"DLK" (space) message & send to 7575

بالشویک انقلاب کی میراث

آج سے 96 سال قبل روس میں جو انقلاب برپا ہوا تھا اس کے ذریعے تاریخ میں پہلی مرتبہ محنت کش طبقے کی اکثریت نے بالشویک پارٹی کی قیادت میں براہ راست اقتدارپر قبضہ کرکے ایک محنت کَش ریاست کو جنم دیا تھا ۔ محنت کَش طبقے نے سوویٹوں (پنچائتوں) کے نظام میں منظم ہو کراس انقلاب کو جنم دیاتھا۔ تقریباپانچ یا چھ سال تک یہ انقلاب اپنی کلاسیکل بنیادوں پر قائم رہا لیکن 1923-24ء کے بعداس کی زوال پذیری کا آغاز ہوگیا ۔سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کی مشروط پیش گوئی سب سے پہلے اس انقلاب کے قائدین لینن اور ٹراٹسکی نے ہی کردی تھی لیکن آج سامراجی پروپیگنڈہ کی یلغار میںجس حقیقت کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس انقلاب کے باعث پچاس سے ساٹھ سال کے قلیل عرصے میں روس پسماندہ ترین ملک میں تبدیل ہوگیا تھا۔ 1917ء میں ایک غریب پسماندہ روس میںانقلا بِِ اکتوبر کے ذریعے سرمایہ داری کو اکھاڑکرمنصوبہ بند معیشت نافذ کی گئی۔ اس بنیادی تبدیلی نے سابق سوویت یونین میں ترقی کی جس رفتاراوروسعت کو جنم دیا اس کی مثال تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتی۔1990ء تک سوویت یونین سٹیل‘مشین ٹولز‘ٹریکٹر‘ ٹرک‘ سیمنٹ‘ کوئلہ ‘ گیس ‘ تیل ‘ ریلوے ‘بجلی سمیت تیس اہم اوربنیادی صنعتوں میں دنیا میں سب سے زیادہ پیدا وارحاصل کررہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعدپچیس برسوں میں مغربی ممالک کیے مقابلے میں روس نے دگنی ترقی کی ۔اس دور میں فی کس آمدن میں 160فیصد اور سماجی اخراجات کی مد میں 400 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ۔پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ فلیٹ تعمیر کیے گئے۔ بنیادی اور ثانوی تعلیم پوری آبادی پر لازم اور بالکل مفت تھی ۔ شرح خواندگی 99 فیصد تک پہنچ گئی ۔ مجموعی طور پر امریکہ، جاپان اور یورپ سے زیادہ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ ٹیکنیشن‘ سائنس دان اور ماہرین سوویت یونین میں تھے۔ کئی شعبوں مثلاً خلائی تکنیک وغیرہ میںسوویت یونین نے امریکہ کو پچھاڑ دیا ۔ مکانوں اور ذرائع آمدورفت کے کرائے دنیا میں سب سے کم تھے ۔ غذائی اشیاء کی قیمتیں اتنی کم تھیں کہ تمام اخراجات کے بعد تنخواہ کا 50 فیصد سے زائد حصہ روسی محنت کش کے پاس بچ جاتا تھا۔افراط زر(1980ء سے پہلے تک) تقریباً صفر تھا۔ علاج مفت تھا۔اوسط انسانی عمر 1960ء کی دہائی میں امریکہ سے تجاوز کر گئی تھی۔ ابتدائی پانچ سالہ منصوبوں کے دوران سالانہ ترقی اور شرح پیداوار میں اضافہ 28 فیصد تک رہا۔ کوئی سرمایہ دارانہ معیشت اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکی تھی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے تک بیروزگاری ایک جرم تھا اور روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری تھی۔ بالشویک انقلاب کی زوال پذیری 1924ء کے بعد شروع ہوئی۔روس 1917ء سے پہلے ہی صنعتی، معاشی، سماجی اور ثقافتی طور پر ایک پسماندہ ملک تھا۔ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں نے وہاں کی بدحالی میں مزید شدت پیدا کردی ۔نومولود انقلاب کو کچلنے کے لئے 1918ء میں اکیس سامراجی ممالک نے مزدورریاست پرفوجی جارحیت کا آغازکر دیا۔انقلاب کے دفاع کے لئے تقریباً ساڑھے تین لاکھ کی بدحال فوج کو انقلابی عمل کے ذریعے صرف اٹھارہ ماہ کی قلیل مدت میں دفاع اور جنگ کے وزیر (کمیسار) ٹراٹسکی نے تیس لاکھ کی مضبوط سرخ فوج تیارکرکے سامراجی یلغارکو شکست دی۔ روس میں جنم لینے والا انقلاب چونکہ کسی ایک قوم یا ملک کا انقلاب نہیں تھا اس لیے لینن اور ٹراٹسکی نے دنیا بھر کے محنت کشوں سے اپیل کی کہ اپنے طبقے کے اس انقلاب کے دفاع کیلئے عالمی طور پر جدوجہد کی جائے۔اس اپیل کے جواب میں نہ صرف امریکہ ‘ برطانیہ‘ فرانس اور دوسرے سامراجی ممالک کے محنت کشوں نے ہڑتالوں کے ذریعے حملہ آور فوجوں کی سپلائی بند کردی بلکہ ان افواج میں بغاوتیں بھی شروع ہو گئیں۔مجبوراً سامراجی فوجوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی لیکن ترقی یافتہ یورپی ممالک جن میں جرمنی ‘ اٹلی‘ فرانس ‘ ہنگری اور برطانیہ شامل ہیں کے انقلابات کے فتح یاب نہ ہونے کی صورت میں روس میں محنت کش طبقے کاانقلاب علیحدگی اور بیگانگی کا شکار ہونا شروع ہوگیا۔ 1921ء میں لینن نے تیسری انٹر نیشنل کی مرکزی مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:’’ برلن جرمنی کا دل ہے اور جرمنی یورپ کا دل ہے،اگر جرمن انقلاب کامیاب نہیں ہوتا تو ہمارے انقلاب کا تباہی سے دوچار ہونا ناگزیر ہے ۔ جرمن انقلاب کی فتح کیلئے ہمیں اگر روسی انقلاب قربان بھی کرنا پڑا توہم ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ نہیں کریں گے‘‘۔ بعد میں جنم لینے والی زوال پذیری نے لینن کے اس تجزیے کو پوری طرح سچ ثابت کیا۔ خانہ جنگی‘ سامراجی جارحیت اور یورپی انقلاب کی ناکامی کی وجہ سے روس میں انقلاب کے تنہا رہ جانے سے زوال پذیری کے عمل پر فیصلہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ پسماندہ روس میں ان آفات نے قلت اور قحط کی صورتحال پیدا کردی۔ بالشویک پارٹی کے ہزاروں کیڈرز مزدور ریاست کا دفاع کرتے ہوئے سول جنگ میں مارے گئے جن کی جگہ اقتدار کی ہوس رکھنے والے بہت سے مفاد پرست چوردروازے سے بالشویک پارٹی میں گھسنا شروع ہوگئے ۔بڑھتے ہوئے سماجی خلفشار کو روکنے کیلئے ریاستی اقدامات میں شدت آنا شروع ہوگئی اور افسر شاہی نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دیں۔ سٹالنسٹ افسر شاہی نے شعوری یا لاشعوری طورپر بے پناہ نظریاتی غلطیاں اور سیاسی جرائم کیے۔لینن کے انتقال کے بعد ٹراٹسکی نے زوال پزیری کے خلاف مرتے دم تک جدوجہد جاری رکھی۔ سٹالن ازم کے جبرمیں تیرہ لاکھ کے قریب بالشویکوں اور انقلاب کی سیاسی زوال پذیری کے خلاف جدوجہد کرنے والے افراد اور ان کے خاندانوں کا قتل عام کیاگیا۔ انقلاب کے وقت بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے چوبیس میں سے تیئس ممبران 1938ء تک یا تو قتل کردیے گئے،خانہ جنگی میں مارے گئے ،جیلوں اور سائبیریا کے کیمپوں میں پابند سلاسل تھے یا پھر جلا وطن کردیے گئے تھے ۔ روس میں صرف ایک ممبر باقی رہ گیا تھااور وہ سٹالن خود تھا۔ سٹالنزم بنیادی طور پر اکتوبر انقلاب کے خلاف سیاسی ردانقلاب تھا جبکہ معیشت منصوبہ بندی پر مبنی ہی تھی جس کی بنیاد پر سوویت یونین معاشی و عسکری سپر پاور کے طور پر ابھرا۔ سوویت معیشت کے بڑھتے ہوئے حجم کے ساتھ ساتھ افسر شاہی کی طفیلی پرت بھی بڑھتی چلی گئی اور ایک وقت میں منصوبہ بند معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ بن گئی۔1970ء میں دس لاکھ سے زائد اشیاء بنانے والی سوویت معیشت کی منصوبہ بندی کے لئے ماسکو میں صرف پچاس وزارتیں کام کررہی تھیں جس سے بدانتظامی اورزیاں بڑھتا چلا گیا۔ مزدور جمہوریت کے فقدان نے آخر کار سوشلسٹ معیشت کے ار تقاکے عمل میں رکاوٹ بننا شروع کردیا ۔ سوویت یونین میں سوشلزم یا کمیونزم کی بجائے سٹالن ازم منہدم ہوا لیکن سامراجی ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے نے لینن اور ٹراٹسکی کو سٹالن کے جرائم کے لئے مورد الزام ٹھہرایا۔موت کسی اور کی ہوئی تھی اور ماتم کسی اور کا کیا گیا۔تاہم سوویت یونین کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بینکاروں کے بغیر عام محنت کش معاشرے کو چلا بھی سکتے ہیں اور ترقی بھی دے سکتے ہیں۔یہاں یہ بھی ثابت ہوا کہ منافعوں پر مبنی منڈی کی معیشت کی نسبت انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے پیداوار پر مبنی منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کہیں زیادہ مساوی، تیز تر اور فعال طریقے سے سماج کو ترقی دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔7نومبر 1917ء کا بالشویک انقلاب آج کے عہد میں ابھرنے والی انقلابی تحریکوں کے لئے مشعل راہ ہے جس پر چل کر ظالم سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑتے ہوئے ایک نیا سماج تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ سوشلزم سے کمیونزم کی منزل تک پہنچ کرایسا معاشرہ تعمیر کیاجاسکتا ہے جس میں مانگ اور محرومی کا نام و نشان نہ ہو۔ایسے سماج میں استحصال کے ساتھ ساتھ انسان اور انسان کے درمیان تضادات کا خاتمہ ہوگا اور نسل انسانی تسخیر کائنات کے سفر پر رواں دواں ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں