آج کل پاکستان میں '' نظام ‘‘ تبدیل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ مالیاتی سرمائے کے مختلف سیاسی دھڑوں میں سے کوئی '' انقلاب ‘‘ لارہا ہے، کسی کو '' تبدیلی ‘‘ چاہیے تو کوئی عوام کو '' آزادی ‘‘ دلانے کے درپے ہے۔ لیکن '' نظام ‘‘ کو تبدیل یا 'ٹھیک‘ کرنے کے یہ تمام دعوے دار اس نظام کا نام لینے سے گریزاں ہیں۔ تین ہفتے بیت چکے ہیں، فرسودہ سیاست کا بے معنی انتشار جاری ہے، سیاستدانوں اور میڈیا چینلزکے ایک دوسرے پر الزامات نے عوام کو پہلے سے زیادہ بیزارکر دیا ہے۔ برطانیہ کے قدامت پرست وزیر اعظم ہیرلڈ مکمیلن نے کہا تھا: ''سیاست میں ایک ہفتے کا عرصہ بھی بہت طویل ہوتا ہے‘‘۔ لیکن اس ملک میں ایک ہفتہ طویل تر ہوگیا ہے۔
یہ شعبدہ بازی آخرکس لئے ہے؟ لعنت ملامت کا مقصودکیا ہے؟ یہ تکرار سیاست کے اس بالائی ڈھانچے سے متعلق ہے جو کھوکھلی معیشت کی بنیادوں پرکھڑا ہے۔ اس معاشی نظام کا تو ذکر تک نہیں کیا جارہا جو سماج کی وسیع اکثریت کو غربت اور محرومی کی گہرائیوں میں دھکیلتا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے ''انقلابی‘‘ تو سرمایہ داری کا لفظ زبان تک لانے کو تیار نہیں ہیں۔ جب بیماری کی تشخیص کرنے کی نیت نہ ہوتو علاج کیسے ممکن ہے؟
نواز شریف حکومت آج ''جمہوریت‘‘ کی علامت بنی بیٹھی ہے حالانکہ وہ خود فوجی آمریت کی پیداوار ہیں۔ فوج کی جانب سے حکومت کے خاتمے کی افواہیں غلط ثابت ہوتے ہی دوسری مذہبی اور'' سیکولر ‘‘ پارٹیاں بھی وفاداریاں بدل کے جمہوریت کی کشتی پر سوار ہوگئی ہیں۔ سیاست کے اس جمہوری کاروبار میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری کے لئے ''پارلیمنٹ کا تقدس‘‘ اور ''آئین کی حفاظت‘‘ لازم ہے۔ ایک جماعت زیادہ حصہ داری کے لئے عین موقع پر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مقاصد سیاسی اشرافیہ کے متحارب دھڑے سے مختلف نہیں ہیں۔ عمران خان کے مطالبات چار حلقوں میں دوبارہ گنتی سے شروع ہوئے تھے۔ حکومت پسپا ہوتی رہی‘ عمران خان کے مطالبات بڑھتے چلے گئے اور بات وزیر اعظم کے استعفے تک جا پہنچی۔ تحریک انصاف بالائی درمیانے طبقے کی جماعت ہے۔ مجمع اکٹھا کرنے کے لئے پیسے کی کمی بھی نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری پورے نظام کی تعمیر نو کے دعوے دار ہیں۔ ایک ہزار کتابوں کے مصنف شاید رائج الوقت طبقاتی نظام کی معاشی بنیاد کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ موصوف ''نظام‘‘ تبدیل کرنا چاہتے ہیں مگر سرمایہ داری کو سرمایہ داری سے ہی تبدیل کرتے نظر آتے ہیں۔ غریب عوام کے مسائل پر ڈاکٹر قادری کی شعلہ بیانی سے خود عوام بھی اکتا گئے ہیں۔ ان کے لانگ مارچوں میں زیادہ تر 'افرادی قوت‘ ان کے مدرسہ نیٹ ورک سے فراہم ہوتی ہے۔ عمران خان کی جانب سے مڈٹرم الیکشن اور الیکشن کمشن کی تشکیل نو کے مطالبات اگر پورے ہو بھی جائیں توکیا فرق پڑے گا؟ الیکشن کے نتائج کیا سرمائے کی دھونس، اسٹیبلشمنٹ کے مفادات اور سامراجی آقائوں کی اسٹریٹیجک ترجیجات سے پاک ہو جائیں گے؟ ریاستی مشینری کو جیب میں رکھنے والے سرمایہ دار، جاگیردار، قبضہ گروپ، بھتہ خور، ڈرگ لارڈز اور دہشت گرد گروہ اس ملک کی ہر بڑی سیاسی جماعت میں موجود ہیں۔ جہاں معیشت کا دو تہائی حصہ کالے دھن پر مشتمل ہو وہاں انتخابات ''شفاف‘‘ نہیں ہوا کرتے۔ کچھ ریاستی دھڑوں کے وعدوں پر اعتبارکرکے عمران خان اپنے مطالبات کو جس انتہا تک لے گئے ہیں وہاں سے واپسی بڑی تکلیف دہ ہوگی۔ میاں نواز شریف کے استعفے کے بغیر خان صاحب کی واپسی تحریک انصاف پرکاری ضرب لگائے گی اور یہ سیاسی بلبلہ توقعات سے بہت پہلے ہی پھٹ جائے گا۔ پی ٹی آئی میں شکست و ریخت کا جو عمل شروع ہوا ہے‘ وہ رکنے والا نہیں۔ قادری صاحب بھی بہت سے مریدوں سے ہاتھ دھو بیٹھیںگے۔
دھرنوں کی ہوا نکل جانے سے نواز شریف حکومت کے مسائل بھی کم نہیں ہوں گے۔ معیشت کا زوال، ملک میں جاری خانہ جنگی، پراکسی جنگیں اور سماجی بے چینی، ریاست کے داخلی تضادات، افغانستان سے نیٹوکا متوقع انخلا اوربھارت سے تعلقات جیسے معاملات حکومت کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ مسائل مڈٹرم انتخابات، ''ٹیکنوکریٹ‘‘ حکومت یا مارشل لا سے بھی حل ہونے والے نہیں ہیں۔ میاں صاحب کا روایتی رویہ صورت حال کی پیچیدگی میں اضافہ کرے گی۔ آئی ایم ایف پہلے ہی قرض کی شرائط پوری نہ ہونے پر نالاں ہے۔ حکومت کا معاشی جبر عوام کو اشتعال دلائے گا جو پہلے ہی تنگ آچکے ہیں۔ سیاست میں ان کے حقیقی مسائل کے لئے کوئی جگہ نہیں، اس کا مقصد بدعنوانی اور استحصال کو تحفظ دینا ہے۔ امکانات کم ہیں کہ مسلم لیگ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ نئے بحران اور طوفانی واقعات افق پر منڈلا رہے ہیں۔
مئی 2013ء میں پیپلز پارٹی کے ہارنے والے امیدوار (خصوصاً پنجاب میں) مڈٹرم انتخابات کے شدید متمنی ہیں۔ ان کی خواہش تھی لانگ مارچ اور دھرنے موجودہ حکومت کا بوریا بسترگول کردیں؛ تاہم حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے سنجیدہ دھڑے حالات کی نزاکت سے خوب واقف ہیں۔ اس انداز میں حکومت کے خاتمے سے حالات کے بے قابو ہونے کا اندیشہ موجود ہے اور ریاست کا حاوی دھڑا چاہتا ہے کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ کو فی الحال چلایا جائے۔ پیپلز پارٹی قیادت نے جمہوریت کو جواز بناکر نواز حکومت کی حمایت کی ہے۔ اس موقع پرستی کا بنیادی مقصد سندھ کی صوبائی حکومت بچانا ہے جہاں مال بنانے کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی قیادت، نظریات اور بھٹو کے بنیادی سوشلسٹ منشورکو بہت پہلے کوڑے دان میں پھینک چکی ہے۔ جماعت اسلامی کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر نواز حکومت کی حمایت کرنے والے یہ حضرات اب وہ بنیادی تضاد بھی ختم کر رہے ہیں جس پر پیپلز پارٹی کا سیاسی وجود قائم ہے۔ ان حالات میں عوام کی روایتی جماعت کے طور پر پیپلز پارٹی کا مکمل انہدام خارج از امکان نہیں۔
لمبے عرصے سے اس ملک کے محنت کش عوام نے سیاسی میدان میں قدم نہیں رکھا۔ آخری بار 18اکتوبر 2007ء کو بینظیر بھٹوکی وطن واپسی کے وقت عوام کی بڑی تعداد کراچی کی سڑکوں پر آئی تھی۔ 2007ء کی انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کے جلسے وسیع ہوکر عوامی تحریک کی شکل اختیار کرتے جارہے تھے۔ بے نظیر کے قتل اور بعد ازاں پارٹی قیادت کے نظریاتی انحراف کے ذریعے اس تحریک کا گلا بآسانی گھونٹ دیا گیا؛ تاہم پرانتشار سیاسی جمود اور محنت کش طبقے کی سیاست سے لاتعلقی کی حالیہ کیفیت زیادہ دیرقائم نہیں رہے گی۔ جمہوریت کے دھوکے اور روایتی قیادت کی غداری سے عوام لاشعوری طور پر نتائج اخذکر رہے ہیں۔ یہ لاشعوری آگاہی جب اجتماعی شعور میں سرایت کرے گی تو اس سماج کی اخلاقیات، اقدار اور نفسیات کو پاش پاش کرڈالے گی۔ انقلاب کوئی ایڈونچر نہیں بلکہ محنت کش عوام کی سلگتی ہوئی ضرورت بن چکا ہے۔کارل مارکس نے کہا تھا : ''ضرورت اس وقت تک اندھی ہوتی ہے‘ جب تک شعورمیں اجاگر نہ ہوجائے۔ ضرورت کا شعور انسان کو آزاد کر دیتا ہے‘‘۔
عوام نے آمریتوں کا جبر سہا اور سرمائے کی جمہوریت کے پارلیمانی سرکس بھی دیکھے ہیں لیکن ان کی محرومی بڑھتی گئی ۔ استحصالی معیشت کو چلانے کے مختلف سیاسی طریقے ایجادکرکے یاس اور'' تبدیلی ‘‘ کی دھول محروم آنکھوں میں جھونکی جاتی رہی ہے۔ سامراجی آقا، ریاستی اشرافیہ اور مقامی سرمایہ دارکروڑوں زندہ لاشوں کا خون نچوڑکر دولت کے انبار لگاتے رہے ہیں۔ ان زندہ لاشوں کو مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، ناخواندگی، ناانصافی اور بھوک سے آزاد کرکے زندگانی دینے کا معاشی پروگرام اور لائحہ عمل کسی سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے۔ صرف ایک بالشویک پارٹی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کو سرمایہ داری کی نہ ختم ہونے والی ذلت سے نجات کا نظریہ، منشور اور سیاسی حکمت عملی فراہم کر سکتی ہے، لیکن انقلابی پارٹیاں صرف انقلابی ادوار میں ہی عوامی بنیادیں حاصل کرتی ہیں۔ سماجی اور سیاسی جمود کے ادوار میں انقلابیوں کا فریضہ لینن کے الفاظ میں''صبر آزما وضاحت‘‘ اور بنیادی تنظیمی ڈھانچوں کی تعمیر ہوتا ہے۔ اگر یہ فریضہ ادا کر دیا جائے تو مستقبل میں اٹھنے والی انقلابی تحریک کی فتح یقینی بن جاتی ہے۔ یہی تاریخ کا سبق ہے!