ایک طرف امریکی سامراج ہچکچاہٹ اور تذبذب کی کیفیت میں شام پر ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ کے لئے پر تول رہا ہے تو دوسری طرف پاکستانی ریاست کراچی میں تشدد، قتل و غارت اور بھتہ خوری کے خاتمے کے لئے بڑے ’’سرجیکل آپریشن‘‘ کی تیاری کر رہی ہے۔کراچی کی آبادی دوکروڑ بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا تیسرا بڑا شہر بن چکا ہے۔ کراچی کے بیشتر شہری گزشتہ کئی دہائیوں سے بدامنی، بھتہ خوری اور جرائم کی کرب ناک اذیتوں کا شکار ہیں۔ آج اسی شہر میں وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس متوقع ہے جس میں ان جرائم کے خاتمے کے ہنگامی منصوبے کو حتمی شکل دی جائیگی۔ماضی میں بائیں بازو کے نمایاں سیاسی کارکن اور آج کل دائیں بازو کی حکومت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ایک بیان میںفرمایا ہے کہ ’’تمام ہوم ورک مکمل ہوچکا ہے‘ یہ آپریشن وزیر اعلیٰ سندھ کی سربراہی میں ہوگا جس میں تمام وفاقی سکیورٹی ایجنسیاں مکمل تعاون کریں گی۔‘‘ سندھ کے معمر وزیراعلیٰ طویل عرصہ سے اس عہدے پر فائز ہیںاور ان کے دور حکومت میں کراچی کے حالات بد سے بدتر ہی ہوئے۔ کیا پہلے وزیراعلیٰ صاحب کے پاس سکیورٹی ایجنسیوں اور ریاستی اداروں کی طاقت نہیں تھی؟ اب اچانک ایسا کون ساجادوئی نسخہ ہاتھ آگیا ہے کہ کراچی کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچانے والے یکایک اسے امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لئے کمربستہ ہوگئے ہیں؟ گزشتہ 23سال سے 1992ء کے آپریشن کا واویلا کرنے والے‘ کھیل میں نئے اور زیادہ ماہر کھلاڑیوں کی شمولیت کے بعد اب خود فوجی آپریشن کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ اس پورے عرصے میں ایم کیو ایم برسر اقتدار جماعتوں کی حلیف بھی رہی اور اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرتی رہی۔ اس عرصے میں عوام کی غربت، بیروزگاری اور محرومی میں اضافہ ہوا اور کراچی کے شہری جرائم اور دہشت گردی کا شکار رہے ہیں۔ امیدیں ٹوٹنے کے بعد مہاجر محنت کشوں اور نوجوانوں میں بدظنی اور اکتاہٹ نے جنم لیا ہے۔اس کے علاوہ روزگار کے مواقع کی تلاش میں پشتونوں اور دوسری قومیتوں کی بڑے پیمانے پر کراچی آمد کی وجہ سے بھی آبادی کا تناسب تبدیل ہوا۔ اس کے اثرات ایم کیو ایم پر بھی مرتب ہوئے اور اس کی افادیت اور ضرورت کم ہونے لگی۔ کراچی محنت کشوں کا شہر ہے۔ 1950ء اور اس کے بعد کی دو دہائیوں میں تیز ترین معاشی و صنعتی ترقی کا محور کراچی تھا۔ اگرچہ یہ ترقی بڑے پیمانے پر عوام کی حالت میں بہتری نہیں لاسکی لیکن اس کے باوجود کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جانے لگا۔ اس عرصے میں کسی حد تک فن، ادب اور تہذیب و تمدن میں نکھار آیا تھا،تاہم معاشی و سماجی ترقی کے انتہائی غیر ہموار کردار نے سماجی تضادات کو تیز کر دیا جس سے 1968-69ء کے انقلاب نے جنم لیا۔کراچی کے محنت کش متحد ہو کر اس انقلابی تحریک کا ہراول دستہ بن گئے اور رنگ، نسل،قومیت، مذہب، فرقے، ذات پات کے تمام تر فرسودہ تعصبات کو جھٹک کر ثابت کیا کہ محنت کش ایک نیا اور بہتر سماج تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؛ تاہم یہ شاندار تحریک ایک سوشلسٹ فتح سے ہمکنار نہ ہوسکی۔ اس پسپائی سے نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان میں ماضی کے تعصبات، بیگانگی اور مایوسی کی نفسیات نے عوامی شعور کو منتشر کردیا۔ کراچی کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں نے حکمران طبقات اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام کو جس طرح چیلنج کیا اس سے پاکستانی اشرافیہ کو شدید دھچکا لگا اور حکمران لرز کر رہ گئے؛ چنانچہ ’’تقسیم کر کے حکومت کرنے‘‘ کی پالیسی کو ازسر نو مرتب کیا گیا۔ ضیاء الحق کی آمریت کے سائے تلے ریاستی اداروں اور سیاست، صحافت اور ثقافت پر حاوی حکمرانوں کے ایجنٹوں کے ذریعے سماج میں تعصبات پر مبنی رجعتی تقسیم کو ابھارا گیا۔یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔اس وقت کراچی میں درجنوں قومیتوںاور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ کوئی حاوی سیاسی طاقت اس لسانی اور مذہبی تقسیم کو ختم کرکے طبقاتی بنیادوں پر عوام کو یکجا کرنا ہی نہیں چاہتی۔ مالیاتی سرمائے کے زور پر ہونے والی سیاست اسی سرمائے کی گماشتہ ہوتی ہے ۔ پاکستان کے حکمران طبقات معاشی،تکنیکی اور ثقافتی طور پر اتنے پسماندہ اور بحران زدہ ہیں کہ پیداواری صنعت اور’’قانونی طریقوں‘‘ کے ذریعے ایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشت اور معاشرے کی تعمیر نہیں کر سکتے۔یہ اپنے منافعوں میں اضافے کے لئے ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری سے بھی گریز نہیں کرتے اور محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ مختلف جرائم پیشہ عناصر، مافیاگروہ اور ریاستی اہلکار اپنا حصہ وصول کر کے اس استحصال اور ڈاکہ زنی کا تحفظ کرتے ہیں۔سرمایہ داروں کے درمیان لین دین کے تنازعات بھی تشدد کے ذریعے ’’حل‘‘ کروائے جاتے ہیں۔ایک بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے مزید گل سڑ جانے سے یہ عمل اور بھی تیز ہوگیا ہے۔بڑھتے ہوئے معاشی بحران، ریاستی اداروں کی داخلی ٹوٹ پھوٹ، نوجوانوں میں بیروزگاری کی خوفناک شرح، بدترین غربت اور بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج نے کراچی میں قتل عام، بھتہ خوری، جرائم اور دہشت گردی کو معمول بنادیا ہے۔کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر جھوٹا، فریبی، قاتل، بدعنوان اور دہشت گرد نہیں ہوتا بلکہ معاشرہ، مادی حالات،معروض اورسماجی نظام اس کے شعور اور سماجی کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ایم کیو ایم کی قیادت جاگیرداری کے خلاف تو بہت سرگرم ہے لیکن سرمایہ داری کے بارے میں خاموش ہے۔کیا کراچی کا مسئلہ جاگیرداری ہے؟مختلف غنڈہ گرد سرمایہ داروںپر مشتمل دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادتیںبھی فساد کی اصل جڑ یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریزاں ہیں۔سب علامات کا رونا روتے ہیں بیماری کی بات کوئی نہیں کرتا۔جہاں پولیس، رینجرز اور دوسرے ریاستی ادارے جرائم اور قتل و غارت گری پر قابو پانے میں ناکام ہوچکے ہیں وہاں فوجی آپریشن کی کامیابی کی کیا گارنٹی موجود ہے؟کالے دھن کا یہ کینسر ان ریاستی اداروں کے اندر بھی سرایت کر چکا ہے جو بظاہر اس کا قلعہ قمع کرنے کے لئے تشکیل دئیے گئے ہیں۔اس ریاست کا ہر ادارہ، ہر ستون اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ریاستی جبر اورسزائوں سے جرائم کبھی ختم نہیں ہوتے۔یہ سماجی خلفشار، کرپشن اور جرائم اس نظام کے بحران کی وجہ نہیں بلکہ اس کی پیداوار ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کے اس ناسور کو فوجی آپریشن نہیں بلکہ صرف انقلابی جراحی کاٹ کے پھینک سکتی ہے۔