"DLK" (space) message & send to 7575

اقلیتوں کا مقدمہ

گزشتہ مہینے ایک کمپنی کی جانب سے چھاپا گیا ایک پمفلٹ نظر سے گزرا جس میں مسیحی برادری کو ایسٹر کی مبارکباد پیش کی گئی تھی۔ اس کی اختتامی سطور کچھ اس طرح تھیں: ''آج ایسٹر کے تہوار کے موقع پر کمپنی کے 6ہزارملازمین چھٹی پر ہیں‘ عوام سے درخواست ہے کہ گھروں سے باہر کوڑا نہ پھینکیں‘‘۔ یہ ایک اشتہار اس ملک میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کی بخوبی عکاسی کرتا ہے۔ 
پاکستان میں آباد عیسائی، ہندو، سکھ اور دوسری مذہبی اقلیتیں صرف ضیا دور کے قوانین کا ہی شکار نہیں بلکہ انہیں کام کی جگہوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر جگہ پر تعصب آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومتی یا نیم حکومتی خیراتی سکیموں میں سے انہیں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ اقلیتوں کے لیے شادی اور طلاق کے قوانین بھی تلخ اور پیچیدہ ہیں اور شادی کی رجسٹریشن تو اکثریت کی مالی پہنچ سے باہر ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے سندھ میں کنواری یا شادی شدہ ہندو لڑکیوں کے اغوا، زبردستی تبدیلیِ مذہب اور جبری شادی کی خبریں مسلسل منظر عام پر آ رہی ہیں۔ میڈیا کے کچھ حصوں کی جانب سے مسلسل کوریج کے باوجود حکومت نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا‘ جس کی وجہ سے ہندوئوںکی سندھ سے بھارت ہجرت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔
ماضی قریب میں پوری عیسائی بستیوں کو جلا دینے کے کئی واقعات پیش آئے۔ 98 فیصد مسلمان آبادی کے جس ملک میں مساجد اور امام بارگاہیں تک محفوظ نہ ہوں‘ وہاں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں بھلا شدت پسندوں سے کیسے بچ سکتی ہیں؟ مندروں اور گرجا گھروں میں بم دھماکے بھی ہونے لگے۔کفر کے فتوے ہر روز جاری ہوتے ہیں، انتہاپسند مُلا دوسرے فرقوں کو کافر قرار دے دیتے ہیں۔ ماضی میں توہین کے قوانین کا استعمال صرف ریاست، مذہبی رہنما یا بالادست طبقہ ہی کرتے تھے لیکن اب ان کا معاشی، سیاسی اور ذاتی استعمال عام ہو گیا ہے۔ پراپرٹی کے جھگڑوں، بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کے علاوہ ذاتی دشمنیوں میں بھی الزام لگا کر دوسرے فریق سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ چند روز قبل ہی جھنگ میں ایس ایچ او کے خلاف احتجاج کرنے والے 68 وکیلوں کے خلاف پولیس نے ''توہین رسالت‘‘ کا مقدمہ درج کر دیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایس ایچ او کے اسلامی نام کو جواز بنایا گیا۔ یاد رہے کہ ایس ایچ او کے خلاف مظاہرین نعرے لگا رہے تھے۔ مذکورہ ایس ایچ او خود کو ایک طاقتور صوبائی وزیر کا رشتہ دار بتاتا ہے۔ 
مذہبی انتہاپسندوں اور دائیں بازو کے سرکاری دانشوروں کی جانب سے عیسائیوں اور دوسرے غیر مسلموں کو''کم تر انسان‘‘ ہونے کا جو تاثر دیا جاتا ہے‘ اس سے ایک مخصوص نوعیت کی سماجی نفسیات جنم لیتی ہے۔ اسی طرح سرکاری نصاب میں ''ہندوئوں نے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں سے غداری کی‘‘ اور ''کافروں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا‘‘ جیسے جملے 'تاریخ‘ کے نام پر پڑھائے جاتے ہیں۔ 
''عوام قوانین کے بارے میں جتنا کم جانتے ہیں، رات کو اتنی ہی پُرسکون نیند سوتے ہیں‘‘۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انیسویں صدی میں جدید اور متحدہ جرمنی کی بنیاد ڈالنے والے سیاسی رہنما بسمارک نے یہ الفاظ پاکستان کی قانونی اور آئینی بھول بھلیوں کے بارے میں کہے تھے۔ ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں 1973ء کے آئین میں بنیاد پرستی کا ایسا زہر گھولا گیا کہ اس کے بعد آنے والی کوئی بھی 'جمہوری حکومت‘ ان قوانین کا خاتمہ نہ کر سکی۔ آج بڑے بڑے سیکولر اور لبرل سیاستدان بھی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے سے قبل اسی آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔ برطانوی راج کا قانونی نظام اور مذہبی قوانین ساتھ ساتھ قائم ہیں، ریاستی مشینری کی درمیانی اور نچلی پرتوں کی مدد سے ان قوانین سے بوقت ضرورت استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ رشوت کے ذریعے یہ عمل اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔
عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق کے ساتھ ساتھ الگ نشستوں کا اجراء اگرچہ ایک مثبت قدم تھا لیکن اس سے اقلیتوں کے مسائل میں کوئی کمی نہیں آئی۔ قوانین کا اجراء اور ان پر عمل درآمد دو الگ چیزیں ہیں۔ اگر اس طرح کے قوانین ختم کر کے اقلیتوں کے تحفظ کے قوانین نافذ کر دیے جائیں تو بھی زمینی صورت حال جوں کی توں رہے گی کیونکہ ان قوانین پر عملدرآمد کروانے والے ریاستی اہلکاروں کی نفسیات متعصب اور جانبدارانہ ہے۔ اگر کوئی ریاستی اہلکار مذہبی انتہاپسندوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ راشد رحمان کے قتل کے بعد ملتان کے ہزاروں وکلا میں سے کوئی بھی ان کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ آبادی کی اکثریت بنیاد پرستی کو مسترد کرتی ہے، پاکستان میں فرقہ واریت اور مذہبی تعصب سماج کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
برصغیر کی جدید تاریخ میں مذہب کو سیاست میں استعمال کرنے والوں میں 'امن‘ اور 'عدم تشدد‘ کا علمبردار موہن داس کرم چند گاندھی سرفہرست محسوس ہوتا ہے۔ قائد اعظم، گاندھی کو مکار لومڑی کہا کرتے تھے اور یہ ''خطاب‘‘ درست تھا۔ ہندوئوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کو گاندھی کی جانب سے دیا جانے والا 'ہم آہنگی‘ اور'اخوت‘ کا درس دراصل ہندوستان میں مذہبی تقسیم کو اجاگر کرنے کا باعث بنا۔ اس خطے کے عوام ہزاروں سال سے مذہبی تفرقات کو بالعموم بالائے طاق رکھے ہوئے تھے لیکن مختلف مذاہب کا نام لے کر دیے جانے والے 'اتفاق‘ کے درس سے الٹ نتائج برآمد ہوئے۔ گاندھی کو بھی اس بات کا بخوبی علم تھا۔ برطانوی نوآبادکاروں نے روز اول سے برصغیر کے عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی لیکن گاندھی نے مذہبی شناخت کو ابھارکر منافرتوں کا بیج بویا اورسامراجی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا۔ اسی بنیاد پر تقسیم کے وقت خون کی ہولی کھیلی گئی۔ اب خطے کے تمام ممالک میں مذہبی بنیادوں پر نفرت اور تشدد میں
اضافہ ہو چکا ہے۔ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے لیکن دنیا میں سب سے زیادہ مذہبی فسادات اسی ملک میں ہوتے ہیں۔
برصغیر کے حکمران ''تقسیم کر کے حکومت‘‘ کرنے کی سامراجی پالیسی کو آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک جدید اور ترقی یافتہ سماج کی تعمیر میں ناکام ہو جانے والے حکمران طبقے کی مجبوری ہے کہ وہ اپنی لوٹ مار اور استحصال جاری رکھنے کے لئے عوام کو مذہب اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم کرتا رہے۔ معیشت کے بحران اور سماجی خلفشارکے ساتھ فرقوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے، حتیٰ کہ نام نہاد سیکولر سیاستدان بھی بوقت ضرورت مذہبی کارڈ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
مخصوص نشستوں پر انتخاب جیسے اقدامات کے ذریعے سماج اور ریاست کی جانب سے اقلیتوں پر جبر کا خاتمہ ممکن نہیں۔ منتخب نمائندے اسی جابرانہ نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بالادست طبقات کے افراد اور امراء اس ملک کے حکمران طبقے کا ہی حصہ ہیں۔ وہ ہر فیصلہ کن موڑ پر اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے غریبوں کی بجائے ریاست اور حکمران طبقے کا ساتھ دیں گے۔ معاشرے میں ہونے والے ظلم سے نجات صرف طبقاتی بنیادوں پر یکجہتی کے ذریعے سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بھوک، بیروزگاری، غربت اور مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا ہر مذہب، ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے غریب انسان کو ہے۔ نیم رجعت، مایوسی اور شعوری گراوٹ کی موجودہ معروضی صورت حال زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکتی۔ طبقاتی جدوجہد کا نیا ابھار ہو کر رہے گا جسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے محنت کش عوام کو تمام منافرتوں اور تعصبات کو مسترد کرنا ہو گا! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں