"DLK" (space) message & send to 7575

جمہوریت کی کٹھنائیاں

اس ملک کی اشرافیہ اور ان کی نمائندگی کرنے والے دانشور پچھلی کئی دہائیوں سے جمہوریت اور آمریت کی بحث کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بننے والے پرویز مشرف کے نام نہاد ٹرائل نے اس بحث کو ایک بار پھر سے گرما دیا ہے۔ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد امریکی سامراج نے سرد جنگ کے پس منظر میں اپنے سیاسی، معاشی اور اسٹریٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں فوجی آمریتیں مسلط کی تھیں۔ پاکستان میں ایوب خان اور ضیا الحق، چلّی میں جنرل پنوشے اور سپین میں جنرل فرانکو سمیت سابق نوآبادیاتی ممالک میں دائیں بازو کی آمریتوں کو مالی اور سفارتی امداد کے ذریعے مضبوط کیا گیا۔سوویت یونین کے انہدام، چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے نئے عالمی منظر نامے میں سامراج کے لیے کئی آمریتیں بے فائدہ ہوچکی تھیں؛سامراجی استحصال اور تسلط کو قائم رکھنے کے لیے نئی سیاسی ساخت درکار تھی۔''مصالحت کا نظریہ‘‘ (Theory of Reconciliation)اسی عہد میں تراشا اور مسلّط کیا گیاجس کے تحت ضیا الحق کی آمریت کے بعد پیپلز پارٹی کوکئی باراقتداردیاگیا۔
سرمایہ داری کے حامی دانشور اور سیاستدان ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت تک اقتدار کی منتقلی کو بہت بڑا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔چیف جسٹس اورآرمی چیف کی پُرامن تبدیلی پر بھی بگل بجائے جارہے ہیں؛تاہم نسل در نسل جمہوری حکومتوں اور فوجی آمریتوں کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہونے والے عوام کی اکثریت کے لیے یہ ''تبدیلیاں‘‘ بے معنی ہیں۔ سیاسی نان ایشوز کے ساتھ ساتھ میڈیا پر چلنے والے امراء کے جنسی سکینڈل اورناجائز تعلقات کے قصے کہانیاں محروم عوام کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔ غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور دہشت گردی کے ہاتھوں ہر روز ذبح ہونے والے کروڑوں لوگوں کو حکمرانوں کے ان تماشوں سے کوئی غرض نہیں۔
آمریتیں ہوں، جمہوری حکومتیں یا پرویز مشرف کی ''نیم جمہوری آمریت‘‘، تاریخ گواہ ہے کہ اس نظام کے سماجی و معاشی جبر میں کبھی کمی نہیں آئی، عوام اس ذلت سے تنگ آچکے ہیں۔ فی الوقت ان کے سامنے اس نظام کی سیاست کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔سیاسی اور اقتصادی بحران اشرافیہ کے مختلف حصوں اور پرتوں میں دراڑیں ڈال رہا ہے۔لوٹ مار میں مناسب حصہ داری سے محروم حکمران طبقے کے کچھ افراد اور سیاسی نمائندے غصے میں ''انقلاب‘‘کی باتیں کررہے ہیں۔مسائل حل کرنے میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ناکامی بالکل واضح ہوچکی ہے۔ عالمی سطح پراس کا بحران اتناشدید ہے کہ سیاسی تبدیلیاں اورسطحی اصلاحات کوئی بہتری پیدا نہیں کر سکیں گی۔سماج کو آگے بڑھانے کے لیے نظام کا خاتمہ ضروری ہے، لیکن ایسی کوئی بھی ریڈیکل تبدیلی حکمران طبقات کے معاشی مفادات سے متصادم اور ان کے اقتدار پرکاری ضرب کے مترادف ہے لہٰذا ذرائع ابلاغ پر براجمان بورژوا دانشور حقیقی متبادل کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔
مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی جمہوریت،امیروں کے لیے امیروں کی حکومت بن کر بے نقاب ہوچکی ہے۔ ریاست کا ایک مخصوص حصہ صورت حال کی نزاکت سے خوب واقف ہے۔یہ نظام نہ صرف محنت کش عوام کے لیے تباہ کن ہے بلکہ اس عہد میں اپنی جڑیں بھی خود کاٹتا چلا جارہا ہے۔حالیہ انتخابات کی اصلیت سے کون واقف نہیں ؟ ریاستی عہدہ داروں نے تسلیم کیا ہے کہ بڑے پیمانے پر چھان بین کی جائے تو مجموعی نتائج جعلی ثابت ہوں گے۔میڈیا پرجمہوری تبدیلی کا جعلی جشن دراصل حکمران طبقے کے خوف کا اظہار اور تلخ زمینی حقائق پر پردہ ڈالنے کی سعی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ گلے سڑے سیاسی نظام کی حقیقت اگر عیاں ہوتی ہے تو ناخوشگوار نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سیاسی مصالحت اور ''ذمہ دار اپوزیشن‘‘ کا کھیل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ میڈیا پر چلنے والی سیاسی بحث و تکرار بظاہر جتنی خودرو اور فطری معلوم ہوتی ہے، درحقیقت اسی قدر جعلی اور پُرفریب ہے۔ سب کو پتا ہے کہ ''اختلاف رائے‘‘ کی گرما گرمی میں بھی کن حدود سے تجاوز نہیں کرنا۔
دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ خطوں میں عام شہری سیاسی نظام پر سوال اٹھا رہے ہیں اور سرمایہ داری کے مستقبل کے بارے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ایشیا میں ایک کے بعد دوسرا ملک سیاسی خلفشار کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔اپوزیشن کی جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کر کے انہیں مسترد کر رہی ہیں۔پچھلے مہینے نیپال، بنگلہ دیش، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ملائیشیا میں یہی کچھ ہوا ہے۔سرمایہ دارانہ جمہوریت کا علمبردار جریدہ ''اکانومسٹ‘‘ اپنے پچھلے شمارے میں لکھتا ہے کہ ''آمریتوں کے سائے تلے زندگی گزارنے والے اس مغالطے کا شکار ہوتے ہیں کہ جمہوریت میں حکومت عوام کی مرضی کی ہوتی ہے،لیکن جمہوری ممالک میں رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقت مختلف ہے،جمہوریت میں آپ ایک حکومت کا انتخاب کرتے ہیں اور اگلے الیکشن تک آپ کو اسے برداشت کرنا پڑتا ہے‘‘۔
کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی اسی حقیقت کو زیادہ دیانتداری سے واضح طور پر بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''محکوم عوام کو ہر کچھ سالوں بعد یہ انتخاب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ حاکم طبقے کے کونسے نمائندے ان کا استحصال کریں گے۔۔۔ضرورت تب تک اندھی ہوتی ہے جب تک اس کا ادراک نہ ہوجائے۔آزادی دراصل ضرورت کا شعوری ادراک ہے‘‘۔ امریکہ کے جرأت مند صدر تھامس جیفرسن آج کی بیمار سرمایہ داری کے دانشوروں اور سیاستدانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ معقول تھے۔ تھامس جیفرسن نے جمہوریت کی اساس کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا:''جمہوریت اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب محنت کرنے والوں سے چھین کر کچھ نہ کرنے والوں کو نوازا جاتا ہے‘‘۔
بھارت میں ہونے والے حالیہ صوبائی انتخابات میں دہلی میں ''عام آدمی پارٹی‘‘ کی کامیابی، مسائل کے حل کے لیے بھارتی عوام کی آخری کوششوں میں سے ایک ہے۔عام آدمی پارٹی کی مخلوط حکومت کی جانب سے سرکاری اہلکاروں کے خصوصی پروٹوکول کا خاتمہ، بجلی میں سبسڈی، پینے کے پانی کی فراہمی جیسے اقدامات یقیناً قابل تحسین ہیں،لیکن زوال پذیر سرمایہ دارانہ معیشت میں یہ اصلاحات زیادہ آگے نہ بڑھ پائیں گی۔جہاں تک پانی، بجلی اور دوسری ضروریات زندگی کی فراہمی کا سوال ہے تو اس کے لیے تیسری دنیا کے بوسیدہ انفراسٹرکچر میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔یہ سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ سرمایہ داروں کی دولت اور ذرائع پیداوار کو ضبط کر کے منصوبہ بند معیشت کے تحت سماج کی تعمیر و ترقی پر صرف کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی کے پاس اپنے سیاسی نعروں اور وعدوں سے مطابقت رکھنے والا معاشی لائحہ عمل اور پروگرام نہیں ہے۔ بہت جلد بھارت کے عوام اس نئی سیاسی جماعت سے بھی مایوس اور دل برداشتہ ہوجائیں گے اور ان کے پاس سرمایہ داری کے سیاسی نظام کو توڑ کر آگے بڑھنے کے سواکوئی چارہ نہیں ہوگا۔
جمہوریت یا آمریت بذات خود نظام نہیں ہیں بلکہ ایک نظام کو چلانے کے دو مختلف سیاسی طریقہ کار ہیں۔دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز اورکارپوریٹ سرمائے کی آمریت میں حقیقی جمہوریت پنپ ہی نہیں سکتی ۔تلخ تجربات اوردھوکے دنیا بھر میں عوام کو اس حقیقت کا ادراک کروا رہے ہیں۔عوام کا شعور عام ادوار میں معاشی حقائق کے پیچھے چلتا ہے۔انقلاب کے غیر معمولی حالات میں جب سماجی شعور ٹھوس زمینی حقائق سے میل کھاتا ہے تو دھماکہ خیز واقعات جنم لیتے ہیں اور طبقاتی تضادات واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔معاشی بحران کے شدت پکڑنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر طبقاتی کشمکش میں بھی تیزی آتی جارہی ہے۔آنے والے عہد میں بڑھتی ہوئی طبقاتی کشمکش دنیا بھرمیں نئے انقلابات کو جنم دے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام سے بغاوت کر کے ہی نسل انسان اس حقیقی جمہوریت کی بنیاد ڈال سکتی ہے جس میں انسان سرمائے کی آمریت سے آزادی حاصل کر کے اپنی زندگی کے فیصلے خود کرسکیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں