"DLK" (space) message & send to 7575

بھارت: تبدیلی سے عاری انتخابات

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ، بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات مئی میں ہونے والے ہیں۔ بازارِ سیاست روز بروز گرم ہو رہا ہے۔ ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے حالیہ سروے کے مطابق نریندرا مودی کے وزیراعظم بننے یا انہیں ارب پتیوں کی مالی مدد سے ''بنوائے‘‘ جانے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ دس برس سے بر سر اقتدار کانگرس‘ لوک سبھاکی کُل 543میں سے شاید 100نشستیں بھی حاصل نہ کرپائے ۔اس صورت حال میں ہزاروں بے گناہوں کے لہو سے ہاتھ رنگنے والے ایک مذہبی جنونی کا وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار کے طور پر ابھرنا ہندوستان کے جعلی سیکولرازم کو بے نقاب کرتا ہے۔
بھارت کی معاشی ترقی کے تمام تر شور شرابے کے باوجود اس کے محنت کش عوام کی حالت زار پہلے سے بدتر ہوچکی ہے۔کانگرس حکومت نے 2006-07ء میں 9.6فیصد تک کی شرح نمو حاصل کی جس کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے اور سرمایہ دار اسے روس، چین ، برازیل اور جنوبی افریقہ کے ساتھ دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کر رہے تھے ، خاص طور پر 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے باعث جب امریکہ اور یورپ کی معیشتیں گہرے زوال کا شکار ہو گئیں تو معیشت دانوں کی نظریں بھارت جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مرکوز تھیں۔ لیکن یہ خواب جلد ہی چکنا چور ہو گئے ۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی شرح نموجہاں امیر افراد کی دولت میں مزید اضافہ کرتی ہے اور سرمایہ داروں کے منافعوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے‘ وہاں محنت کشوں کے استحصال میں بھی شدت آتی ہے اور غریب پہلے سے زیادہ غریب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نجکاری کے بعد بڑے پیمانے پر ملازمین کی برطرفی سے آبادی کے بڑے حصے کی قوت خرید میں اضافے کی بجائے کمی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑا سوال اس شرح نمو کو لمبے عرصے تک برقرار رکھنا ہوتا ہے جس کے لیے سرمایہ داروں کے منافعوں کی شرح میں مسلسل اضافے کی ضرورت ہوتی ہے۔2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد ہندوستان کی معیشت کا اس کے اثرات سے بچنا ممکن نہیں تھا۔ گزشتہ سال جولائی سے ستمبر کے درمیان ہندوستانی روپے کی قدر میں تیزگراوٹ دیکھنے میں آئی۔اگست 2013ء میں روپیہ 69 فی ڈالر کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا جبکہ جنوری 2013ء میں ایک ڈالر 52روپے کا تھا۔18برسوں میں یہ تیزترین گراوٹ تھی جس سے اسٹاک مارکیٹوں میں کھلبلی مچ گئی اورغیر ملکی زر مبادلہ باہر جانے لگا۔
جی ڈی پی کی شرح نمو کم ہو کر 2013ء میں 4.7فیصد تک گر گئی جبکہ اگلے مالی سال میں بھی اس میں اضافے کے امکانات کم ہیں۔ تیز ترین شرح نمو کے دور میں بھی غربت، بیروزگاری اور دیگر سماجی مسائل میں اضافہ ہو رہا تھا اور اب جبکہ معیشت کے یہ تمام اشاریے نیچے جار ہے ہیں تو سماج کی ہولناک صورتحال کا تصور کرنا مشکل نہیں۔ افراط زر 11فیصد سے زائد ہے اوراشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔عالمی بینک کے اعداد وشمار کے مطابق2010ء سے بھارت میں 84کروڑ افراد دو ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ ایک ارب 17کروڑ افراد پانچ ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزار رہے ہیں جو آبادی کا تقریباً 97فیصد بنتا ہے۔یہ سب واضح کرتا ہے کہ ماضی قریب کی 
تمام تر ترقی کا اصل فائدہ کس طبقے نے اٹھایا ہے۔
گرتی ہوئی شرح نمو اور سرمایہ کاری کے باعث سرمایہ دار بھی متبادل کی جانب دیکھ رہے ہیں۔اس وقت ممبئی اسٹاک ایکسچینج کے اہم کھلاڑیوں سمیت تمام بڑے سرمایہ دار مودی کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال بھارت کے سو بڑے سرمایہ داروں میں سے 74نے مودی کے حق میں رائے دی تھی۔اسی طرح انیل امبانی اور مکیش امبانی دونوں نہ صرف مودی کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ اس کے جلسوں میں شریک ہو کر اسے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ قرار دے رہے ہیں۔ 2009ء میں مکیش امبانی کا اسکینڈل سامنے آیا تھا جب وہ ایک بھارتی صحافی کے ساتھ وفاقی وزارتوں کے سودے کر رہا تھا ۔ اسی دوران اس نے کہا تھا کہ''کانگریس تو اپنی دوکان ہے‘‘۔ اب اس نے اپنی بازی مودی پر لگا دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ عالمی سطح کے سرمایہ دار بھی مودی کی حمایت کر رہے ہیں۔ دنیا کی اہم سرمایہ کار کمپنیوں میں شامل گولڈ مین ساچز اور عالمی سرمایہ داری کے نمائندہ جریدے اکانومسٹ نے بھی مودی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا کا نیا سربراہ رگھو رام راجن اس عہدے پر آنے سے پہلے آئی ایم ایف کا چیف اکانومسٹ رہ چکا ہے۔ راجن نے عہدہ سنبھالتے ہی ہندوستان کے مالیاتی شعبے میںمزید نجکاری اور لبرلائزیشن کا پیغام دے دیا ہے۔ 2014ء میں نہ صرف امبانی کے ریلائنس گروپ سمیت بہت سے نئے بینکوں کو لائسنس دیے جائیں گے بلکہ سرکاری بینکوں کی نجکاری بھی کی جائے گی۔ مالیاتی شعبے کی نجکاری سے جہاں بیروزگاری پھیلے گی وہاں بھارت میں وہی پالیسیاں اختیار کی جائیں گی جنہوں نے امریکہ اور یورپ کو اقتصادی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام بڑی پارٹیوں کا معاشی پروگرام ایک ہی ہے۔کوئی بھی پارٹی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا پروگرام نہیں دے رہی۔ ساری سیاست ذات پات، قومیت، مذہب، پاکستان دشمنی اور دیگر ایسے نان ایشوز پر ہو رہی ہے جن سے عوام کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ریاستی انتخابات میں ابھرنے والی عام آدمی پارٹی کا پروگرام بھی کچھ مختلف نہیں۔ بر سر اقتدار آتے ہی عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کیجری وال نے کچھ اصلاحات کا اعلان بھی کیا ہے جن میں دہلی میں بجلی کی قیمتوں میں پچاس فیصد تک کمی اور گھریلو صارفین کو سرکاری پانی کی فراہمی میں اضافہ شامل ہے ، لیکن ان تمام اصلاحات کی حدود جلد ہی کھل کر سامنے آ چکی ہیںاور اس نومولودپارٹی کے داخلی اختلافات میں بھی شدت آرہی ہے۔ موجودہ معاشی صورت حال میں سرمایہ داری کو قائم رکھتے ہوئے نہ تو بجلی کی قیمتوں میں کمی کے فیصلے کو زیادہ دیر برقرار رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی کرپشن کا خاتمہ ممکن ہے۔بہت جلد عام آدمی پارٹی کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت عوام پر عیاں ہو جائے گی اور یہ سیاسی جماعت بھی دوسروں کی طرح اس نظام کی رکھوالی کا فریضہ انجام دینے لگے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کا معاشی پروگرام بھی کانگریس اور بی جے پی کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات پر مشتمل ہے۔ ہندوستان میں وسیع عوامی بنیادیں رکھنے والی کمیونسٹ پارٹیوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آنے والے چناؤ میں سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ اتریں اور محنت کش طبقے تک ایک متبادل معاشی پروگرام لے کر جائیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادتیں نظریاتی زوال پزیری کا شکار ہو کراس نظام سے مصالحت کر چکی ہیں اورسوشلسٹ انقلاب کو رد کر کے کی جگہ انتخابی سیاست میں غرق ہوگئی ہیں۔ ان پارٹیوں کے کارکنوں میں قیادتوں کی موقع پرستی اور نظریاتی انحراف کے خلاف بغاوت کے ابھر رہے ہیں۔ 
فروری 2013ء کی ملک گیر ہڑتال اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام تر سیاسی کھلواڑ میں بھارت کا محنت کش طبقہ اپنے زور بازو پر طبقاتی لڑائی کی تیاری کر رہا ہے۔ بینکنگ کے شعبے کے ملازمین کی 22دسمبر کی ہڑتال بھی معنی خیز ہے جو نجکاری کے خلاف لڑائی کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ مطالبات منظور نہ ہونے پر فروری میں دوبارہ ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔آنے والے عرصے میں بھارت میں طبقاتی کشمکش میں شدت آئے گی اوراس کا محنت کش طبقہ اپنی انقلابی روایات کو زندہ کرتے ہوئے جب تاریخ کے میدان میں قدم رکھے گا تو پورے بر صغیر و جنوبی ایشیا پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں