"DLK" (space) message & send to 7575

دیوالیہ معیشت کی ’’بجٹ سازی‘‘

کچھ دہائیاں پہلے تک سالانہ بجٹ کا اعلان ایک اہم اور مشہور واقعہ ہوا کرتا تھا۔بجٹ تقریر کے وقت سڑکوں پر سے ٹریفک غائب ہوجاتی تھی۔ خاندان کے افراد یا پھر یاروں دوستوں کے گروہ بڑی خاموشی، انہماک اور دلچسپی سے ٹیلیوژن کے سامنے یا ریڈیو کے قریب بیٹھ کر وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سنا کرتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ عوام نے حکمرانوں کی تقاریر، وعدوں اور دعووں پر کان دھرنا ہی چھوڑ دیا۔ 
ماضی میں ملک کی معیشت کسی حد تک مستحکم تھی جس کے پیش نظر حکمرانوں اور ریاستی پالیسی سازوں کے لئے کم از کم ایک سال کی معاشی منصوبہ بندی ممکن تھی۔ اس وقت بجٹ تقاریر میں پیش کی گئی اشیائے خورونوش کی قیمتیں پورا سال نہ سہی، کچھ مہینوں تک ضرور برقرار رہتی تھیں۔ علاوہ ازیں روایتی ٹریڈ یونین اور سیاسی قیادتوں نے محنت کش طبقے کو اتنے دھوکے نہیں دئیے تھے۔ عوام میں سیاسی تحرک موجود تھا اور نیچے سے دبائو کے پیش نظر سماج پر مسلط حکمران بے حس ہوکر بڑے پیمانے کے معاشی حملے کرنے کے قابل نہ تھے۔آج صورتحال کافی مختلف ہے۔ معیشت تباہی اور بربادی کی جس نہج پر پہنچ گئی ہے‘ وہاں دور رس معاشی منصوبہ بندی تو درکنار چند ہفتوں تک قیمتوں کو برقرار رکھنا بھی ناممکن ہوگیا ہے۔پورے کرہّ ارض پر یہ نظام، کینشین ازم اور ریاستی سرمایہ داری سے لے کر مانیٹرازم اور ٹریکل ڈائون اکانومی سمیت، اپنی ہر شکل میں ناکام اور تاریخی طور پر متروک ہوچکا ہے۔
آج سیاست پر حاوی تمام تر سیاسی جماعتوں کا معاشی پروگرام ایک ہے۔ اقتدار اور اپوزیشن میں بیٹھی تمام بڑی پارٹیاں حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرتی ہیںاور سرمایہ داری پر یقین رکھتی ہیں۔لوٹ مار میں حصہ داری پر ان کے درمیان لاکھ اختلافات ہوجائیں لیکن اس استحصالی نظام کی حفاظت کے لئے یہ سب یکجا ہیں۔ سامراجی مالیاتی اداروں کی طرف سے رٹائی جانے والی ''آزاد منڈی‘‘، بیرونی سرمایہ(ایف ڈی آئی)، نجکاری، ری سٹرکچرنگ اور ڈائون سائزنگ کی گردان کے علاوہ اس سیاسی اشرافیہ کے پاس کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔ سب کے سب سرمایہ دار طبقے اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو دی جانے والی ''مراعات‘‘ اور ٹیکسوں میں چھوٹ کو ہی معاشی نمو کا نسخہ قرار دیتے ہیں۔1970ء میں عوام کی انقلابی تحریک کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی حکومت کے ابتدائی چند سالوں کے سوا ،اس ملک کا ہر بجٹ امیر دوست اور غریب دشمن رہا ہے۔
عالمی سطح پر سرمایہ داری اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔پاکستان جیسے سابق نوآبادیاتی ممالک میں تو یہ نظام کبھی بھی صحتمند بنیادوں پر استوار ہی نہیں ہوسکتا لیکن اس عہد میں اس کی وحشت ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔عام انسان کا معیار زندگی تیزی سے گر رہا ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور آبادی کی وسیع اکثریت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی جارہی ہے۔ دو دن پہلے ہی اسحاق ڈار نے اعتراف کیا ہے کہ 50فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی حقیقی شرح 70سے 80فیصد تک ہے۔اس معاشی بدحالی میں سماج، ثقافت، رشتے، اقدار، سیاست اور ریاست سب گراوٹ کا شکار ہیں۔
پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت ''غیر محسوس‘‘ طریقے سے خساروں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کی کوشش کرتی تھی لیکن اب کی بار سرمایہ داروں،کارپوریٹ آقائوں اور بڑے صنعت کاروں کی ''اپنی‘‘ حکومت ہے۔ دوسری طرف مالیاتی بحران کے اس عہد میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی ادارے بھی زیادہ خونخوار ہوگئے ہیں۔پاکستان کے وفاقی بجٹ کا بڑا حصہ ریاستی قرضے پر سود کی ادائیگی کی نظر ہوجاتا ہے۔اس بجٹ میں 1325ارب روپے ملکی اور غیر ملکی قرضے کی واپسی یا سود کی ادائیگی کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ پچھلے مالی سال میں یہ رقم 1194ارب روپے تھی ۔کچھ دن پہلے آئی ایم ایف کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے ہر شہری کے ذمے واجب الادا قرض ،ایک سال میںنو ہزار روپے اضافے کے ساتھ 85ہزار روپے ہوگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ملک کی اکثریت نے اتنی رقم کبھی دیکھی بھی نہ ہوگی۔2013-14ء کے معاشی سروے کے مطابق حکومت کو تقریباً 5500ارب روپے کا قلیل مدتی داخلی قرضہ ایک سال کے اندر ادا کرنا ہے۔اس قرضے کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لینے کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
قرضوںپر سود کی ادائیگی کے بعد بجٹ کا دوسرا سب سے بڑا حصہ ''دفاعی اخراجات‘‘ کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس مالی سال میں11فیصد اضافے کے ساتھ 700ارب روپے ''دفاع‘‘ کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ فوج کو 165ارب روپے ''ہنگامی حالات‘‘ میں خدمات فراہم کرنے کے بدلے میں بھی ملیں گے۔ ''کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کے 85ارب اس کے علاوہ ہیں۔ ''جمہوری‘‘ حکومتوں میں دفاعی اخراجات کے حجم میںاضافہ فوجی آمریتوں سے کہیں تیز ہوجاتا ہے!
3900ارب روپے کے بجٹ میں سے 2000ارب روپے (50فیصد سے زائد) سامراجی قرضوں اور ''دفاع‘‘ کی نذر ہوجائیں گے۔اس کے مقابلے میں صحت اور تعلیم کے لئے بجٹ کا صرف 2.3فیصد مختص کیا گیا ہے۔ان اعداد و شمار سے حکمران طبقے اور ریاست کی ترجیحات بالکل واضح ہوجاتی ہیں۔سماجی خدمات کے ریاستی انفراسٹرکچر کی زبوں حالی صرف حکمرانوں کی بے حسی یا نااہلی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کی نجکاری کا منصوبہ کارفرما ہے۔ 
بجٹ کا سب سے منفی پہلو غریب خاندانوں کو دی جانے والی پندرہ سو روپے کی بھیک ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی اور غربت کے وسیع حجم کے پیش نظر اس رقم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ مدد نہیں، غریب کی تضحیک ہے۔ کاسہ ہاتھ میں اٹھائے قرض اور امداد کے لئے در در پھر کے سامراج کی منتیں کرنے والے حکمران، عوام کو تعلیم اور باعزت روزگار دینے کی بجائے بھکاری بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ 
بجٹ سے صرف ایک ہفتے پہلے حکومت نے بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں 477ارب روپے کی چھوٹ دی تھی۔ 2014-15ء کے مالی سال کے لئے کارپوریٹ ٹیکس مزید ایک فیصد کی کمی کے ساتھ 33فیصد کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں کچھ 'مخصوص شرائط‘ کے تحت کارپوریٹ ٹیکس کو 20فیصد تک گرا دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔پاکستان میں پہلے ہی 90فیصد ٹیکس عوام ادا کرتے ہیں اور اب سرمایہ داروں کو مزید ٹیکس چھوٹ دی جارہی ہے۔ آئی پی پیز کے بلیک ہول میں اربوں کھربوں روپے پھینکنے کا عمل بھی جاری ہے اور آنے والے دنوں میں بجلی کے نرخ مزید بڑھائیں جائیں گے۔افراط زر کی حقیقی شرح دیکھی جائے تو تنخواہوں اور پینشن میں اضافہ بے معنی ہے۔ عوام کی قوت خرید در حقیقت سکڑ رہی ہے۔پاکستان میں ستر فیصد روزگار کالی معیشت سے وابستہ ہے اور حکومت کے پاس ان کاروباروں اور ملازمین کا کوئی ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔ لہٰذا سرکاری شعبے کے علاوہ کم سے کم اجرت کا قانون نہ پہلے کبھی لاگو ہوسکا ہے اور نہ اب ہوگا۔
میڈیا کے تمام تر شور شرابے کے باوجود سالانہ بجٹ بے مزہ رسم بن کے رہ گیا ہے۔بجٹ اس لئے بھی بے معنی ہوگئے ہیں کہ ان میں صرف معیشت کے ایک تہائی حصے کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ پاکستان کی دوتہائی معیشت ''کالی‘‘ ہے، جس پر ریاست کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ اس میں جرائم، کرپشن، ٹیکس، چوری، منشیات اور سمگلنگ وغیرہ شامل ہیں۔ سرمایہ داری عوام کو غربت، محرومی، بے روزگاری اور عدم استحکام پر مبنی ایک تاریک مستقبل ہی دے سکتی ہے۔عوام کا شعور عام طور پر معیشت اور اس پر مبنی سیاست کے پیچھے چلتا ہے۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ فاصلہ اب کم ہوتا جارہا ہے۔ ذرائع پیداوار اور تمام تر مالیاتی اثاثوں کو اشتراکی ملکیت میں لے کر منافع کی بجائے انسانی ضرورت پر مبنی منصوبہ بند معیشت کے علاوہ انسانیت کے پاس معاشی ذلت سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔یہ فریضہ محنت کش عوام کے انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو پاش پاش کرنے کے بعد ہی انجام دیا جاسکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں