آج کے عہد کا سب سے گہرا تضاد انتہائوں کو چھوتی ہوئی معاشی ناہمواری ہے۔ بہتات میں بھی قلت ہے۔ دولت کے انبار چند ہاتھوں میں مجتمع ہورہے ہیں۔ ذرائع پیداوار اور جدید ٹیکنالوجی میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ کرہ ارض پر موجود تمام انسانوں کی ضروریات سے کہیں زیادہ پیداوار کی جاسکتی ہے لیکن نسلِ انسان کی اکثریت غربت، محرومی اور ذلت میں غرق ہوتی چلی جارہی ہے۔ کارل مارکس نے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل ''سرمایہ‘‘ میں لکھاتھا:''ایک طرف دولت کے انبار ہیںاور عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کی انتہا ہے۔‘‘
مارکس کی دوسری اہم پیش گوئی یہ تھی کہ سرمائے کی عالمگیریت سے قومی ریاست متروک ہوتی چلی جائے گی۔گلوبلائزیشن کے اس عہد میں اربوں ڈالر ہر روز قومی ریاست کی سرحدوں کو روندتے ہوئے دنیا بھر میں سفر کررہے ہیں۔تضاد یہ ہے کہ قومی ریاست کی تاریخی متروکیت کے باوجود، انقلابی تحریکوں کو کچلنے اور استحصالی ڈھانچے کی حفاظت کے لئے اسے قائم رکھنا حکمران طبقے اور سامراج کی مجبور ی ہے۔ انقلاب یا سماجی انتشار کے ادوار میں استحصالی طبقہ اپنی حاکمیت اور ملکیت کی حفاظت کے لئے ریاست کو زیادہ جابر بناتا ہے۔ ایسے ادوار میں بورژوا قوم پرستی ایک ردِ انقلابی رجحان بن کر ابھرتی ہے۔
مارکسزم تاریخ کی کسوٹی پر پورا اترا ہے۔ ٹیلی کمیونی کیشن، اسلحے، مالیات اور خوراک سے وابستہ صرف 190ملٹی نیشنل اجارہ داریاں 85فیصد عالمی معیشت پر قابض ہیں۔ دنیا ایک معاشی اکائی بن چکی ہے لیکن اس گلوبلائزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اس کی قوتِ محرکہ منافع ہے‘ جس کی وجہ سے غربت اور معاشی ناہمواری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس معاشی نظام کے طبقاتی تضادات سماجی انتشار، بغاوت اور بعض اوقات انقلابات کو جنم دیتے ہیں۔ انقلابی تحریکیں اگر اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکیں تو سیاسی جمود اور خلا پیدا ہوتا ہے جسے مذہبی بنیاد پرستی اور قومی شائونزم جیسے رجعتی رجحانات پُر کرتے ہیں، دہشت گردی اور تشدد زور پکڑ جاتے ہیں۔یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ریکارڈ سازی کا عمل شروع ہونے کے بعد سے 2013ء کا سال دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے حوالے سے سر فہرست تھا۔ 2014ء میں صورتحال اور بھی بدتر ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
عدم مساوات آج اس خوفناک سطح پر پہنچ چکی ہے کہ صرف 85امیر ترین افراد کے پاس ساڑھے تین ارب لوگوں سے زیادہ دولت ہے۔ کارپوریٹ ادارے اس سیارے کو نوچ نوچ کر پھولتے جارہے ہیں۔ ''بزنس انسائیڈر‘‘ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں فارچون، سی این این اور آئی ایم ایف کے ڈیٹاکی مدد سے واضح کیا گیا کہ امریکی کارپوریٹ کمپنیاںبیشتر ریاستوں سے زیادہ امیر ہوچکی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''ہم نے 25ایسی امریکی کارپوریٹ کمپنیوں کا پتا چلایا ہے جن کی آمدن، ممالک کی کل داخلی پیداوار (GDP)سے بھی اربوں ڈالر زیادہ تھی‘‘۔ رپورٹ میں کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں: ''یاہو (Yahoo!)کا مالیاتی حجم منگولیا سے زیادہ ہے، منگولیا کا جی ڈی پی: 6.13ارب ڈالر، یاہو کی آمدن: 6.32ارب ڈالر... ای بے (eBay)کا مالیاتی حجم مڈغاسکر سے زیادہ ہے... امازون (Amazon)کی آمدن(34.2ارب ڈالر) کینیا کے جی ڈی پی(32.16ارب ڈالر)سے زیادہ ہے ۔ مارگن سٹینلے کا مالیاتی حجم ازبکستان سے زیادہ ہے... فورڈ کا مالیاتی حجم مراکش سے زیادہ ہے...جنرل موٹر کا مالیاتی حجم بنگلہ دیش سے زیادہ ہے...جنرل الیکٹرک، نیوزی لینڈ سے زیادہ امیر ہے...کونوکو فیلپس کی آمدن 184.97ارب ڈالر جبکہ پاکستان کا جی ڈی پی 174.87ارب ڈالر ہے...ناروے دنیا کی 25ویں بڑی معیشت ہے جس کا جی ڈی پی 414.46ارب ڈالر ہے لیکن وال مارٹ (Walmart)کی آمدن اس سے 7ارب ڈالر زیادہ ہے...‘‘
یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں کتنی امیر ہیں‘ اس کا اندازہ نومبر 2014ء میں RTپر شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ میںایسی امریکی کارپوریٹ کمپنیوں کے نام گنوائے گئے ہیں جن کے چیف ایگزیکٹو افسران کی تنخواہیں ریاست کو ادا کئے گئے ٹیکسوں سے کہیں زیادہ ہیں۔
ملٹی نیشنل اجارہ داریاں نہ صرف امریکی کانگریس میں سیاستدانوں کو خریدتی ہیں بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کے حکمرانوں کو بھاری رشوت اور ''کک بیکس‘‘ سے بھی نوازتی ہیں۔ تیسری دنیا کی ریاستوں کو قابو کرنے کے بعد محنت اور وسائل کے استحصال سے بلند شرح منافع حاصل کی جاتی ہے۔ ان سابق نوآبادیاتی ممالک کا حکمران طبقہ تاریخی طور پر تاخیر زدہ اور معاشی طور پر نحیف اور بدعنوان ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی، سماجی اور سیاسی طور پر قدامت پرست اور رجعتی بھی ہے۔ اپنی نامیاتی کمزوریوں اور ریاست کی بے دریغ لوٹ مار کی وجہ سے پسماندہ ممالک کے یہ حکمران ایک آزاد اور مستحکم معیشت کبھی قائم کر پائے ہیں‘ نہ کر سکتے ہیں۔ یہ طفیلی پرت ان سیاسی اور ریاستی کمیشن ایجنٹوں پر مشتمل ہے جن کا کام پسماندہ ممالک میں ''سرمایہ کاری‘‘ کرنے والی سامراجی اجارہ داریوں
کو استعمال کے لئے محنت کشوں کی شکل میں ''خام مال‘‘ مہیا کرنا ہے۔ نجکاری، ڈی ریگولیشن، کنٹریکٹ لیبر، دہاڑی دار مزدوری، غیر انسانی اجرتیں، پنشن اور ہیلتھ الائونس کا خاتمہ، یونین سازی پر پابندی وغیرہ ''سامراجیت کی معیشت‘‘ کے بنیادی پہلو ہیں۔
ملٹی نیشنل اجارہ داریاں صرف تیسری دنیا میں ہی لوٹ مار کا بازار گرم نہیں کرتیں بلکہ اپنے ممالک میں محنت کشوں کا بھی استحصال کرتی ہیں۔مثلاً وال مارٹ کے اکثریتی ملازمین کی اجرت 9ڈالر فی گھنٹہ سے بھی کم ہے، امریکہ جیسے ملک میں اس اجرت کا 80فیصد کرایوں کی مد میں ہی خرچ ہو جاتا ہے اور ادارے کے محنت کش خوراک کے لئے ریاستی خیرات کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔یہ محنت کش گزشتہ کئی برسوں سے اجرت میں اضافے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
یہ عالمگیر کارپوریٹ کمپنیاں کسی ایک ملک سے تعلق رکھتی ہیں نہ ہی ان کا استحصال اور ڈاکہ زنی کسی ایک ملک یا خطے تک محدود ہے۔ اپنی شہرہ آفاق کتاب ''سامراجیت: سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں ولادیمیر لینن نے واضح کیا تھا کہ منافعوں کے لئے دوسرے ممالک میں سرمائے کی برآمد کے ساتھ ہی سامراجی رجحانات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران گہرا ہونے کے ساتھ اس کی وحشت بھی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ آج کے عہد میں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑے بغیر کسی ملک کے لئے ''آزادی‘‘ کا حصول ممکن نہیں ہے۔ عالمگیر سرمایہ داری کے خلاف طبقاتی جدوجہد تبھی کامیاب ہوسکتی ہے جب اسے تنظیمی اور نظریاتی طور پر بین الاقوامی خطوط پر استوار کیا جائے۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے یہ تاریخی نعرہ اسی لئے بلند کیا تھا کہ ''دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجائو۔‘‘