پاکستان کی سیاست میں عمران خان کی سونامی آنے اور چھا جانے میں ناکام ہو گئی ہے۔انتخابات کے نتائج آنے کے ساتھ تحریکِ انصاف کے حامیوں کی امیدیں دم توڑ گئیں۔مالیاتی سرمائے کے جبر اور موقع پرست قیادت کی غفلت کے باعث نظریاتی سیاست کے پسِ منظر میں چلے جانے کے عہد میں رائج الوقت نظام کو چیلنج کرنے والی ایک نئی سیاسی تنظیم کے لیے ایک بے کراں خلا موجود تھا۔عمران خان تبدیلی کی بات کر رہے تھے اور بر سرِ اقتدار سیاست کا متبادل پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران کراچی اور لاہور میں منعقد ہ بڑے بڑے جلسے ملک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی توجہ کا مرکز بنے تھے۔کارپوریٹ میڈیا نے تحریکِ انصاف کی سرگرمیوں کو بڑے پیمانے پر کوریج دی اور عمران خان تقریباً ہر روز ٹی وی پر کرپشن کے خلاف گفتگو اور عوام کو انصاف فراہم کرنے کے وعدے کر رہے تھے۔ لیکن انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی جمود میں پیسے کی سیاست پر مبنی انتخابی نظام کی حقیقتیں پی ٹی آئی پر آشکار ہونے لگیں اور عمران خان نے حکمران اشرافیہ کے روایتی سیاست دانوں یعنی انتخابات جیتنے کی اہلیت رکھنے والوں کو ساتھ ملانا شروع کر دیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کے گمنام پرانے کارکنان کی جانب سے اس پر غصے اور مخالفت کا برملا اظہار کیا گیا لیکن عمران خان کو ان سیاستدانوں کے آنے سے کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ ان کے بنیادی نظریات اس سیاسی اشرافیہ کے سرمایہ دارانہ/جاگیردارانہ نظام سے متضاد نہیں۔ وہ مسلسل یہ کہتے رہے کہ ان کی پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے اور باقی سب نظریات سے عاری ہیں۔ لفاظی سے قطع نظر، تحریک ِ انصاف کا حقیقی نظریہ دائیں بازو کی اصلاح پسندی محسوس ہوتا ہے جو سماج کو برباد کرتے اور بڑھتے ہوئے بحران کو حل کرنے کا نہ تو کوئی نیا اور نہ ہی کامیاب نسخہ ہے۔دائیں بازو کے پاپولسٹ عمران خان لبرل اور دقیانوسی سماجی اور سیاسی رجحانات کا ایک عجیب و غریب ملغوبہ بنانے کی کوشش میں تھے حالانکہ دونوں کی بنیاد سرمایہ دارانہ معیشت پر ہے۔ جماعت اسلامی سے الحاق اور آئی ایم ایف کی نجکاری کی پالیسی کی حمایت ان کے سرمایہ دارانہ نظام اور دائیں بازو کے سیاست دان ہونے کی غمازی کرتا ہے۔ تحریکِ انصاف کا پروگرام نظام کے اندر رہتے اور اس کی معاشی اور سماجی بنیادوں کو چھیڑے بغیراصلاحات کرنے کا تھا۔اگرچہ عمران خان کی انتخابی مہم میں گلیمر، تبدیلی کے نعرے اور بہت جوش و خروش تھا لیکن ان کا بنیادی نکتہ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کو بدلنے کی بجائے اصلاحات کر کے اسے جاری رکھنے اور بچانے کا تھا۔کرپشن کے خاتمے کے نعرے کا تعلق کسی خیالی دنیا سے ہی ہوسکتاہے۔ کرپشن بحران کا باعث نہیں بلکہ لڑکھڑاتی معیشت میں اس نظام کی ضرورت اور پیداوار ہے۔پی ٹی آئی نے عوام کو انصاف دینے کا نعرہ لگایا لیکن سب کے لیے مفت انصاف کی بات نہیں کی۔ جبکہ عوام کی وسیع اکثریت کے پاس انصاف کے تقاضوں پر آنے والے اخراجات اٹھانے کے وسائل اور مالیاتی حیثیت ہی نہیں۔ صحت اور تعلیم کے بنیادی مسائل پر بھی پی ٹی آئی کا یہی موقف تھا لیکن اس سے بڑھ کر ، ایک ایسے سماج میں‘ جہاں سب سے اہم اور فیصلہ کن تضاد طبقاتی تضاد ہے‘ تحریکِ انصاف اپنی طبقاتی وابستگی کا اعلان کرنے سے قاصر رہی۔جسے عمران خان پاکستانی قوم کہتے ہیں وہ درحقیقت دو حصوں پر مشتمل ہے، استحصال کرنے والے اور استحصال کا شکار۔ حکمران طبقے اور محنت کش طبقے کے بنیادی مفادات ناقابلِ مصالحت ہیں اور جب تک طبقاتی نظام موجود ہے طبقاتی جدوجہد اپنے اتار چڑھائو کے ساتھ جاری رہے گی۔عمران خان خود کو 1960ء اور1970ء کی دہائی کے ذوالفقار علی بھٹو کے نئے جنم کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ انہیں امید تھی کہ ان کا سونامی2013ء کے انتخابات میں مکمل طور پر چھا جائے گا جیسے 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان میں بہت بڑی فتح حاصل ہوئی تھی۔لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ1970ء کے انتخابات ایک انقلابی طوفان کے پسِ منظر میں منعقد ہوئے تھے جس نے ریاست کو لرزا دیا اور نظام کو چیلنج کر ڈالاجبکہ 2013ء کے انتخابات ریکارڈ مہنگائی، برطرفیوں، بے روزگاری، دہشت گردی اور بدحالی کے بعد ہو رہے تھے۔ عوامی شعور میں ہلچل اور اُبھار کی کیفیت کے برعکس، سرمایہ دارانہ جمہوریت کی دین سماجی اور معاشی زخموں کی وجہ سے ایک مایوسی اور بد گمانی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے پروگرام میں طبقاتی استحصال اور عوام کی تکالیف کا خاتمہ کرنے کا کوئی واضح لائحہ عمل نہیں تھا۔دوسری جانب بھٹو بے پناہ بے صبرے اور متلون مزاج درمیانے طبقے کی بجائے محنت کش طبقات کا نمائندہ بن کر سامنے آئے۔پیپلز پارٹی کی1967ء کی تاسیسی دستاویز اور1970ء کے انتخابی منشور میں طبقاتی جدوجہد اور انقلابی سوشلزم کے ذ ریعے تبدیلی کی بات کی گئی تھی۔پی پی پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والوں کی اکثریت پارٹی کے گمنام بانیوں کی تھی، جو کہ ’ناقابلِ انتخاب‘ تھے۔ ان انتخابات میں اشرافیہ کے روایتی سیاست دانوں کا صفایا ہو گیا تھا۔ انتخابات سے قبل ہی تحریکِ انصاف کے حامیوں میں پھوٹ اور کئی تنازعات تھے اور بہت سے اس کے بعد پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔اگرچہ 2013ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کو دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ پڑے لیکن موجودہ معاشی اور سماجی ایجنڈے پر یہ اپنی حمایت برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ اگرچہ شخصیات کی کشش پارٹیوں کی تقدیر میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، خصوصاً غیر ترقی یافتہ سماجوں میں، لیکن پیہم کردار کے لیے اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ آنے والے دن بہت ہنگامہ خیز ہوں گے اور سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران میں معاشی اور سماجی انتشار مزید گہرا ہو گا۔تمام جماعتیں خلفشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گی‘ لیکن تحریک انصاف میں اس کی شدت بہت زیادہ ہو گی جس کی وجہ اس کی پیٹی بورژوا سماجی بنیادیں او ر سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کی اصلاح پر مبنی اس کا نظریاتی تذبذب ہے۔ نظریاتی پسپائی‘ طبقاتی جدوجہد اور عوامی تحریک کے جمود میں عمران خان کے ساتھ شامل ہونے والے درمیانے طبقے کے نوجوان انہیں چھوڑ دیں گے کیونکہ پارٹی کے پروگرام میں آنے والے طوفانی واقعات میں کوئی حقیقی حکمتِ عملی اور سمت نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کو لاحق مسائل سے نکلنے کا حتمی راستہ مجبور عوام اور محنت کش طبقے کی تحریک ہے جو ذلت اور غربت میں دھکیلنے والے اس نظام کو چیلنج کرے گی۔وہ حقیقی تبدیلی کا چنائو کریں گے۔سرمایہ دارانہ بیگار کے متبادل کے طور پر تحریکِ انصاف کے پاس عوام کے لیے کچھ نہیں ۔اس کا مطلب ہے کہ محنت کشوں کے ابھار تحریک کی ایک نئی لہر میں عوام کی نجات کا ذریعہ بننے والے متبادل کی تلاش میں آگے بڑھ جائے گی۔ ایسی کیفیت میں تحریکِ انصاف میں توڑ پھوڑ تیز تر ہو جائے گی۔ حکومت کی جانب سے سرمایہ داری کو تقویت دینے کی خاطر کیے جانے والے معاشی وسماجی اقدامات اس اشتعال کو بڑھا دیں گے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو حالیہ انتخابات میں یکسر مسترد کیا گیا لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ پیپلز پارٹی عوام کی روایت کے طور پر مکمل ختم ہو گئی ہے۔آنے والے دور میں پیپلز پارٹی میں کہیں زیادہ ٹوٹ پھوٹ، گروہ بندیاں اور تقسیم ہوگی۔ پی پی پی کی سوشلسٹ بنیادوں پر مبنی ایک رجحان کا ابھارہی اس کی بقا کی واحد صورت ہو گی، جو بھٹو کو میراث بنانے والے سوشلسٹ پروگرام کو ایک جدید ترین اور انقلابی شکل میں پیش کرے گا۔ نیم انقلابی کیفیت میں ایک نئی روایت کا ظہور ہو گا جو نظام کو حقیقی معنوں میں بدل کر پسے ہوئے محنت کش عوام کی نجات اور خوشحالی کا انقلابی متبادل بنے گی۔