اس سال یوم مئی ایسی نیم مذہبی سرمایہ دارانہ حاکمیت کے زیر سایہ منایا جارہا ہے جو محنت کشوں پر معاشی حملوں کی انتہا کررہی ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پورا کرۂ ارض شدید انتشار اور تلملاہٹ سے لرز رہا ہے ۔ ایک عہد کی کوکھ سے دوسرا عہد جنم لے رہا ہے۔ 2014 ء کا یوم مئی محنت کش طبقے اور نسل انسانی کے مقدر کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ رجعت کے ایسے گھنائونے دور کا اختتام ہورہا ہے جس میں تمام بنیادی انسانی قدریں پامال ہوکر رہ گئی تھیں۔ یہ مایوسی اور بدگمانی دہائیوں تک چھائی رہی۔ عظیم تاریخی مقاصد کے لئے جستجو اور سائنسی نظریات سکڑ کررہ گئے تھے۔ جھوٹ کو سچ بنایا جارہا تھا اور سچائی کا خون بہایا جارہا تھا۔ماضی کے نظریات کا تسلط ایک جامد معاشرے کے تعفن کو زیادہ اذیت ناک بنا رہا تھا۔ روح، احساس او ر سوچ کی گھٹن اتنی بڑھ گئی تھی کہ انسان سسک اور معاشرے پراگندگی اور بدظنی کی حدت سے سلگ رہے تھے۔ محنت کش عوام سے ہر امید چھین لی گئی تھی‘ ان کی آرزوئوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ دولت کے لالچ‘ ہوس کی شدت اور پیسے کی دوڑنے انسانیت کو دیوانہ بنارکھا تھا۔ استحصال کی شدت اورغربت کی ذلت میں زندگی کی وحشت اتنی تیزی سے بڑھ رہی تھی کہ انسانی رشتوں، سماجی بندھنوں او ر تہذیبی اقدار کی تنزلی سے بربریت کا آسیب سارے عالم پر چھانا شروع ہوگیا۔ یہ باور کروادیا گیا تھا کہ اب یہی سرمایہ دارانہ نظام، معاشرہ اور قدریں ہی انسان کا مقدر ہیں؛ لہٰذا اپنی غیرت کو راہ میں رکھ دو۔ اشتراکیت اور اجتماعیت کو ماضی کے فرسودہ نظریات بناکردھتکار دیا گیا تھا۔ ٹریڈیونین لیڈروںکی اکثریت نے سرمایہ داری کو گلے سے لگا لیا تھا‘ نجکاری کی'' عظمتوں‘‘ کو مزدوروں کی رگوں میں ایک زہر کی طرح اتار دیا گیا ۔ دھوکہ دہی‘ فریب اور مکاری کو مزدور تحریک کا حصہ بنا دیا گیا۔ مزدور سیاست بدعنوانی بن گئی ۔ مراعات، دولت، سماجی رتبوں اور طاقت کے حصول کے دوڑ میں حسد اور مقابلہ بازی کوٹریڈیونین سیاست کا معیار بنادیا گیا۔ سچ اور نظریات پر قائم رہنے والوں کو بھی شکوک اور شبہات کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ مارکسزم کے نظریات کی جانب سابقہ '' سوشلسٹ‘‘ اور ''کمیونسٹ‘‘ مزدور لیڈروں کی حقارت محنت کشوں اور انقلابیوں کو دل برداشتہ کرتی رہی۔چین اور روس میں سرمایہ داری کی بحالی کے بعد بہت سے ''کمیونسٹوں‘‘ نے پیکنگ اور ماسکو کو چھوڑ کرواشنگٹن کو قبلہ بنا لیا۔ اس نظام میں اصلاحات کے ذریعے بہتری پر ''سیمینار‘‘ کرنے کا فیشن چل نکلا۔ این جی اوز کھمبیوں کی طرح اگنے لگیں۔''جمہوریت کی بحالی‘‘، ''آئین کی پاسداری‘‘، ''سگریٹ نوشی کے نقصانات‘‘، ''انسانی حقوق‘‘، ''ماحولیات کے تحفظ‘‘ اور '' عدلیہ کے تقدس‘‘ وغیرہ جیسے بے معنی اور سطحی موضوعات پر ''مظاہروں‘‘اورمارچوں کی بھرمار کردی گئی۔ سوشلسٹ انقلاب کے لفظ کو تضحیک کے ہم معنی اور سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کو جرم بنا دیا گیا۔ یہ کیفیت آج بھی کسی حد تک موجود ہے لیکن سماج کی کوکھ میںپکنے والے لاوے کی حدت بہت بڑھ چکی ہے۔ سماجی ہلچل اور تحریکوں میں شدت آنا شروع ہوگئی ہے۔
یکم مئی 1886ء کوامریکہ کے شہر شکاگو میں سفید جھنڈے اٹھائے ہوئے مزدوروں کے جلوس پر امریکی سرمایہ دارانہ ریاست کے اہل کاروں نے جب گولی چلائی تھی تو ان محنت کشوں کے لہو سے سفید جھنڈوں کا رنگ سرخ ہوگیا تھا۔یہ سرخ پرچم آج بھی محنت کش طبقے کی جدوجہد کا نشان ہے۔ ان محنت کشوں کا جرم یہ تھا کہ وہ کام کے اوقات کار آٹھ گھنٹے مقرر کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یکم مئی 1886ء کے اس جلوس پر ریاستی دہشت گردی مزدوروں پر سرمایہ داری کا پہلا یا آخری ستم نہیں تھا لیکن یہ واقعہ مزدور تحریک کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے حوالہ بن گیا۔ اس واقعے کی مناسبت سے ہر سال یکم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ دنیا بھر کے مزدوروں کو یکجاکرنے والی تنظیم (دوسری انٹرنیشنل) نے کیا تھا۔1889ء میں پیرس میں ہونے والے دوسری انٹرنیشنل کے تاسیسی اجلاس میں یہ تجویز کارل مارکس کے عمر بھر کے ساتھی اور مارکسزم کے بانی فریڈرک اینگلز نے پیش کی تھی۔ 1889ء کے بعد سے ہر سال یہ دن عالمی سطح پر مزدوروں کی یکجہتی اور جدوجہد کی علامت کے طورمنایا جاتا ہے۔125سال بعد بھی یوم مئی دنیا کا واحد تہوار ہے‘ جسے دنیا بھر کے مزدور سرخ پرچم تھامے‘ سرحدوں ‘ مذہبوں ‘ قوموں ‘ نسلوں ‘ براعظموں اور ہر دوسری جغرافیائی‘ سماجی، لسانی اور ثقافتی تقسیم سے بالا تر ہو کر دنیا کے گوشے گوشے میں ایک نعرے''دنیا بھر کے محنت کشو‘ ایک ہوجائو‘‘کے تحت یکجا ہوکر مناتے ہیں۔
1886ء کے شکاگو کے شہیدوں کی جدوجہد 8گھنٹے یومیہ اوقات کار کے حصول کے لئے تھی۔ اس کے بعد آنے والی محنت کش طبقے کی نسلوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے اس سے کہیں زیادہ بڑے مطالبات منوائے اور بہت سی مراعات حاصل کرلیں ۔ لیکن جبر‘ اذیت اور استحصال ختم نہیں ہوا۔ جب بھی نیچے سے انقلاب اٹھتا ہے حکمران اوپر سے اصلاحات کرکے اس انقلابی تحریک کو اصلاح پسندی کے راستوں پر زائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔پاکستان میں ریاستی جبر کے انتہائی مشکل حالات میں بھی محنت کشوں نے بہت سی تحریکیں چلائیں لیکن قیادت کے ہاتھوں بار باردھوکے کھائے۔ یہاں کے محنت کشوں نے 1968-69ء میں ایک عظیم انقلابی تحریک برپا کر کے اپنی جرات، طاقت اور صلاحیت کا اظہار کیا تھا۔ ان میں یہ اہلیت آج بھی موجود ہے ۔
آج ہر ملک میںنجکاری‘ ڈائون سائزنگ‘ ڈی ریگولیشن‘ری سٹرکچرنگ اور ٹھیکیداری نظام کو نافذ کرنے کی پالیسیاں بے دردی سے لاگو کی جارہی ہیں ۔ اس کا لازمی نتیجہ غربت‘ بے روزگاری ‘ بیماری‘ ناخواندگی‘ سماجی وبنیادی صنعتی ڈھانچوں کی بربادی اور زندگی کی بدحالی کی شکل میںنکل رہا ہے ۔سرمایہ داری میں اصلاح یا بہتری کی گنجائش نہیں۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے معیشت‘ سماج اور ریاست کے ڈھانچوں میں بنیادی تبدیلی ہی واحد متبادل ہے۔ اس کی عدم موجودگی میں نہ صرف ''ترقی پذیر‘‘ بلکہ''ترقی یافتہ‘‘ ممالک میں بھی بربریت کے عناصر سر اٹھا رہے ہیں۔ ریاستیں بکھر رہی ہیں۔خاص طور پر ایشیا اور افریقہ میں انسانی تہذیب کے انہدام کے ابتدائی آثار
ظاہر ہورہے ہیں۔ پچھلی ایک دہائی کے دوران کئی ممالک میں بلند معاشی شرح نمو کے باوجود سماجی تنزلی میں اضافہ ہوا ہے لیکن آج شرح نمو کی وہ سطح بھی قصہ ماضی بن چکی ہے۔ غربت اور امارت کی وسیع ترین خلیج آج بھی موجود ہے۔ غریب ترین ممالک میں دنیا کے امیر ترین لوگ پائے جاتے ہیں۔ کم سے کم ہاتھوں میں دولت کا زیادہ سے زیادہ ارتکاز ہورہا ہے۔صرف 85امیر ترین افراد کے پاس ساڑھے تین ارب انسانوں کی کل جمع پونجی سے زائد دولت ہے۔ دنیا کی نصف سے زائد آبادی غربت کے کسی نہ کسی درجے پر زندگی گزاررہی ہے۔ ان حالات میں آج کے یوم مئی کا پیغام 8گھنٹے یومیہ اوقات کار سے بڑھ سوشلسٹ انقلاب کی ناقابل مصالحت جدوجہد بن گیا ہے ۔ اس سے کم کوئی پالیسی، کوئی لائحہ عمل محنت کشوں کے ساتھ غداری اور عوام سے دھوکہ دہی کے مترادف ہے ۔ عالمی سطح پر انسانی معاشرہ انقلاب کیلئے پک کر تیار ہوچکا ہے۔ سرمایہ داری وہ بوسیدہ عمارت ہے جسے محنت کش طبقے کی ایک ضرب منہدم کر سکتی ہے۔ اس فیصلہ کن اور کاری ضرب میں ہی نسل انسانی کی نجات پنہاں ہے۔مارکسسٹوں کا فرض ہے کہ وہ محنت کش طبقے کو اس تاریخی فریضے کی ادائیگی کے لئے منظم اور متحرک کریں۔ اس فیصلہ کن عہد میں سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد، قربانی، مستقل مزاجی اور مارکسزم کے نظریات پر غیر متزلزل اندازمیں قائم رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔ ضرورت صرف محنت کش طبقے کی طاقت، ہمت اور جرأت پر یقین رکھتے ہوئے انقلابی لائحہ عمل کی روشنی میں آگے بڑھنے کی ہے۔ وقت بہت قریب آن پہنچا ہے ؎
ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے
اِک دیس نہیں اِک کھیت نہیں ہم ساری دنیا مانگیں گے