"DLK" (space) message & send to 7575

نومبر کے عہد ساز واقعات

اس سال 9نومبر کو دیوار برلن کے انہدام کو 25سال بیت گئے۔مشرقی یورپ کے یہ واقعات بعد ازاں سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوئے۔ ڈینگ ژائو پینگ کی قیادت میں سرگرم بیوروکریسی کے دھڑے نے 1978ء میں ہی چین میں سرمایہ دارانہ رد انقلاب کا آغاز کر دیا تھا۔ دیوار برلن کے گرنے اور مشرقی یورپ اور روس میں سٹالن اسٹ ریاستوں کے انہدام نے مغربی سامراج اور عالمی سرمایہ داری کو نئی زندگی عطا کی۔ سامراجی پاگل پن کی حد تک خوش تھے۔ سٹالن ازم کی موت کو ''سوشلزم کا خاتمہ‘‘ قرار دیا گیا۔ نیویارک سے لے کر ٹوکیو تک ، ہر بڑے جریدے میں ''آزاد منڈی کی حتمی فتح ‘‘ کا اعلان شہ سرخیوں میں کیا گیا۔ فوکو یاما نے تو ''تاریخ کے خاتمے‘‘ کا ہی اعلان کر دیا،طبقاتی جنگ کو قصہ ماضی قرار دیا جانے لگا، ''کمیونزم‘‘ کے خاتمے کے بعد اب سرمایہ داری نے سب کچھ ''ٹھیک‘‘ کر دینا تھا۔ سامراجی پروپیگنڈا کی یلغار اتنی شدید تھی بڑے بڑے ''کمیونسٹ‘‘ راتوں رات ''لبرل‘‘ ہوگئے۔ ماسکو کو اپنا سب کچھ ماننے والوں نے واشنگٹن کی طرف رخ پھیر لئے۔ دیوار برلن کا گرنا اور بعد ازاں سوویت یونین کا انہدام بلا شبہ غیر معمولی واقعات تھے جن سے عالمی سطح پر مزدور تحریک اور بائیں بازو کے سیاسی رجحانات کو شدید دھچکا لگا۔اس سیاسی جمود اور مایوسی نے کم و بیش دو دہائیوں تک محنت کشوں اور نوجوانوں پر پژمردگی اور بددلی کی کیفیت طاری رکھی۔ 
اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیں یا مذاق، بالشویک انقلاب کے رہنمائوں نے سوویت یونین کی زوال پزیری کی مشروط پیش گوئی،ایک سے زیادہ بار خود کی تھی۔7مارچ 1918ء کو لینن نے صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ''اگر ہم تنہا رہ گئے اور دوسرے ممالک میں انقلابی تحریکیں نہ ابھریں تو عالمی تاریخی نقطہ نظر کے حوالے سے ہمارے انقلاب کی حتمی فتح کی کوئی امید باقی نہیں رہے گی‘‘۔ 1921ء میں اس نے واضح طور پر کہا کہ ''برلن جرمنی کا دل ہے اور جرمنی یورپ کادل ہے۔ اگر جرمنی میں انقلاب نہیں ہوتا تو روس کا انقلاب ختم ہوجائے گا‘‘۔ 
سامراج کے زہریلے پراپیگنڈا اور نظریاتی حملوں کا جواب دیتے ہوئے ایلن ووڈز نے 1997ء میں لکھا تھا کہ ''روس میں جو ناکام ہوا وہ سوشلزم نہیں بلکہ سوشلزم کی ایک مسخ شدہ شکل تھی۔ سوشلزم، مارکسزم اور کمیونزم پر کئے جانے والے اعتراضات کھوکھلے ہیں کیونکہ سرمایہ داری خود ایک گہرے بحران میں داخل ہونے جارہی ہے۔‘‘یہ تناظر بالکل درست ثابت ہوا۔ سرمایہ داری کے ''حتمی‘‘ہونے اور معاشی عروج و زوال کے سائیکل کو قصہ ماضی بنا دینے کے دعوے 2008ء کے مالیاتی کریش نے ہوا کر ڈالے۔ پہلے بینک دیوالیہ ہوئے اور پھر ریاستوں کی باری آئی۔کئی دہائیوں تک زائد پیداوار کے بحران کو ٹالنے کے لئے کی جانی والی کریڈٹ فنانسنگ اور سٹہ بازی نے 2008ء کے مالیاتی کریش پر منتج ہو کر سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کو عیاں کر دیا ہے۔پال کرگمین جیسے سرمایہ دارانہ معیشت کے سنجیدہ ماہرین کے مطابق اس بحران سے نکلنے کی کوئی امید مستقبل قریب میں موجود نہیں ہے۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں انسانیت اور تہذیب کے مستقبل کو اس نظام سے شدید خطرہ لاحق ہے جو منافعوں کی اندھی ہوس میں کرہ ارض کو برباد کرتا چلا جارہا ہے۔بیروزگاری ایک وبا بن کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔بدترین غربت، استحصال اور خونریز جنگوں نے ''تیسری دنیا‘‘ کی دوتہائی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایک کے بعد دوسری خانہ جنگی کا آغاز ہو رہا ہے اور دہشت گردی ایک سیاہ دھبہ بن کر پورے سیارے پر پھیلتی جارہی ہے۔ امارت اور غربت کی خلیج تاریخ میں اتنی وسیع کبھی نہ تھی جتنی آج ہے۔ 2009ء کے بعد سے عالمی سطح پر ارب پتی افراد کی تعداد دوگنا ہو کر 1646ہوگئی ہے۔ ان ارب پتیوں کے ذاتی اثاثے پچھلے چار سالوں میں 124فیصد اضافے کے ساتھ پانچ ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔ 85امیر ترین افراد کے اثاثوں میں صرف ایک سال کے دوران 240ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور اب ان افراد کے پاس 3.5ارب لوگوں سے زیادہ دولت ہے۔ آکسفیم کی نئی رپورٹ کے مطابق ان امرا میں سے ہر ایک کی دولت پانچ لاکھ ڈالر فی منٹ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ''بل گیٹس اگر دس لاکھ ڈالر روزانہ بھی خرچ کرے تو اسے اپنی دولت خرچ کرنے کے لئے 218سال درکار ہوں گے۔ درحقیقت اس کی دولت کبھی ختم نہ ہوگی کیونکہ صرف دو فیصد کی شرح سود پر بھی وہ 4.2ملین ڈالر ہر روز کما رہا ہوگا‘‘۔ 
ایک طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 32ہزار ارب ڈالر آف شور بینکوں میں چھپا رکھے ہیں، اسلحے اور جنگوں پر ہر سال دو ہزار ارب ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف غریب ممالک میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے صرف 70ارب ڈالر درکار ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے تحت ''ملینیم ڈویلپمنٹ گولز‘‘ کی تمام تر شعبدہ بازیوں کے برعکس دنیا میں غربت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ہر سال دس لاکھ خواتین صحت کی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے نئی زندگانی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی باز ہار جاتی ہیں ۔ 82کروڑ افراد صرف چین میں ایک ڈالر یومیہ پر زندگی گزار رہے ہیں، برصغیر اور افریقہ کو شامل کیا جائے تو بدترین غربت میں غرق انسانوں کی تعداد اربوں میں جا پہنچتی ہے۔ 
انسانیت پہلی بار امارت کی بلندیوں اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں کے اس تضاد کا شکار نہیں ہوئی ہے۔ کوئی سماجی و معاشی نظام اس وقت حتمی طور پر متروک قرار پاتا ہے جب وہ دستیاب مادی وسائل کو نسل انسان کی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے۔ سرمایہ داری دہائیوں پہلے اپنی تاریخی حدود کو چھو چکی ہے۔ترقی پزیر ممالک میں اصلاحات تو دور کی بات، آج ترقی یافتہ ممالک میں ماضی کی اصلاحات اور مراعات بھی چھینی جارہی ہیں۔اصلاح پسندی اور ''سوشل ڈیموکریسی‘‘ اپنی موت آپ مر رہی ہے۔ ''فلاحی ریاست‘‘ کو رفتہ رفتہ ختم کیا جارہا ہے جس کے رد عمل میں یورپ اور امریکہ کے محنت کش اور نوجوان ایک بڑے طبقاتی معرکے کے لئے صف آرا ہورہے ہیں۔
افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اس نظام کے زوال نے لینن کے الفاظ میں ''نہ ختم ہونے والی وحشت‘‘ مسلط کر رکھی ہے۔ ''عرب بہار‘‘ کے بعد برکینا فاسو سے پھوٹنی والی ''سیاہ بہار‘‘ پتا دے رہی ہے کہ آنے والا وقت دھماکہ خیز واقعات سے بھرپور ہے۔ یہ انقلابی تحریکیں بالشویزم کی روایات کو زندہ کر کے ہی فتح سے ہمکنار ہو سکتی ہیں۔ سامراج کے شاطر تجزیہ نگار آج ایک اور ''بالشویک انقلاب‘‘کے تناظر سے کتنے خوفزدہ ہیں ، اس کا پتا 'اکانومسٹ‘ کے تازہ شمارے میں یوکرائن سے متعلق شائع ہونے والے ایک مضمون سے چلتا ہے۔ مضمون میں لکھا ہے کہ ''محاذ پر لڑنے والے لاکھوں یوکرائنی سپاہیوں ووٹ نہیں ڈال پائے ہیں۔ جنگ کے بعد واپسی پر ان کا سامنا ایسی حکومت سے ہوگا جسے انہوں نے منتخب نہیں کیا۔ اگر انہیں اس طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی جس سے ملک کو چلایا جارہا ہے تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے، ایک سال پہلے کی طرح ڈنڈوں کے ساتھ نہیں بلکہ بندوقوںکے ساتھ۔ اب کی بار تحریک کسی میلے کی بجائے اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب سے مماثل ہوگی۔ حکومت کو اس تشویشناک صورتحال کا ادراک ہونا چاہئے‘‘۔ 
کسی ایک ملک میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب، روشنی کا وہ مینار بن سکتا ہے جس کی روشنی کو دوسرے ممالک اور خطوں تک پہنچنے سے دنیا کی کوئی قوت نہ روک پائے گی۔ یہ روشنی اس نئی سحر کا پتا دے گی جہاں سے نسل انسان تسخیر کائنات کا سفر شروع کرے گی۔ لیون ٹراٹسکی نے 1937ء میں جو لکھا تھا وہ آج کہیں زیادہ بامعنی ہو چکا ہے: 
''اگر ہماری نسل کرہ ارض پر سوشلزم تعمیر نہ کر پائی تو ہم یہ بے داغ پرچم اپنے بچوں کے حوالے کردیں گے۔ یہ انسانیت کے مستقبل کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد سخت ہوگی، طویل ہوگی۔ جو کوئی جسمانی استراحت اور روحانی سکون کا طلبگار ہے وہ پرے ہٹ جائے۔ لیکن وہ لوگ جن کے لئے سوشلزم کوئی کھوکھلا نعرہ نہیں بلکہ اخلاقی زندگی کی اساس ہے، آگے بڑھیں! دھمکیاںاور تشدد ہمارا راستہ نہیں روک سکتے! ہماری ہڈیوں پر ہی سہی، لیکن سچ فتح یاب ہوگا۔ میرے دوستو! خوشی کا بلند ترین معیار (موقع پرستی کے ذریعے) حال کا فائدہ اٹھانے میں نہیں بلکہ مستقبل کی تیاری میں پوشیدہ ہے‘‘۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں