشنر، پنکھے اور کولر وغیرہ چل رہے ہوتے ہیں) 18000میگا واٹ سے کسی صورت زیادہ نہیں ہے۔یعنی ابھی، اسی وقت لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کے ساتھ ساتھ 5000میگا واٹ ضرورت سے زائد بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔تو مسئلہ آخر کہاں ہے؟ مسئلہ انڈیپنڈنٹ اور رینٹل پاور پلانٹس کے ملٹی نیشنل مالکان اور نجی اجارہ داریاں ہیں جو گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے پاکستانی عوام کو مہنگی بجلی فروخت کرکے کشید کئے گئے اربوںڈالر کا منافع ملک سے باہر بھجوا چکے ہیں ا وریہ عمل نہایت بے دردی سے بدستور جاری ہے ۔یہ کمپنیاں پیداواری صلاحیت سے کم بجلی پیدا کر کے اور اس کی مصنوعی قلت پیدا کرکے نرخوں میںاذیت ناک اضافہ کرکے بے تحاشا منافعے کمارہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت سے رعایتی نرخ پر حاصل ہونے والے تیل کو بجلی پیدا کرنے کی بجائے مارکیٹ میں بیچ کر بھی منافع کمایا جا رہا ہے۔ چند افراد کی ہوس، کروڑوں لوگوں کو عذاب میں مبتلا کئے ہوئے ہے جبکہ ریاستی و حکومتی اہلکار کمیشن لے کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔کھربوں روپے کے منافعے کمانے والی یہ کمپنیاں کبھی نہیں چاہیں گی کہ بجلی پیدا کرنے کے سستے طریقوں پر سرمایہ کاری کی جائے ۔ یہ سامراجی ادارے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہائیڈرل پاور، شمسی توانائی یاہوا سے توانائی حاصل کرنے پر ہونے والی تحقیق یا ایسے کسی منصوبے کو دبانے کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔اس سلسلے میں ریاستی عہدے داروں کو خریدا اور زر خرید ماہرین کے ذریعے رائے عامہ کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ان کمپنیوں کی تجوریاں بھرنے کے بعد ریاست کے پاس اتنا سرمایہ ہی نہیں بچتا کہ ایسے کسی منصوبے پر غور کیا جا سکے۔ سرمایہ داروں اور فیکٹری مالکان کی اربوں روپے کی بجلی چوری صورتحال کو مزید بگاڑ رہی ہے۔ فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کے لئے کسی صورت بھی موزوں نہیں ہے۔ یہ طریقہ ان ممالک میں زیر استعمال ہے جو تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہیں یا پھرتیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو دنیا کے مختلف ممالک ایمرجنسی بیک اپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ پاور پلانٹس ماحولیاتی حوالے سے بھی انتہائی زہریلے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اس طریقہ کار کو بجلی پیدا کرنے کے طویل المدت اور قابل بھروسہ طریقہ کار کے طور پر اپنایا گیا جس کا خمیازہ آج کروڑوں لوگ بھگت رہے ہیں۔وہ کھربوں روپے جو ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار اور ریاستی عہدے داروں کے کمیشنوں کی نظر ہوئے‘ اگر سستی اور قابل تجدید توانائی (Renewable Energy)کے منصوبوں پر صرف ہوتے توآج نہ صرف ہر پاکستانی کو سستی بجلی فراہم کی جاسکتی تھی بلکہ بجلی برآمد کر کے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا تھا۔ سب سے سستے اور تیزترین طریقوں میں سے ایک ہوائوں سے توانائی کی پیداوار ہے۔ پاکستان میں 50000میگا واٹ بجلی صرف اسی طریقے سے حاصل کی جاسکتی ہے۔اتنی ہی بجلی نئے ڈیم بنا کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔دریائوں اور بہتی نہروں پر ٹربائین نصب کر کے بھی بجلی بنائی جاسکتی ہے۔پاکستان دنیا کے ایسے ممالک میں شامل ہے جو شمسی توانائی کے حوالے سے موزوں ترین ہے۔ جرمنی نے کچھ ہفتے پہلے شمسی توانائی سے 22000میگا واٹ بجلی پیدا کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔اسی طرح بلوچستان کے صرف 0.25فیصد رقبے پر سولر پینل نصب کر کے پورے ملک کی ضرورت سے زائد بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔غرضیکہ ممکنات کی کمی نہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی حدود اور منافع کی ہوس اگر راستے میں حائل نہ ہوں تو بجلی کا بحران سالوں یا مہینوں میںنہیں بلکہ چند گھنٹوں میں ختم ہو سکتا ہے۔ اگر تمام انڈی پینڈنٹ اور رینٹل پاور پلانٹس کو قومی ملکیت میں لے کر منافع کی بجائے عوام کی ضرورت کے تحت چلایا جائے تو لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔ چند ماہ پیشتراسی قسم کا بجلی کا بحران لاطینی امریکہ کے ملک بولیویا میں پیدا ہوا۔ وہاں کے صدر نے سامراجی اجارہ داریوں کے منافعے80فیصدسے کم کروا کے 20فیصدکم کردیے جس سے بولیویا کے عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات مل گئی۔ بدقسمتی سے منافع پر مبنی مہنگی بجلی کے منصوبے ترک کرکے سستی توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کے لئے جس دوررس اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اس کی گنجائش موجودہ نظام میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔تمام سیاسی جماعتیں سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو حتمی و آخری سمجھتی ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ملٹی نیشنل کمپنیوں پر ضرب لگاتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود سے تجاوز کرنے کی جرات نہیں رکھتی۔ موجودہ نظام میں ان اذیتوںسے چھٹکارہ پاناممکن نہیں۔ لگتا ہے تمام خوش فہمیاں آنے والے دنوں میں دم توڑ دیں گی۔ اس اذیت ناک مسئلے کاحل بھی صرف ایسے انقلاب کے ذریعے ممکن ہے جو نفع پر مبنی منڈی کی معیشت کے نظام کو اس کی غلاظتوں اور لعنتوںسمیت اکھاڑ کرمنصوبہ بند معیشت کو رائج کرے۔ یہ فریضہ پاکستان کے محنت کش عوام ہی سرانجام دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں