"DLK" (space) message & send to 7575

بلیک ہول

بلیک ہول اس کائنات میں پائی جانے والی وہ 'سیاہ کھائیاں‘ ہیں جو سیاروں اور دیوہیکل ستاروں جیسے فلکیاتی اجسام کو مسلسل نگلتی رہتی ہیں۔ ان کی انتہائی طاقتور کشش ثقل سے روشنی بھی فرار حاصل نہیں کرسکتی ۔ بلیک ہول کی حد یا حلقہ اثر میں داخل ہونے والی اشیا تاریکی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غرق ہوجاتی ہیں۔ 
انسانی سماج میں کئی طرح کے '' معاشی بلیک ہول ‘‘ پائے جاتے ہیں جن کی بھوک اربوں کھربوں روپے ہڑپ کر لینے کے بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پاکستان میں بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں (PPsٰI)کی مثال ہی لے لیں۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عوام کے ہزاروں ارب روپے نگل جانے والی ان مالیاتی سیاہ کھائیوں نے پورے سماج پر تاریکی مسلط کررکھی ہے۔ پچھلے ہفتے حکومت نے ان کمپنیوں کو صرف چند دنوں تک بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لئے مزید 20 ارب روپے ادا کئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اور نوٹ چھاپ کر '' گردشی قرضہ ‘‘ اتارنے کے لئے بجلی پیدا کرنے والی سامراجی اجارہ داریوں اور مقامی کمپنیوںکو 500 ارب روپے کی ادائیگی کی تھی۔ صرف ایک سال میں یہ گردشی قرضہ دوبارہ تین سو ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔اس ماہ کے آغاز میں ایک ملکی خبر رساں ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ''330دنوں کے دوران گردشی قرضے میں 330ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی یہ قرضہ ایک ارب روپے روزانہ کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔۔۔ پاکستان میں IPPsسوکلو واٹ بجلی بنانے کے لئے 24کلوگرام فرنس آئل استعمال کرتی ہیں جبکہ عالمی سطح پر بجلی کی اتنی ہی مقدار صرف 14کلوگرام فرنس آئل سے پیدا کی جاتی ہے‘‘۔ اسی طرح پاکستان میں گیس کے 12ہزار BTU سے بجلی کا ایک یونٹ بنایا جارہا ہے جبکہ بھارت میں اتنی ہی بجلی صرف 5 ہزار BTU سے بنتی ہے۔ لوٹ مارکتنے بڑے پیمانے کی ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ 
آنے والے دنوں میں گرمی کے ساتھ ساتھ گردشی قرضہ بھی بڑھتا جائے گا۔ ہرحکومت گردشی قرضے کی ادائیگی مذہبی فریضے کی طرح کرتی ہے۔ اس خطیر رقم کی ادائیگی سے بجٹ خساروں میں اضافہ ہوتا ہے جس کا تمام تر بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ذریعے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر ہمیشہ اس قرضے کے بارے میں ' تشویش‘ کا اظہار کیا جاتاہے۔ کچھ ' دانشور‘ حضرات نے تو اس کی بروقت ادائیگی کو اخلاقیات کا حصہ بنا دیا ہے۔ سرکاری معیشت دان اور تجزیہ نگار گردشی قرضے پر ' قابو‘ پانے کے لئے طرح طرح کی تجاویز تو پیش کرتے ہیں لیکن یہ رقم کس مد میں کس کو ادا کی جاتی ہے ، اس کا ذکر کبھی نہیں کرتے ۔ بجلی کا یونٹ کتنے روپوں سے بنتا ہے اورکتنے میں بننا چاہئے؟ 1990ء کی دہائی میں نجی کمپنیوں سے ہونے والے معاہدوں کی شرائط کیا تھیں؟ ان کمپنیوں کی شرح منافع کیا ہے اورگزشتہ بیس برسوں میں کتنا منافع کمایا گیا اورکتنی رقم ملک سے باہر بھیجی گئی؟ پاکستان جیسے غیر ترقی یافتہ ملک کو، جہاں پن بجلی کے ذریعے توانائی کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں، آخر تیل سے مہنگی بجلی بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ان بنیادی سوالات پر بات ہوتی ہے نہ ہی کبھی تلخ زمینی حقائق منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ درحقیقت بحث کو اس سمت میں لے جانے پر ہی غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی ہے جہاں مجموعی 
طور پر پورے نظام کا کردار بے نقاب ہوجانے کا خطرہ ہو۔ 
انتہائی اعتدال پسند اور محتاط اندازوں کے مطابق نجی کمپنیاں 40 سے 50 فیصدکی شرح سے منافع کما رہی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ' جائز منافع‘ ہے اور سبسڈائز تیل کو بلیک مارکیٹ میں بیچنے جیسے '' آمدن ‘‘ کے کئی دوسرے طریقے اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح بجلی پیدا کرنے والی سامراجی اجارہ داریوں کی جانب سے پچھلی دو دہائیوںکے دوران ملک سے باہر بھیجے جانے والے منافعوں کا اندازہ 30 سے 60 ارب ڈالر ( تقریباً چھ ہزار ارب روپے ) لگایا گیا ہے۔ IPPs کے ساتھ ہونے والے حکومتی معاہدے بھی بڑے 'دلچسپ‘ ہیں۔ یہ کمپنیاں بجلی بنائیں یا نہ بنائیں، حکومت انہیں پیداواری صلاحیت کے 60 فیصد کے مساوی ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔2007ء میں SDPI نامی ادارے کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق '' تمام IPPs پورا سال اگر بجلی کا ایک یونٹ بھی پیدا نہ کریں تو بھی حکومت کو ایک 60 ارب روپے کی ادائیگی کرنا پڑے گی‘‘۔ افراط زر اور روپے کی قدرمیں گراوٹ کو مدنظر رکھا جائے آج یہ رقم 100ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ اس تخمینے میں 2007ء کے بعد ہونے والے معاہدے اور ان کی شرائط شامل نہیں ہیں۔
بجلی کے شعبے میں نجی سرمایہ کاری کا آغاز ورلڈ بینک کے ایما پر 1994ء میں وضع کی گئی حکومت پاکستان کی 'پاور پالیسی‘ کے تحت ہوا تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے '' ساز گار ماحول ‘‘ فراہم کرنے کے لئے ترتیب دی جانی والی یہ ' پالیسی‘ دراصل قانونی ڈاکہ زنی کا منصوبہ تھا۔ پالیسی کے مطابق پاور پلانٹ لگانے والی کمپنی کو منصوبے کی کل لاگت کے 20 فیصد کے مساوی ' سرمایہ کاری‘ کی گئی ، باقی کا 80فیصد حکومتی گارنٹی پر مقامی بینکوں سے قرض لے کر مہیا کیا گیا۔ سود سمیت اس قرض کی ادائیگی حکومت کی ذمے تھی اور وہ اس مد میں IPPs کو ماہانہ Capacity Payment دینے کی پابند تھی۔ یہ IPPsکارپوریٹ انکم ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس سے مکمل طور پر مستثنیٰ تھیں۔ حکومت IPPsکو تمام تر ادائیگیاں ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر اور افراط زر کے مطابق کرنے کی پابند تھی۔ علاوہ ازیں' ریٹ آف ریٹرن‘ کی مد میں پلانٹ کی عمر یا میعاد پوری ہونے تک نجی کمپنی کو اس کی سرمایہ کاری کا 15سے 20 فیصد سالانہ ادا کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ ان تمام تر شرائط کے نتیجے میں ہر 25 ملین ڈالرکی نجی سرمایہ کاری ( ملکی یا غیر ملکی )کے بدلے میں حکومت نے 83 ملین ڈالر عوام کا خون پسینہ نچوڑکر ان کمپنیوں کو ادا کئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ واردات نجی شعبے کی ' اعلیٰ کارکردگی‘ اور آزاد منڈی کی 'برتری‘ کی بہترین مثال ہے۔ 
1994ء کی پاور پالیسی کے اجرا کے فوراً بعد امریکہ کی مشیر برائے وزارت توانائی ہیزل اولیری 80 امریکی سرمایہ کاروںکا گروہ لے کر پاکستان آئیں ۔ اس دورے کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں اور حکومت کے درمیان IPPsکے 16معاہدے طے پائے تھے۔ ان نئے منصوبوں کی پیداواری صلاحیت 3400 میگا واٹ تھی حالانکہ اس وقت، مستقبل قریب میں بجلی کا شارٹ فال کا اندازہ صرف 1000میگا واٹ تھا۔واپسی پراولیری نے پاکستان کی توانائی پالیسی کو 'دنیا میں سب سے بہترین‘ قرار دیا ۔ حکومت کی اسی 'بہترین پالیسی‘ کا نتیجہ ہے کہ سامراجی اجارہ داریاں اور مقامی سرمایہ دار آج تک اس بہتی گنگا میں اشنان کر رہے ہیں اور عوام لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے بدحال ہیں۔
وفاقی وزیرخواجہ آصف نے واضح طور پر کہا ہے کہ لوڈ شیڈنگ 2018ء تک ختم نہیں ہوگی۔ دوسری طرف بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی امید رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار کے موجودہ منصوبوں کے معاہدے اور شرائط بھی 1994ء سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ یہ بجلی کی پیداوار کے نہیں بلکہ لوٹ مار کے ' نئے منصوبے‘ ہیں۔
پاکستان کا حکمران طبقہ منافعوں کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ سرمایہ داری کی بیماری اب پاگل پن میں تبدیل ہوچکی ہے۔ عوام کو غربت اور محرومی کی چکی میں پیس کر کشید کئے گئے کھربوں روپے IPPsکی اندھی کھائیوں میں پھینکے جارہے ہیں۔گیلپ کے تازہ سروے کے مطابق 138ممالک کے لئے ترتیب دی گئی خوشی اور مسکراہٹ کی فہرست میں پاکستان کا 117نمبر ہے۔ لیکن اب عوام کی برداشت جواب دیتی جارہی ہے۔ شدید ہوتا ہوا طبقاتی تضاد دھماکہ خیز انداز میں پھٹ کر بغاوت کو جنم دے گا اورحکمرانوں کے انجام کا فیصلہ محنت کشوں کا انقلاب ہی کرے گا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں