اس ملک میں ہر روز سیکڑوں انسان وقت سے بہت پہلے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ لاعلاجی، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے ساتھ ساتھ ٹریفک حادثات ان قابل انسداد اموات کی بڑی وجہ ہیں۔ منگل 11 نومبر کی صبح ایسا ہی ایک اندوہناک حادثہ خیرپور سندھ کے نزدیک ٹھیری بائی پاس پر پیش آیا۔ مسافروں سے بھری بس ٹرک سے جا ٹکرائی۔ اس حادثے میں 21 خواتین اور 14 سال سے کم عمر 19 بچوں سمیت 60 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اس سے قبل 2 نومبر کو واہگہ بم دھماکے میں بھی کم و بیش اتنے ہی افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ 4 نومبر کو قصور کے نواحی علاقے کوٹ رادھا کشن میں ایک عیسائی جوڑے کو زندہ جلا ڈالا گیا۔ صرف دس دنوں میں رونما ہونے والے یہ تین دردناک واقعات اس جبر مسلسل کے عکاس ہیں‘ جس میں اس ملک کے کروڑوں عوام نسل درد نسل مبتلا ہیں۔
المیے اور دکھ ملک کا معمول بن چکے ہیں۔ سماج اس تشدد کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ ظلم کی کوئی انتہا ہی عوامی توجہ حاصل کر کے کسی بحث کو جنم دیتی ہے۔ بم دھماکے، فرقہ وارانہ قتل عام، ٹارگٹ کلنگ یا ٹریفک حادثے کی خبر کے بغیر شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو۔ ملک کا کوئی حصہ جزوی طور پر بھی محفوظ نہیں ہے۔ سماجی انتشار کے ساتھ حکمران اشرافیہ کی بے حسی اور منافقت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہر سانحے کے بعد ''مذمت‘‘ اور ''افسوس‘‘ کے روایتی بیان جاری ہوتے ہیں، عوام کی لاشوں اور زخموں پر سیاست چمکائی جاتی ہے، ''نوٹس‘‘ لئے جاتے ہیں اور ''کمیٹی‘‘ بنا کر بات کو ہمیشہ کے لئے گول کر دیا جاتا ہے۔
ٹریفک حادثے کا خطرہ گھر سے نکلنے والے ہر فرد کو مسلسل لاحق رہتا ہے۔ پاکستان میں جدید کاروں، موٹر سائیکلوں اور ٹرکوں سے لے کر گدھا گاڑی جیسے ذرائع آمدورفت کی بھرمار ہے، لیکن سڑکوں کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف انارکی پر مبنی ''آزاد
منڈی‘‘ کی معاشی پالیسیوں کے تحت ''کریڈٹ فنانسنگ‘‘ کے ذریعے بڑے پیمانے پر گاڑیوں کی فروخت جاری ہے‘ تو دوسری طرف آمدورفت کے جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر میں ریاست سرے سے ناکام رہی ہے۔ باعزت، آرام دہ اور سستی پبلک ٹرانسپورٹ ناپید ہے۔ سماجی بیگانگی، عدم تحفظ اور ''دوسروں‘‘ کے خوف نے بھی لوگوں کو ''ذاتی‘‘ ٹرانسپورٹ رکھنے پر مجبور کر دیا ہے‘ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اورانہیں قسطوں پر دینے والے بینک ہوشربا منافعے کما رہے ہیں۔ نتیجہ بے ہنگم اور بے قابو ٹریفک کی شکل میں سامنے ہے۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں ٹریفک جام کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہر روز جلائے جانے والے لاکھوں لٹر پٹرول کا معاشی بوجھ، صوتی اور ماحولیاتی آلودگی، وقت کا ضیاع اور ذہنی تنائو جیسے بالواسطہ اثرات اس کے علاوہ ہیں۔ ہر شخص سماج سے کٹ کر دوڑتا چلا جا رہا ہے، ہر کوئی ہر وقت جلدی میں ہے، رویے ترش ہوتے جا رہے ہیں ، لیکن یہ جلدی اور بے چینی بے وجہ نہیں بلکہ یہ اس معاشی دبائو اور غیر یقینی صورت حال کی پیداوار ہیں‘ جس نے ہر فرد کو گھیر رکھا ہے۔ ٹھیکے یا کرائے پر بس، ویگن اور رکشہ چلانے والوںکی تیز اور غیر ذمہ دار ڈرائیونگ بھی روٹ پر زیادہ ''چکر‘‘ لگانے کے لئے ہوتی ہے تاکہ مالکان کو رقم کی ادائیگی کے علاوہ زیادہ سے زیادہ منافع یا کمیشن بنایا جا سکے۔
پاکستان میں ٹریفک حادثوں میں مرنے والوں کی تعداد دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے تین گنا ہے۔ روڈ سیفٹی سے متعلق 2013ء میں شائع ہونے والی عالمی ادارہ صحت کی ''گلوبل سٹیٹس رپورٹ‘‘ کے مطابق پاکستان میں 15 سے 29 سال کی درمیانی عمر کے افراد میں غیرطبعی موت کی بڑی وجہ ٹریفک حادثات ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 2010ء میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں 5192 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس (NHMP) اور ریسکیو 1122 کے مطابق یہ تعداد 12000 سے زیادہ تھی۔ یاد رہے کہ اسی سال پورے جنوبی ایشیا میں مسلح تنازعات میں 7345 افراد ہلاک ہوئے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات میں جان گنوانے والوں میں سڑک پر پیدل چلنے والے 41 فیصد، چار فیصد ڈرائیور جبکہ 39 فیصد مسافر ہیں۔ حکومت اور متعلقہ اداروں نے بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لئے کوئی منصوبہ بنایا‘ نہ سڑکوں کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی کوشش کی ۔ روڈ انفراسٹرکچر کی مایوس کن صورت حال، سیفٹی معائنوں میں نقائص، حکومت کی جانب سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری نہ کرنے کے رجحان اور ٹریفک حادثوں کے بعد فوری طبی امداد کی عدم دستیابی کا تذکرہ بھی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ فوری اور مناسب طبی امداد کے ذریعے بہت سے جانیں بچائی جا سکتی ہیں‘ لیکن آمدورفت کی طرح صحت کا نظام بھی گل سڑ چکا ہے۔ سرکاری ہسپتال برباد ہوتے جا رہے ہیں اور نجی ہسپتال یا کلینک کھمبیوں کی طرح اگ رہے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں مہنگا علاج کروانا تو دور کی بات آبادی کی وسیع اکثریت ان میں داخل بھی نہیں ہو سکتی۔
نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس کے ایک سینئر افسر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا: ''پچھلے دس سال کے دوران پاکستان میں دہشت گردوں نے 40 ہزار انسانوں کی جان لی جبکہ اسی عرصے میں ٹریفک حادثات میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اس بارے میں ریاست کا رد عمل صفر ہے‘‘۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا: ''ترقی پذیر ممالک کو ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہر سال 65 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہ میں ناقص انجینئرنگ، روڈ کا غلط ڈیزائن، خستہ حال گاڑیوں کی بھرمار، بغیر لائسنس یا تربیت کے بغیر لائسنس لے کرگاڑی چلانا اور سڑکوں کی تعمیر میں کم تر کوالٹی کے میٹریل کا استعمال شامل ہیں۔ 90 فیصد حادثات ان ڈرائیوروں کی وجہ سے پیش آتے ہیں‘ جو اناڑی ہیں یا پھر اتنے بے حس کہ قیمتی انسانی جانوں کے زیاں پر انہیں کوئی ملال نہیں ہوتا... عمومی سماجی اور ثقافتی رویے بھی ان حادثات کی وجہ ہیں کیونکہ ہر کوئی پاگل پن کی دوڑ میں دوسروں کو ہر قیمت پر پیچھے چھوڑ کے جلدی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے‘‘۔
کچھ دہائیاں پہلے تک ریل کا سفر تیزاور محفوظ ترین ہوا کرتا تھا، لیکن 1970ء کے اواخر میں روڈ ٹرانسپورٹ کا رجحان بڑھنے لگا‘ جس میں پبلک سیکٹر کا حصہ اب کم و بیش ختم ہو گیا ہے۔ ریل کا نظام برباد ہو گیا اور ''قومی‘‘ حکمرانوں نے انگریز دور میں نصب کی گئی ہزاروں میل کی پٹریاں اور دوسرا سامان ہڑپ کر لیا ہے۔ ریل کی بربادی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ روڈ ٹرانسپورٹ زیادہ اور فوری منافع دیتی ہے۔ ایک طرف ٹرانسپورٹ مافیا کی دھونس، اجارہ داری اور لوٹ مار ہے تو دوسری طرف سڑکوں کی تعمیر میں مال ہی مال ہے۔ حکمران اشرافیہ سے لے کر ٹھیکیداروں اور بیوروکریسی تک، سب ٹھیکوں اور کمیشن خوری کی اس بہتی گنگا میں نہا رہے ہیں۔
ذرائع آمدورفت کی یہ دگر گوں صورت حال اور ٹریفک حادثات کی شکل میں برآمد ہونے والے ان کے بھیانک نتائج ایک بار پھر ثابت کرتے ہیں کہ سماج کی ضروریات اور سرمایہ داروں کے منافع جلد یا بدیر ایک دوسرے کی ضد بن جاتے ہیں۔ تیز رفتار، سستی اور آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ ناگزیر طور پر ''اپنی‘‘ گاڑی پر سفر کی حوصلہ شکنی کرے گی جس سے سڑکوں پر رش، حادثات، آلودگی، نفسیاتی تنائو اور سماجی ہیجان میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ لوگ جب اکٹھے سفر کریں گے تو انسان اور انسان کے بیچ فاصلے مٹیں گے، اعتماد بڑھے گا‘ لیکن پاکستان جیسی مفلوج سرمایہ دارانہ معیشت میں ریل اور پبلک بسوں کے نظام پر ریاست سرمایہ کاری کر سکتی ہے نہ ہی نجی ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کی تعمیر سے وابستہ دیوہیکل مافیا کبھی ایسا ہونے دے گا۔ دو چار شہروں میں ایک آدھ روٹ پر میٹرو بس جیسے نمائشی منصوبوں سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ اس ملک میں لاکھوں روٹ ہیں‘ جہاں کروڑوں لوگ ہر روز ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ سرمایہ داری کا خاتمہ کئے بغیر معقول آمدورفت تک رسائی بھی ممکن نہیں رہی ہے۔ ٹرانسپورٹ کی طرح علاج، تعلیم، رہائش، پینے کا پانی، نظام نکاس اور بجلی جیسی بنیادی انسانی ضروریات ایک اشتراکی معاشرے میں ہی پوری ہو سکتی ہیں جہاں معیشت کی قوت محرکہ منافع کی بجائے انسانی ضرورت ہو۔