"DLK" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی کا مستقبل

حالیہ ضمنی انتخابات میں چند نشستوں پر پیپلز پارٹی کی کامیابی کو بعض سیاستدان اور تجزیہ نگار پارٹی کے احیا سے تعبیر کر رہے ہیں۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ حالیہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کو ملنے والے ووٹ کسی امید کی بجائے پیپلز پارٹی سے عوام کی مایوسی اور بدظنی کا ہی نتیجہ تھے۔پیپلز پارٹی پاکستان کے محنت کش عوام اور غریبوں کی سیاسی روایت ہے۔دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں، عوامی شعور میں پیپلز پارٹی کے بارے بائیں بازو کا تصور موجود ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ1988ء کے بعد سے پیپلز پارٹی قیادت کا دائیں جانب جھکائو مسلسل بڑھتا رہا ہے۔ ضیا آمریت کے خاتمے کے بعد سے پیپلز پارٹی نے اپنے ہر دور حکومت میں نجکاری جیسی مزدور دشمن پالیسیاں نافذ کی ہیں اور اس کے بیشتر اقدامات پارٹی کے تاسیسی پروگرام اور 1970ء کے انتخابی منشور سے متضاد رہے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی کی تاریخ، ایک انقلابی تحریک کے نتیجے میںاس کے جنم، پارٹی کے ابتدائی تنظیمی ڈھانچے اوربنیادی منشورپر نظر ڈالی جائے تو ’آج کی پیپلز پارٹی‘ بالکل مختلف سیاسی جماعت معلوم ہوتی ہے۔ چیئرمین بھٹو کی پیپلز پارٹی سے اس کی کوئی مشابہت نہیں ہے۔ کرسٹینا لیمب نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’ویٹنگ فار اللہ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’اگر ذولفقار علی بھٹو اپنی لحد سے نکل کر آج کی پیپلز پارٹی کو دیکھیں تو وہ پہچان ہی نہ سکیں گے کہ یہ ان کی بنائی ہوئی پارٹی ہے۔‘‘یہ کتاب بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں لکھی گئی تھی جس کے بعد سے پارٹی قیادت کے نظریاتی دیوالیہ پن اور پارٹی کے بنیادی منشور سے انحراف میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کا قیام30نومبر 1967ء کومنعقد ہونے والے تاسیسی اجلاس کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔پارٹی کی تاسیسی دستاویز میں واضح طور پر درج ہے کہ ’’پارٹی پالیسیوں کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو ہمارے عہد میں صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے۔‘‘پارٹی کے تاسیسی اجلاس کے کچھ عرصے بعد جب پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک ابھری۔ محنت کشوں، نوجوانوں اور کسانوں نے تاریخ کے میدان میں داخل ہو کر ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کر دیا، ان انقلابی حالات میں صرف پیپلز پارٹی کا بنیادی سوشلسٹ منشور ہی سماج کو یکسر تبدیل کر دینے کی عوامی امنگوں پر پورا اترتا تھا۔ 1968ء میں ہالا میں منعقد ہونے والی پارٹی کانفرنس میں بنیادی بحث اس سوال پر تھی کہ پارٹی کو انقلاب پرچی کے ذریعے برپا کرنا ہے یا برچھی کے ذریعے۔تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی قیادت اس وقت سوشلسٹ انقلاب کا نام لینے سے گریزاں ہے۔ جب دائیں بازو کا ہر لیڈر ’’انقلاب‘‘ کے نام پر اپنی سیاست چمکا رہا ہے حالانکہ صرف پیپلز پارٹی کا بنیادی پروگرام انقلابی سوشلزم کا نظریہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنگ سے تباہ حال سرمایہ دارانہ ریاستی ڈھانچے کے ذریعے اصلاحات کرنے کی کوشش کی۔ عوامی دبائو کے تحت چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے ریڈیکل اصلاحات کی گئیں۔بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، بنکوں اور انشورنس کمپنیوںکو قومیا کر بہت سا سرمایہ ضبط کیا گیا، زرعی اصلاحات کا آغاز ہوا، تعلیم اور علاج کے لئے 43فیصد بجٹ مختص کیا گیا، عوام کو سستی ٹرانسپورٹ اور خوراک سمیت بے شمار دوسری سہولیات دی گئیں لیکن سرمایہ داری کو جڑ سے ختم نہیں کیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست میں رہتے ہوئے بائیں بازو کی اصلاحات کی ناکامی ناگزیر تھی۔ 1789ء کے عظیم انقلاب فرانس کے بعد قائم ہونے والی قومی اسمبلی کے سپیکر سین یائوسٹ نے لکھا تھا کہ ’’ادھورا انقلاب کرنے والے اپنی قبر خود کھودتے ہیں۔‘‘ جس فوج کو بھٹو نے جنگ کی تباہ حالی سے نکال کر بحال کیا تھا اسی کی قیادت نے سامراج اور پاکستان کے حکمران طبقات کی ایما پر نہ صرف پیپلز پارٹی حکومت کا تختہ الٹا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا۔ شہادت سے قبل بھٹو نے جیل میں تحریر کی گئی اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ’’میں اس آزمائش میں اس لئے مبتلا ہوا ہوں کہ میں نے ملک کے شکستہ ڈھانچے کو تعمیر کرنے کے لئے دو طبقات میں مصالحت کروانے کی کوشش کی۔ طبقاتی مصالحت یوٹوپیا ہے۔ طبقاتی کشمکش نا قابل مصالحت ہے اور اس کا نتیجہ ایک یا دوسرے طبقے کی فتح کی صورت میںہی برآمد ہوگا۔‘‘ ضیاالحق کی رجعتی اور وحشیانہ آمریت اور بھٹو کے عدالتی قتل سے انقلابی اسباق اخذ کرنے کی بجائے نئی قیادت نے مصالحت کا راستہ اپنایا۔ قیادت کی مصالحانہ پالیسیوں کا نتیجہ مزید سانحوں، شکستوں اور پارٹی پر زیادہ وحشیانہ حملوں کی صورت میں برآمد ہوا۔ آج پاکستان کا معاشی نظام اور سماجی انفراسٹرکچر 1960ء اور 70ء کی دہائیوں کی نسبت کہیں زیادہ گل سڑ چکا ہے۔عالمی طور پر متروکیت کا شکار اس نظام میں اصلاحات کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔عوام کا ہرمسئلہ، ہر زخم ، ہر گھائو ایک انقلاب کے ذریعے پیداواری اور ملکیتی رشتوںمیں تبدیلی کا متقاضی ہے۔ آج پیپلز پارٹی کے پاس اپنے بنیادی منشور،سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کی سنہری روایات اور محنت کشوں کی طرف دوبارہ رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کی چھیالیس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے محنت کشوں اور پارٹی کارکنان نے اپنی سیاسی روایت کے لئے کبھی کسی قربانی سے دریغ سے نہیں کیا لیکن قیادت نے ان قربانیوں کو سر بازار نیلام کیا ہے۔ آج پارٹی قیادت کے وہ دم چھلے پاکستانی عوام اور پارٹی کارکنان کے سب سے بڑے مجرم ہیں جو بائیں بازو کا ناٹک کر کے قیادت کی دائیں بازو کی مجرمانہ پالیسیوں کی پردہ پوشی کر رہے ہیں ۔ محنت کش طبقہ لا متناہی طور پر اپنی سیاسی روایتوں سے چپکا نہیں رہتا۔ معاشی و سماجی نجات کے لئے آسان راستوں کی ناکامیوں کے بعد اس کے پاس صرف ایک راستہ بچتا ہے، انقلاب کا راستہ۔ حالات محنت کشوں کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے خون سے سینچی ہوئی روایات کو توڑ کر نئی روایت اور سیاسی قوت تراش لائیں۔ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی حقیقی طاقت قیادت پر براجمان جاگیر دار،سرمایہ دار اور مفاد پرست نہیں بلکہ پاکستان کے محنت کش اور استحصال زدہ عوام ہیں، انہی کی امنگوں پر پورا اترتے ہوئے پارٹی سیاسی افق پر دوبارہ ابھر سکتی ہے۔پارٹی کی بقا کا صرف یہی ایک راستہ اور صورت ہے، وگرنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں