خواص کے کاموں اور نظاموں میں بھلا عام آدمی کا کیا کام؟۔ بھارت کے دارالحکومت دہلی اور اس کے مضافات پرمشتمل دہلی کے صوبے میں حال ہی میں ابھرنے والی '' عام آدمی پارٹی‘‘ کی حکومت کے 49دن بعد ہی مستعفی ہونے کے اعلان نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں اسی کے تقاضوں اور حدود کے مطابق ہی پالیسیاں بنائی جاسکتی ہیں ۔ ''عام آدمی پارٹی‘‘ کے لیڈر اروند کِجری وال نے انتخابی مہم کے دوران وعدے کئے تھے کہ ہر غریب گھر کو 700لٹر پانی روزانہ فراہم کریں گے، ان کے بجلی کے بلوں میں 50فیصد رعایت کی جائے گی، بے گھروں کے لیے 2000 نئے مکان تعمیر کیے جائیں گے، جھونپڑپٹیوں اور غیر قانونی بستیوں کو مالکانہ حقوق دلائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ کوئی ایک وعدہ بھی وفا نہ ہوسکا۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہوگا کہ اس پارٹی کی حکومت کو کم وقت ملاہے، لیکن اگر اس نظام میں کِجری وال کی حکومت اگلے سو سال بھی قائم رہتی تو یہ وعدے پورے نہیں ہونے والے تھے۔
ہندوستان میں1947ء کے بعد ریاستی سرمایہ داری کی پالیسی کے تحت ریاست کا معیشت، سروسزسیکٹر اور تجارت پر سخت گیر کنٹرول تھا۔ اس پالیسی کو'' نہروین سوشلزم‘‘ بھی کہا جاتا رہا حالانکہ سوشلزم کا ریاستی سرمایہ داری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ 1991ء تک ہندوستانی معیشت کا74 فیصد حصہ سرکاری ملکیت میں ہونے کا مقصد ہی مقامی سرمایہ داروں کے لئے سستی سروسز ، خام مال اور مراعات فراہم کرنا تھا تاکہ ہندوستان کا سرمایہ دار طبقہ تیزی سے بھاری منافع حاصل کرکے صنعتی انقلاب کے تقاضوں کو پورا کر سکے؛تاہم تیسری دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح یہ حکمران طبقہ اس قدر کمزور اور رجعتی ثابت ہوا کہ چار دہائیوں تک مکمل ریاستی تعاون کے باوجود صنعتی انقلاب کا کوئی ایک حصہ بھی مکمل نہ کرسکا۔یہ سرمایہ دار معیشت کو ترقی تو کیا دیتے الٹا بھارت کی سرکاری معیشت کو بھی لے ڈوبے۔
پھر1991ء میں کانگرس کی حکومت نے ہی (جس میں نرسیما رائو وزیر اعظم اور منموہن سنگھ وزیر خزانہ تھے) ریاستی سرمایہ داری کی پالیسی کو ترک کر کے معیشت کو مالیاتی سرمائے کے لیے کھول دیا ۔ نجی سرمائے نے تعلیم سے لے کر پانی اور علاج تک ہر شعبے پر یلغار کردی۔ 1991ء کے بعد بھارت کی معیشت بلند شرح سے نمو پاتی رہی۔25سے 30کروڑ آبادی پر مشتمل ایک وسیع درمیانہ طبقہ پیدا ہواجس سے سامراجی اور مقامی سرمایہ داروں کووسیع منڈی ملی۔ایک طرف ''چمکتے ہوئے بھارت‘‘ کا شور مچا تو دوسری طرف اس ساری ترقی نے ایک ارب باسیوں کو معاشی سائیکل سے ہی باہر دھکیل کر غربت،محرومی اور ذلت کی کھائی میں گرا دیا۔ لیکن پچھلے 5سالوںکے دوران سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ترقی کے اشاریے بھی تیزی سے گرنا شروع ہوچکے ہیں۔ شرح نمو آدھی سے بھی کم ہوگئی ہے،بھارتی روپے کی شرح تبادلہ اور غیرملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے گراوٹ آئی۔پچھلے دس سال میں تمام ملک کی ملازمتوں میں صرف2فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ہر ماہ لاکھوں افراد روزگار کی منڈی میں داخل ہورہے ہیں۔ معاشی بحران اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے نومود درمیانہ طبقے کو بھی شدید اضطراب میں مبتلا کردیا ۔
بھارت کے سرمایہ دار طبقے کی روایتی پارٹی کانگرس داخلی ٹو ٹ پھوٹ اور سماجی نفرت کا شکار ہے۔ بھارت کی بڑی کمیونسٹ پارٹیاں CPI(M) اور CPI وغیرہ کی قیادتیںمرحلہ وار انقلاب کے فرسودہ سٹالنسٹ نظریے کی وجہ سے عوام کو متبادل فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔اس سیاسی خلا نے 1990ء کی دہائی میں ابھرنے والی ہندو مذہبی بنیاد پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ بھارتی ارب پتی اور عالمی سامراجی اجارہ داریاں بی جے پی کے امیدوار برائے وزارت عظمیٰ کی مکمل پشت پناہی کررہے ہیں۔ فاشسٹ رجحان رکھنے والے نریندر مودی سے سرمایہ دار یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ باقی رکاوٹوں، ریاستی جکڑ بندیوں اور عوام کو دی جانے والی رعائتوں کو ختم کرکے ان کی تجوریاں مزید بھرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ وہ مودی کے ذریعے بھارت کے پرولتاریہ( مزدور طبقے) کو مزید کچل کر محنت اور سرمائے کی اس جنگ میں تیزی لانا چاہتے ہیں۔ لیکن بی جے پی بھی دو مرتبہ مرکزی حکومت میں آکر بھارت کے عوام کے سامنے بہت حد تک بے نقاب ہوچکی ہے۔ گو درمیانہ طبقہ بی جے پی کا بنیادی ووٹ بنک ہے لیکن اس طبقے کے کچھ حصے بھی اس بنیاد پرست جماعت سے بیزار ہیں۔ بھارت کے وسیع سیاسی خلا میں اگرچہ ''تیسرے فریق‘‘ کی گنجائش کافی عرصے سے موجود ہے لیکن کوئی سیاسی قوت اسے پر کرنے میں ناکام رہی ہے۔
''عام آدمی پارٹی‘‘ نے ایک نیم فسطائی انا ہزارے کی قیادت میںکرپشن کے خلاف چلنے والی مصنوعی تحریک سے جنم لیا تھا۔ دہلی کے انتخابات میں70میں سے28 سیٹیں حاصل کرنے والی اس پارٹی کی بنیادیں بھی درحقیقت درمیانے طبقے یا ''سول سوسائٹی‘‘ میڈیا ہیں۔ اس عارضی کامیابی کی رو میں بہہ کر درمیانے طبقے کی کئی پرتیں فطری لاابالی پن کی وجہ سے سیاسی طور پر متحرک ہوگئیں ۔ اروندکِجری وال نے دوسرے سیاست دانوں کی طرح اپنی صوبائی حکومت کو آنے والے قومی انتخابات میں کامیابی کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔یہ بھارت کی روایتی کرپٹ سیاست کی آزمودہ چالبازی ہے ۔ اس نے کرپشن کے خلاف ''جن لوک پال بل‘‘ کو دہلی اسمبلی پر زبردستی ٹھونس کر اسے متنازع بنایا۔ بل جب فوری طور پر بحث کے لئے منظور نہ ہوا تو اس کو بہانہ بنا کر استعفیٰ دے دیا۔ اس ساری واردات کا مقصد عوام کے سامنے بے نقاب ہونے سے قبل اپنی عارضی مقبولیت کو قومی سیاست میں کوئی بلند مقام حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا ہے۔
بھارت کی شہرہ آفاق مصنف اور کشمیر میں بھارت کے ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے والی ارون دتی رائے (جس پر بی جے پی والے ''پاکستانی اور آئی ایس آئی ایجنٹ‘‘ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں) نے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں '' عام آدمی پارٹی‘‘ کی قیادت کوگاندھین شب خون کا نام دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ اروندکِجری وال اور منیش سسوڈیانے این جی او ''کبیر‘‘ کے لیے فورڈ فائونڈیشن سے 4 لاکھ ڈالر حاصل کئے۔ ارون دتی رائے کے مطابق ''اروند کِجری وال، کرن بیدی اور منیش سسوڈیا کو فورڈفائونڈیشن کے ساتھ ساتھ راک ٹیلر فائونڈیشن سے مالی امداد ملتی رہی ہے ۔
ورلڈ بینک افریقہ میں600 انٹی کرپشن پروگراموں اور ''ورلڈ سوشل فورم‘‘ کی فنڈنگ بھی کرتاہے۔ ان اداروں کا مقصد عالمی اجارہ دارانہ سرمائے کی ان ممالک میں سرائیت کو بڑھانا ہے ۔ کرپشن کے خلاف کام کرنے والی این جی اوز کی اپنی کرپشن کو اس بل کے زمرے میں نہیں لایا گیا۔ انا ہزارے کی تحریک کا پروگرام ورلڈ بینک کے ایجنڈے کی فوٹو کاپی ہی تھی۔ کِجری وال کی ثبوت طلبی پر جب یہ مسئلہ زور پکڑ گیا تو فورڈ فائونڈیشن کے بھارت میںنمائندے سٹیون سول نِک(Steven Solnick) کو ان رقوم کی ادائیگی کا اعتراف کرنا پڑا تھا۔
بروکنگرزانسٹیٹیوٹ راک فیکر اور فورڈ فائونڈیشن کی طرح سینکڑوں امریکی ادارے اپنے معاشی مقاصد کے لئے دنیا بھر میں مختلف سیاست دانوں اور این جی اوز کو خریدتے یا بناتے ہیں۔ ان اداروں کو میڈیا پر بہت ہی معتبر اور ''انسان دوست‘‘ بناکر پیش کیا جاتا ہے جبکہ ان کا حقیقی مقصد عالمی سرمایہ داری کے استحصال کو تیز کرنے میں مدد دینے والے '' ماہرین‘‘ اور سیاست دان تشکیل دینا ہوتاہے۔
اروند کِجری وال اتنا بھی بے خبر نہیں ہے۔ انتخابات جیتنے کے بعد وزیر اعلیٰ کا حلف لینے سے پہلے اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ ''میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ جو کچھ کہا وہ کرڈالوں۔‘‘ درمیانے طبقے کا ''عام آدمی پارٹی‘‘ کے لیے جوش وخروش ٹھنڈاپڑنے لگا ہے ۔ جب تک یہ نظام قائم ہے ''عام آدمی پارٹی‘‘ جیسے عارضی بلبلے بنتے اور پھٹتے رہیں گے۔غربت اور استحصال کی چکی میں پسنے والے بھارت کے ایک ارب سے زائد 'عام آدمیوں‘‘ کو اپنی نجات کے لئے خود لینن اسٹ انقلابی پارٹی کی تشکیل کے لیے تحریک چلانا اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہاں کی پرولتاریہ اور نوجوانوں کو اپنی عظیم انقلابی میراث کو پورے برصغیر کے لیے زندہ کرنا ہوگا۔ اس نظام اور سیاست میں ان کونجات کوئی خیرات میں نہیں دے سکتا۔ ؎
رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے!