"DLK" (space) message & send to 7575

کشمیر کی پکار

اسلام آباد سے مظفر آباد جاتے ہوئے کوہالہ پل سے دریائے نیلم پار کیا جاتا ہے۔ جہاں کشمیر کے پہاڑوں، دریائوں اور وادیوں کی خوبصورتی دل کو لبھاتی ہے وہاں خستہ حال انفراسٹرکچر اپنی بوسیدگی کا احساس دلاتا ہے۔ کسی بھی ذی شعور کو اس جنت نظیر خطے کے قدرتی حسن سے زیادہ یہاں کے باسیوں کی بدحالی کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ چشموں کی فراوانی کے باوجود پینے اور استعمال کے پانی کا حصول ایک مشقت طلب کام ہے۔ سڑکیں ایک طرف سے بننا شروع ہوتی ہیں تو دوسری طرف سے ٹوٹنے لگتی ہیں۔ علاج معالجے کی سہولیات برائے نام ہیں، روزگار ناپید ہے، غربت عام ہے۔ 
منگل تین نومبر کو ''آزاد کشمیر‘‘ کے دارالحکومت مظفر آباد کی سڑکوں اور شاہراہوں پر بڑے پیمانے پر فوجی دستے تعینات تھے۔ شہر کے وسط میں واقع سرکاری عمارات کا علاقہ کرفیو کا سا سماں پیش کر رہا تھا۔ جگہ جگہ لگے پولیس ناکوں پر بچوں، خواتین اور بزرگوںکو پبلک ٹرانسپورٹ سے اتار کر تلاشی کے نام پر ذلیل کیا جا رہا تھا۔ پولیس کی جانب سے بند کی جانے والی بسوں اور ویگنوں کے سینکڑوں مسافر کئی میل پیدل چلنے پر مجبور تھے۔ یہ بھاری ریاستی آپریشن پاکستان کے منتخب اور جمہوری وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مظفر آباد آمد کے پیش نظر کیا جا رہا تھا۔ میاں صاحب یہاں ''آزاد جموں کشمیر کونسل‘‘ کے بجٹ اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ چونکہ میاں صاحب کو سیروسیاحت کا بھی شوق ہے اس لیے یہ اجلاس پہلی بار اسلام آباد کے بجائے مظفر آباد میں منعقد ہوا۔ وہ ہیلی کاپٹر پرگھنٹے بھر میں اسلام آباد سے کشمیر پہنچے اور اجلاس کے بعد اسی پر واپس تشریف لے گئے۔ ہیلی کاپٹر سے کشمیر کی وادیوں کا نظارہ یقیناً دلکش ہو گا لیکن اس فضائی سفر میں تلخ زمینی حقائق نظر نہیں آتے۔ کونسل کے اجلاس میں کشمیر کی ترقی کے لیے مختص کیا گیا بجٹ صرف 14.98 ارب روپے ہے۔ اس رقم کا موازنہ اگر سامراجی قرضوں پر ہر سال ادا ہونے والے ایک ہزار ارب روپے سے زائد کے سود، جنگی آلات کی خریداری پر صرف ہونے والے ہزاروں ارب روپوں اور حکمرانوں کی سرکاری عیاشیوں کے اخراجات سے کیا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی نظر میں آزاد کشمیر کے 50 لاکھ باسیوں کی کیا حیثیت ہے۔ جس کشمیر کے گرد پاکستان کی ساری دفاعی پالیسی گھومتی ہے اس کے باسیوں سے سرکار کی بے مہری ثابت کرتی ہے کہ معاملات کو جس طرح سے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، ریاست کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں کے حقیقی عزائم اس سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ جموں کشمیر کونسل کے اجلاس میں میاں صاحب نے وہی تقریر کی جو پچھلے 66 برسوں سے پاکستانی حکمران کرتے آ رہے ہیں یعنی ''کشمیر کے مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق نکالا جائے‘‘۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ ''میں نے امریکی صدر سے ملاقات میں کشمیر کا مسئلہ بھی اٹھایا تھا‘‘۔ یہ وہ گردان ہے جسے سن سن کر کئی نسلوں کے کان پک چکے ہیں لیکن حکمرانوںکو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ کون سی اقوام متحدہ اور کون سا امریکہ؟ امریکہ اور اقوام متحدہ پر براجمان دوسرے سامراجیوں کو بھارت کی سستی لیبر اور وسیع و عریض منڈی زیادہ عزیز ہے یا کشمیر کی آزادی؟ 
میاں صاحب کے بلند بانگ دعووں اور وعدوں کے بغیر کشمیر یاترا بھلا کیسے مکمل ہو سکتی تھی؟ اس موقع پر بھی میاں صاحب نے اپنی درخشاں روایات برقرار رکھتے ہوئے کشمیر میں ہوائی اڈوں کی تعمیر، ریلوے اور سڑکوں کا جال بچھانے اور انفراسٹرکچر کے دوسرے منصوبے شروع کرنے کے کئی وعدے کر ڈالے۔ 14 ارب روپے (جس کی قیمت ہر روز گرتی چلی جا رہی ہے) سے کشمیر کو سوئٹزرلینڈ کیسے بنایا جائے گا؟ یہ راز میاں صاحب خود ہی بتا سکتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے فرمایا:''میری خواہش ہے کہ آزاد کشمیر حکومت اس خطے کی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے‘‘۔ جس طرح بھارت میں وزارتوں کی تقسیم پر مقامی اور عالمی کارپوریٹ سرمایہ دار بولیاں لگاتے ہیں اور پاکستان میں پارٹی ٹکٹ سے لے کر سینٹ کی سیٹ تک نیلام ہوتی ہے، بالکل اسی طرح کشمیر کی سیاست پر بھی ٹھیکے داری ہوتی ہے۔ مال کمانے کے لیے سیاست کی جاتی ہے نہ کہ ترقی کے ''ٹھوس اقدامات‘‘ کرنے کے لیے۔
گزشتہ 66 برسوں میں بھارتی اور پاکستانی کشمیر کے باسیوں کے معاشی اور سماجی مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہو چکے ہیں۔ کشمیری نوجوان اسلام آباد سے کراچی، دہلی سے ممبئی اور ملائیشیا سے یورپ تک روزگار کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ کشمیر ی معیشت کا بڑا حصہ ان رقوم پر مبنی ہے جو کشمیری تارکین وطن اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں۔ کشمیر کو اٹوٹ انگ اور شہ رگ کہنے والوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ دونوں طرف کے حکمران کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے خوفزدہ ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انہوں نے پچھلے 66 برسوں میں جو کھلواڑ کیا ہے اس کے پیش نظر کشمیری شاید کسی سے بھی الحاق نہیں چاہتے۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر نے کشمیریوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے ہیں۔ بھارتی ریاست نے ہزاروں نوجوانوں کو شہید اور بے شمار خواتین کی بے حرمتی کی ہے لیکن مسلح جدوجہد بھارت کی دیوہیکل اور سفاک ریاست کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے۔ مذاکرات کا عمل بھی دہائیوں سے جاری ہے لیکن یہ عمل ''مذاکرات کے بارے میں مذاکرات‘‘ سے آگے نہیں بڑھ پایا۔ کشمیر کی آزادی کے چیمپئن بننے والے پاکستانی حکمران اس مقصد کے لیے مطلوب اپنی استعداد سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ بین الاقوامی اداروں پر کوئی دبائو ڈال سکیں۔ بھارتی اور پاکستانی حکمرانوں نے بیرونی تضادات اور تصادم ابھار کر داخلی طور پر ابھرنے والی تحریکوں کو دبایا ہے۔ کشمیرکے مسئلے کو بوقت ضرورت کبھی چولہے پر رکھ دیا جاتا ہے تو کبھی ڈیپ فریزر میں پھینک دیا جاتا ہے؛ تاہم داخلی طور پر نازک معاشی صورتحال اور نحیف سفارتی کیفیت کے پیش نظر پاکستان کے حکمرانوں کی کشمیر کے بارے میں گرمجوشی کافی عرصے سے ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ اب وہ مظفر آباد میں وزیر اعظم کے بیان کی طرح مسئلہ کشمیر کے لیے دعائے مغفرت ہی کر سکتے ہیں۔ 
کشمیر میں قوم پرست سیاست کی ایک تاریخ ہے لیکن کشمیری عوام کی آزادی اور مسائل کو طبقاتی بنیادوں پر برصغیر کے محنت کشوں کی لڑائی سے نہ جوڑ پانے کی وجہ سے کشمیری قوم پرستی تنہائی اور بیگانگی کا شکار ہو کر بہت حد تک زائل ہو چکی ہے۔ پھر دہشت گردی کو اس خطے پر مسلط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن کشمیر کی سیکولر اور ترقی پسندانہ ثقافتی روایات کے پیش نظر اس رجحان کو کبھی کشمیری عوام میں حمایت نہیں مل سکی۔ ریاست کی جانب سے قومی محرومی کے جذبات کو اپنے رجعتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہر کوشش کو کشمیر کے نوجوانوں نے مسترد اور ناکام کیا ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں کا انقلابی جوش و جذبہ اور عملی سیاست میں شمولیت بے مثال ہے۔ یہاں کے طلبہ اور نوجوانوں کی روایتی تنظیم جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) ریاستی جبر اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف جدوجہد کی سنہری روایات کی امین ہے۔ اس تنظیم کے پرچے کا نام ہی ''عزم‘‘ ہے جو کشمیری نوجوانوں کی حریت پسندی اور بلند حوصلوں کی غمازی کرتا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو مذہبی اور قومی رنگ دینے کی تمام تر کوششوں کے باوجود آج لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف ابھرنے والی تحریکوں، احتجاجوں اور ہڑتالوں کا طبقاتی کردار واضح ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے سماجی و معاشی مسائل کا حل بنیادی مطالبات میں شامل ہے۔ مظفر آباد اور سری نگر میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 87 فیصد کشمیری نوجوانوں کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ معاشی محرومی ہے۔ دراصل کشمیر کی جدوجہد آزادی پورے برصغیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے فطری وابستگی کی علامت ہے۔ بھارتی ریاست کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیر کی تحریک آزادی کے اہم رہنما مقبول بٹ نے کہا تھا: ''ہماری جدوجہد آزادی میں سرمایہ دارانہ استحصال اور مذہبی قدامت پرستی کے خاتمے کی جنگ بھی شامل ہے‘‘۔ کشمیر میں اس نظام کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریک پورے جنوب ایشیا کے لیے انقلابی چنگاری کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں