"DLK" (space) message & send to 7575

کشمیر کے انتخابات میں اُمید کی کرن

طبقاتی نظام کی حاوی سیاست آخری تجزیے میں حکمران طبقے کا اوزار ہوتی ہے جس کا مقصد عوام کو ''آزادی‘‘ کا پرفریب تاثر دینا ہوتا ہے۔''جمہوریت‘‘ اور انتخابات کی مکروہ ترین منافقانہ شکل ان ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے جو بالواسطہ یا براہ راست کسی عالمی یا علاقائی سامراجی طاقت کے زیر تسلط ہیں۔ عراق اور افغانستان جیسے ممالک میں الیکشن اور ''جمہوری‘‘ حکومتیں کسی بے ہودہ مذاق سے کم نہیں ہیں۔ ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کے تسلط میں سلگتا بھارتی مقبوضہ کشمیر بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ پاکستانی کشمیر میں بھی صورت حال اگرچہ مختلف نہیں ہے لیکن لائن آف کنٹرول کے اُس پار بھارتی ریاست نے سات لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں، یہ شاید اس خطے کی سب سے بڑی فوج کشی ہے۔پوٹا (POTA) جیسے کالے قوانین کے ذریعے کشمیری عوام کے بنیادی حقوق صلب کر لیے گئے ہیں۔ دوسری طرف کشمیر کا حکمران طبقہ ننگی جارحیت اور جبر پر ''جمہوریت‘‘ کا لبادہ چڑھانے والے ہندوستانی حکمرانوں کا سب سے بڑا آلہ کار ہے۔
گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران کشمیرکی قوم پرست قیادت کے نظریاتی دیوالیہ پن نے تحریک آزادی کو پسپائی سے دوچار کیا ہے۔ یہ قوم پرست رہنما نہ صرف ''اقوام متحدہ‘‘ سے امیدیں وابستہ کیے ہیں بلکہ ان میں چند ایک تو امریکی سامراج کی مدد سے ''آزادی‘‘ حاصل کرنے کی خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں ۔ نہ صرف کشمیر بلکہ ہر دوسری مظلوم قومیت کے رہنما سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی، سیاسی اور سفارتی حدود کے اندر رہ کر قومی آزادی حاصل کرنے کے یوٹوپیا میں غرق ہوگئے ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں کشمیری انتفاضہ کی زوال پزیری کے بعد ابھرنے والی مذہبی بنیادی پرستی کے رجحانات نے تحریک کو اور بھی سبوتاژ کیا۔ پاکستانی ریاست اور دوسرے بیرونی عناصر کی پشت پناہی سے کی جانے والی مذہبی دہشت گردی کا سب سے زیادہ فائدہ غاصب بھارتی ریاست کو ہوا جسے ریاستی جبر کے نئے جواز ملے ہیں۔ 
قوم پرستانہ سیاسی رجحانات کی زوال پزیری کے بعد لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کے نوجوانوں نے سماجی اور معاشی مطالبات کی بنیاد پر جدوجہد کرنے کا راستہ اپنایا ہے۔ روز مرہ زندگی کے مسائل اور بنیادی ایشوزکے گرد منظم ہونے والی عوامی تحریکوں کو طبقاتی جدوجہد اور قومی آزادی سے منسلک کرنے کا فریضہ مارکسی رجحان بخوبی ادا کررہا ہے۔ قومی سوال پر لینن ازم کا یہی کلاسیکی موقف ہے۔ بڑھتے ہوئے ریاستی جبر اور سیاسی گھٹن کے ماحول میں کشمیری عوام نے اپنی آواز بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حالیہ انتخابات کے ذریعے بلند کی ہے۔ حکمران طبقے کی چالبازی کو عوام کے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی یہ کامیاب حکمت عملی ہے۔ دہلی پر براجمان ہونے کے بعد رجعتی مودی سرکار نے اندھی طاقت کے ذریعے کشمیر میں ''ریاستی رٹ‘‘ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی جسے کشمیری عوام کی سخت مزاحمت نے ناکام بنا ڈالا۔
ماضی کی حکومتوں کی طرح مودی سرکار بھی کشمیرکے حکمران طبقے کے ذریعے اپنے عزائم کو آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عوام کا دبائو اس قدر شدید تھا کہ کرپٹ مقامی اشرافیہ کے سیاسی رہنما کھل کر بی جے پی کی حمایت نہیں کرسکے۔ حالیہ انتخابات کے دوران کشمیری عوام میں دہلی کے خلاف پہلے کبھی نہ دیکھی گئی نفرت دیکھنے میں آئی ہے۔ ہندو دائیں بازو کی طرف سے ''ترقی‘‘ اور ''ریاست میں مزید سرمایہ کاری‘‘ کا فریب مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ کشمیر کے محنت کش عوام بخوبی واقف ہیں کہ ''ترقی‘‘ کی آڑ میں نریندرا مودی ''حصول زمین کا قانون‘‘ (Land Acquisition Act) ختم کرنا چاہتا ہے تاکہ کشمیر کی زمین پر کارپوریٹ گدھ پنجے گاڑ سکیں۔ زمین کی ملکیت کے بنیادی حقوق کشمیری عوام نے 1920ء کی دہائی میں مہاراجہ کے خلاف طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیے تھے۔ 
جموں ڈویژن میں نریندرا مودی مذہبی کارڈ استعمال کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے۔ جموں ڈویژن کی کل 37میں سے 25نشستوں پر بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔وادی میں بی جے پی کو ایک نشست بھی نہ مل پائی۔ بی جے پی کے 36امیدواروں میں سے 35کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے 28نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن میں جموں ڈویژن کے مسلم اکثریتی علاقوں کی تین نشستیں بھی شامل ہیں۔ ہندو انتہا پسند 1947ء سے ہی اس مذہبی تعصب کی سیاست کررہے ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ مذہبی بنیادوں پر جموں کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ بھی کرتی رہی ہے حالانکہ اس صورت میں جموں کے کل چھ میں سے ڈھائی اضلاع ہی اس کے حصے میں آئیں گے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے ریاستی سیکرٹری جنرل محمد یوسف تاریگامی نے کلگام حلقہ سے مسلسل چوتھی بار انتخابی کامیابی حاصل کی ہے۔ پیر پنچال کے شمالی دامن میں واقع ضلع کلگام بنیاد پرست مذہبی وسیاسی تنظیم جماعت اسلامی کا مضبوط گڑھ ہے۔ یوسف تاریگامی نے یہاں سے پہلی بار 1996ء میں الیکشن لڑا تھا جب پورا کشمیر مذہبی پولرائزیشن اور شدت پسندی کی لپیٹ میں تھا۔ انہوں نے 2002ء اور پھر 2008ء کے انتخابات میں بھی اس نشست پر کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی کی ہندو انتہا پسندی کے خلاف نعرہ بازی کرنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی حالیہ انتخابات میں 28 نشستیں جیت کر کشمیر کی سب سے بڑی سیاسی اکائی کے طور پر ابھری ہے لیکن مسلمان آبادی کے علاقوںمیں اس پارٹی نے بھی مذہبی کارڈکا خوب استعمال کیا ہے۔ کلگام میں بھی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کمیونسٹ امیدوار کے خلاف الیکشن کو ''اسلام اور کفر‘‘ کی جنگ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ جماعت اسلامی کے کارکنان، کرپٹ ٹھیکیدار، سرمایہ دار اور منشیات کے سمگلر یک جا ہو کر ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت میں یوسف تاریگامی کے خلاف متحرک تھے۔ اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے لیے ایک دوسرے کے خلاف مذہبی بنیادپرستی کا زہر اگل کر عوام کو تقسیم کرنے والے بی جے پی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان اپنے نظام کو بچانے کے لیے ایک کمیونسٹ کے خلاف متحد تھے!
تاریگامی کے موقف کہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، کو عوام میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کو محنت کش اور غریب طبقے کے حقوق، مفت علاج اور تعلیم اور کسانوں کے مطالبات پر مرکوز رکھا، کشمیر کی آزادی اور خومختاری کی جدوجہد کو پوری دنیا میں عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جنگ سے جوڑنے کا تناظر محنت کشوں اور نوجوانوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ یوسف تاریگامی نے اپنا موقف لوگوں کے سامنے واضح کیا کہ پارلیمانی سیاست استحصالی ریاست اور نظام کو شکست دینے کا کوئی حتمی راستہ نہیں ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی قوتوں کے خلاف جدوجہدکو منظر عام پر لانے اور ابھارنے کا ایک ذریعہ ہے،کشمیر سمیت پورے برصغیر کے محنت کش عوام کے مسائل اور ان کے حل کی جدوجہد مشترک ہے، قومی اور مذہبی تفریق محنت کشوں کی یکجہتی کو ٹھیس پہنچاتی ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران اٹھاتے ہیں۔ 
CPI(M)کے جلسوں میں فیض صاحب کی نظمیں اورکشمیرکے انقلابی شاعر عبدالاحد آزادکے نغمے خوب گونجتے رہے۔ ہر قصبے اورگائوں کی دیوار پر پارٹی کے نشان (درانتی ہتھوڑا) کے سٹیکر اور پوسٹر آویزاں تھے۔ پوری انتخابی مہم کے دوران یوسف تاریگامی اوران کے ساتھیوں نے اپنے کمیونسٹ نظریات چھپائے نہ ہی یہ واضح کرنے میں کوئی عار محسوس کی کہ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا مقصد معیشت اور سیاست کے بنیادوں ڈھانچوں کی مکمل تبدیلی ہے۔ نتائج آنے کے بعد پاکستان میں انقلابی مارکسسٹوں کے نام اپنے پیغام میں یوسف تاریگامی نے کہا کہ ''یہ صرف میری نہیں بلکہ پورے برصغیر اور دنیا بھر کے انقلابیوں کی فتح ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں