"DLK" (space) message & send to 7575

لسانی بربریت: امریکی سامراج کی مکروہ حقیقت

دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے لبرل، سیکولر اور سابق بائیں بازو کے دانشور ''جمہوریت‘‘ اور ''انسانی حقوق‘‘ کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ ان خواتین و حضرات کی اکثریت ''آزاد منڈی کی معیشت‘‘ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو سیاسی، معاشی اور سماجی ''آزادی‘‘ کی معراج تصور کرتی ہے۔ امریکی سامراج ان کا ''رول ماڈل‘‘ ہے۔ ''دہشت کے خلاف جنگ‘‘ کے لبادے میں عراق اور افغانستان میں سامراجی قتل عام اور لوٹ مار کی بالواسطہ یا کھلی حمایت یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ سامراجی استحصال، ڈاکہ زنی، سیاسی مداخلت اور خونریز جنگوں کی طویل تاریخ بھی ان کے لیے بند کتاب ہے۔ 
امریکی سامراج کی جارحیت دوسرے ممالک کے محنت کش عوام تک ہی محدود نہیں، خود امریکہ کے نوجوان اور محنت کش بھی اس عفریت کے متاثرین میں شامل ہیں۔ امریکی سماج میں بدترین معاشی ناہمواری مسلسل بڑھ رہی ہے، ریاستی مشینری کے لسانی تعصبات گزشتہ کچھ عرصے میں پھر سے عیاں ہوئے ہیں، اجرتیں کئی دہائیوں سے منجمد ہیں، جرائم بڑھ رہے ہیں، تعلیم اور علاج جیسی بنیادی سہولیات عوام کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں۔ فرگوسن اور دوسرے شہروں میں سیاہ فام نوجوانوں کے امریکی پولیس کے ہاتھوں قتل نے سامراجی ریاست کے اپنے شہریوں کی طرف رویے کو بے نقاب کیا ہے۔ امریکہ میں محنت کش طبقے کی سیاسی قوت کی تعمیر میں سرگرم انقلابی مارکسسٹ جان پیٹرسن اپنے تازہ مضامین میں لکھتے ہیں کہ امریکی عوام میں حکمران طبقے کی دونوں سیاسی جماعتوں اور ان کے جعلی ''اختلافات‘‘ سے بیزاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''اوباما سے وابستہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ مائیکل برائون، ایرک گارنر اور 12 سالہ تامیر رائس کے ماورائے عدالت قتل نے جس غم و غصے اور احتجاجی مظاہروں کو جنم دیا ہے اس کی مثال گزشتہ طویل عرصے میں نہیں ملتی۔ عدلیہ کی جانب سے قتل کرنے والے پولیس افسران پر مقدمے چلانے سے انکار نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ایرک گارنر کے قتل کی ویڈیو نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کو لرزا دیا ہے جس میں وہ بار بار چلا رہا ہے کہ 'مجھے سانس نہیں آرہا‘ اور پولیس سے زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے‘‘۔
اس ریاستی جبر پر پوری دنیا میں شدید رد عمل سامنے آیا۔ پورے امریکہ میں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں ہر رنگ اور نسل کے لوگ شریک تھے۔ مظاہرین نے اس پولیس گردی کو ڈرگ مافیا پر مشتمل میکسیکو کے رویے سے تشبیہ دی ہے۔ یاد رہے کہ 26 ستمبرکو میکسیکو کی پولیس نے 43 طلبہ کو گرفتار کر کے منشیات سے وابستہ ایک خونخوار گینگ کے ہاتھوں قتل کروا دیا تھا‘ جس کے خلاف پورے ملک میں لاکھوں افراد کے پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔ امریکہ اور میکسیکو میں بیک وقت ریاستی دہشت گردی کے خلاف ہونے والے مظاہرے عوام، خاص طور پر نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا اظہار ہیں۔ پولیس گردی کی یہ ویڈیوز کروڑوں لوگوں کی پہنچ میں ہیں‘ جس سے ریاست کی جانب سے پولیس کے بارے میں دیا گیا ''خدمت‘‘ اور ''حفاظت‘‘ کا تاثر بری طرح بے نقاب ہوا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کے اصل کردار سے بھی عوام واقف ہو رہے ہیں۔ امریکی میڈیا، پُرامن مظاہروں اور مظاہرین کے موقف سے کئی گنا زیادہ کوریج پولیس ایجنٹوں اور شرپسندوں کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کو دے کر تحریک کے کردارکو مسخ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دوران مظاہرین نے سادہ کپڑوں میں ملبوس کئی پولیس اہلکاروں کو توڑ پھوڑ پر اکساتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا‘ جن کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں۔ صورت حال واضح کرتی ہے کہ امریکی سماج کروٹ لے رہا ہے اور عوام سامراجی ریاست کے طبقاتی کردار کو پہچان رہے ہیں۔ سیاہ فام شخص کو ''تبدیلی‘‘ کے نام پر صدر بنا کر یا لسانی تعصبات کے ذریعے عوام کو آپس میں لڑا کر بغاوت کو زائل کرنا امریکی حکمران طبقے کے لیے اب آسان نہیں رہا۔ 
مارکس نے کہا تھا کہ ''ضرورت اپنا اظہار حادثے کی شکل میں کرتی ہے۔‘‘ پولیس کے قتل کے خلاف ابھرنے والی تحریک درحقیقت ریاست اور نظام سے اظہار نفرت ہے‘ جو سطح کے نیچے پک رہی تھی۔ 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے امریکی محنت کشوں اور نوجوان نسل کو اس احساس نے جھنجوڑ دیا ہے کہ معیشت، سیاست اور ریاست کی باگ ڈور کسی اور طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ ''آکوپائی وال سٹریٹ‘‘ تحریک کا نعرہ ہی ''ہم 99 فیصد ہیں‘‘ تھا۔ ''عدلیہ کی غیر جانبداری‘‘ اور ''جمہوری اقدار‘‘ سے وابستہ خوش فہمیاں چکنا چور ہو رہی ہیں۔ عوام کی اکثریت یہ نتیجہ اخذ کر رہی ہے کہ ان مسائل کی جڑیں نظام کے اندر پیوست ہیں۔ 
امریکہ میں حکمران طبقے کی نسل پرستی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1676ء کی بیکن بغاوت کے بعد سفید فام باغیوں کی نسبت سیاہ 
فاموں سے مختلف برتائوکیا گیا۔1831ء میں سیاہ فام غلاموں کی بغاوت کو کچلا گیا جس کے بعد 250 سے زیادہ غلاموں کو اذیت ناک طریقوں سے قتل کیا گیا، بغاوت کی قیادت کرنے والے ناٹ ٹرنر کو پھانسی دینے کے بعد اس کی کھال کھینچی گئی اور سر کاٹ دیا گیا۔ غلام داری کے عہد میں سیاہ فام غلاموں پر ڈھائے جانے والے اندوہناک مظالم کی یہ صرف ایک جھلک ہے۔ 1963ء میں مظاہرین پر پولیس نے کتے چھوڑ دیے۔ 1985ء میں سیاہ فاموں کے حقوق کی تنظیم MOVE سے وابستہ افراد کے گھروں پر فلاڈیلفیا پولیس نے ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی‘ جس سے پانچ بچے بھی ہلاک ہوئے۔ 1999ء میں 23 سالہ نہتے سیاہ فام نوجوان اماڈو ڈلائو کو نیویارک پولیس نے 19 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ دنیا بھر میں ''انسانی حقوق‘‘ کی ٹھیکیداری کرنے والی ریاست کی اپنے عوام کے خلاف یہ وحشت آج تک جاری ہے۔ 
ایف بی آئی کے اپنے ریکارڈ کے مطابق امریکی پولیس ہر سال 400 شہریوں کو قتل کرتی ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کی تازہ تحقیق کے مطابق پولیس کی جانب سے کیے جانے والے سیکڑوں قتل ایسے ہیں‘ جن کا حکومتی ریکارڈ میں ذکر ہی نہیں ہوتا۔ نسلی امتیاز پر مبنی ریاستی قوانین کا خاتمہ اگرچہ عوامی مزاحمت اور تحریکوں کے نتیجے میں دہائیوں پہلے ہو گیا تھا‘ لیکن عملی طور پر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ سیاہ فام آبادی میں غربت، تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محرومی اور معیار زندگی میں گراوٹ کی شرح زیادہ ہے۔ غربت اور ریاست کا ''ادارہ جاتی نسلی امتیاز‘‘ سیاہ فام آبادی کو ان مخصوص علاقوں تک محدود رکھتا ہے جہاں پہلے سے موجود پسماندگی اور جرائم کا رجحان، نئی نسل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ 
سماجی حالات ہی سماجی شعور کا تعین کرتے ہیں۔ قلت کے حالات میں محدود وسائل پر تصرف کی جدوجہد ناگزیر طور پر افراد کے درمیان مقابلہ بازی اور عناد کو جنم دیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں آبادی کی اکثریت انہی حالات سے دوچار ہوتی ہے۔ دوسری طرف ذرائع پیداوار اور سماجی دولت پر تسلط رکھنے والی حکمران اقلیت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اکثریتی محنت کش طبقے کو ''قابو‘‘ میں رکھنے کے لیے بوقت ضرورت ننگے ریاستی جبر کو استعمال کرے‘ لیکن صرف تشدد ہی کافی نہیں ہوتا، محنت کش عوام کو نفسیاتی طور پر مطیع رکھنے اور تقسیم کرنے کے لیے کئی مکروہ طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ''تقسیم کر کے حکومت کرنے‘‘ کے لیے رنگ اور نسل کا تعصب حکمرانوں کا آزمودہ ہتھیار ہے... محکوموں کو باہم دست در گریبان کروا کے حقیقی مسائل اور ان کی وجوہ سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔ 
نسلی تعصب سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں موجود ہے۔ یہ طبقاتی نظامِ حاکمیت کے ڈھانچے کا ہی ایک حصہ ہے۔ امریکہ کی طرح کم و بیش ہر ریاست کے جبر میں نسلی تعصب کا عنصر واضح نظر آتا ہے‘ لیکن آخری تجزیے میں ریاست کا جبر بذات خود طبقاتی سماج کی پیداوار ہے۔ بہتات پر مبنی سماج میں طبقات کے ساتھ ساتھ ریاست بھی غیر ضروری ہو جاتی ہے۔ قلت کے ساتھ چھینا جھپٹی اور جرائم بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ نسلی منافرت ہو یا مذہبی، اس کا کوئی دور رس علاج سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ممکن نہیں کیونکہ یہ حکمران طبقے کا ہتھیار ہے۔ امریکہ اور دنیا بھر کے محنت کش اس نظام کے خلاف جدوجہد کے دوران ہی یہ ادراک حاصل کریں گے کہ اصل لڑائی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بلکہ اس حکمران طبقے کے ساتھ ہے جس کے ساتھ محنت کش طبقے کی کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں