امریکی صدر بارک اوباما کے دورئہ بھارت پر بہت واویلا کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے حکمران اسے اپنی ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کے حکمران اور تجزیہ نگار اسے تشویش اور حسد سے دیکھ رہے ہیں۔چینی حکمرانوں کی بے چینی کے متعلق بھی تبصرے کیے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ امریکہ چین کی ابھرتی ہوئی سامراجی قوت کیخلاف ایک طاقت ور حلیف تیار کر رہا ہے۔در حقیقت اس تمام تر منافقانہ سفارتکاری کے پیچھے عالمی مالیاتی اداروں اور اسلحہ و دفاعی آلات بنانے والی کمپنیوں سمیت دیگر سرمایہ داروں کے منافع کی ہوس کار فرما ہے۔ذرائع ابلاغ پر سول نیوکلیئر معاہدے سمیت اسلحے کی تجارت اور سٹریٹیجک امور پر بہت شور ہے۔ لیکن اس تمام لغو گفتگو میں نہ کوئی بھی اس خطے میں پھیلی ہوئی غربت، جہالت، بیماری اور ذلت کا ذکر نہیں کر رہا۔
جس بھارت کی بلند شرح ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور اسے خطے میں امریکی سامراج کی جانب سے اہم ذمہ داریاں سونپنے کی بات کی جا رہی ہے‘ وہاںدنیاکی چالیس فیصد غریب آبادی بستی ہے۔تحقیق کے مطابق بھارت میں 75.6فیصد آبادی یا 82کروڑسے زائد افراد غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔افریقہ کے غریب ترین حصے میں آبادی کی یہ شرح 72.2فیصد ہے۔
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میںصرف 36فیصد افراد کے پاس رفع حاجت کے لیے مناسب انتظام موجود ہے جبکہ باقی 64فیصد افراد بغیر کسی ٹوائلٹ کے رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔شہروں میں جہاں جدید ٹرینیں اور انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہاں بھی 40فیصد افراد اس بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ انہی وجوہ کی بنا پر ہر سال اموات کی ایک بڑی وجہ اسہال ہے۔خوتین کی حالت زار کے حوالے سے بھی بھارت دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان دوسرے۔بھارت میں ہر سال ایک لاکھ حمل اس لیے ضائع کروا دیے جاتے ہیں کیونکہ والدین بیٹی پیدا نہیں کرنا چاہتے۔الٹراساؤنڈ کی جدید تکنیک کا اتنا رجعتی اور گھناؤنا استعمال اس ترقی کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔صحت اور تعلیم کی سہولیات تو بہت دور کی بات بھارت میں رہنے والی آبادی کا ایک بڑاحصہ پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم ہے۔کروڑوں لوگ فٹ پاتھوں اور جھونپڑ پٹیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ایسی صورتحال میں بھارت دنیا میں اسلحہ خریدنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔ 2009ء سے 2013ء کے درمیان بھارت نے دنیا میں فروخت ہونے والا 14فیصد اسلحہ خریدا ۔اس خریدار ی میں 75فیصد اسلحہ روس سے جبکہ صرف 7فیصد امریکہ سے خریدا گیا۔ روس سے خریدے گئے اسلحے میں جوہری آبدوز،90 MKIجنگی ہوائی جہاز، ہوائی جہازوںسے لیس ہونے والا بحری جہاز اور دیگر اسلحہ شامل ہے۔ امریکہ کے لیے اپنے اسلحے کی فروخت میں اضافے کے لیے اس سے بہتر منڈی ملنے کی گنجائش کم ہے۔مودی اور اوباما میں یہ خصوصیت بھی مشترک ہے کہ دونوں بڑے پیمانے پر بے گناہوں کے قتل عام کے احکامات جاری کر چکے ہیں۔مودی نے 2002ء میں گجرات میں فسادات کے دوران ہزاروں افراد کا قتل عام کروایا جس کے بعد اس کے امریکہ داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی جس کی قلعی اب کھل چکی ہے۔ دوسری جانب اوباما عراق، افغانستان، شام اور دیگر ممالک میں بمباری کروا کر ہزاروں افراد کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ان افراد اور ان کو پالنے والی ریاستیں محنت کشوں کی پیدا کی ہوئی دولت اور انسان کے لاکھوں سال کے سفر کے بعد حاصل ہونے والی تکنیک کو غربت ، بیماری اور جہالت کے خاتمے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے جنگی ہتھیاروں کی تعمیر میں جھونک رہی ہیں۔اس کا بنیادی مقصد سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس کی تسکین اور دولت مند افراد کی دولت میں مزید اضافہ ہے۔اسی باعث دنیا میں غربت اور ذلت میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں کمی کے لیے ان کے پاس کوئی پالیسی نہیں۔
پاکستان کے حکمران اس دورے سے شدید تشویش میں مبتلا ہیں اور امریکی آقاؤ ں کی جانب سے نظر انداز کیے جانے پر تلملا رہے ہیں۔آقا سے اپنی خفت کا اظہار کرنے کے لیے وہی حربے استعمال کیے جارہے ہیں جو روٹھے ہوئے عاشق کو منانے کے لیے تجربہ کار محبوب کرتا ہے۔چین کو امریکہ کا رقیب قرار دینے اور اس سے رسم و راہ بڑھانے کی خوش فہمی میں مبتلا حکمران یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ اور چین کے معاشی مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔چین امریکہ کو برآمدات کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور سینکڑوں امریکی کمپنیوں کی چین میں بھاری سرمایہ کاری موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود چین اور امریکہ کے سامراجی مفادات کا ٹکراؤ بھی موجود ہے جو دنیا بھر میں مختلف تنازعات کی شکل میں سامنے آتا ہے اور اس میں وہ مختلف ممالک اور قوتوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک کے بد عنوان حکمران اور اعلیٰ اہلکار اپنے ذاتی مفادات کے لیے ان سامراجی قوتوں کے کھیل میں پورے ملک کے عوام کو جھونکنے میں کبھی عار محسوس نہیں کرتے ۔آگ اور خون کے اس کھیل میں یہ حکمران اپنا حصہ وصول کر کے خود ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ منتقل کر دیتے ہیں جبکہ عوام مسلسل برباد ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں نے بھی یہی کچھ کیا۔مودی کی دائیں بازو کی انتہا پسند پارٹی کو بر سر اقتدار لانے میں بھارت کے بڑے سرمایہ داروں کی وسیع سرمایہ کاری تھی جس میں ایک اندازے کے مطابق انہوں نے اس کی انتخابی مہم میں ایک ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کی۔اب وہ اس کی منافع کے ساتھ واپسی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں نے بھی ان انتخابات میں کھلے عام خونخوار مودی کی حمایت کی اور اب اس کے ذریعے نجکاری اور مزدور دشمن قوانین کے عمل کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اس معیشت کو آئی ایم ایف کی جکڑ میں لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔پاکستان میں بھی یہی عمل جاری و ساری ہے۔ جہا ںکبھی بھارت کی دشمنی کے نام پر اربوں ڈالر اسلحے پر خرچ کر دیے جاتے ہیں اور کبھی سرمایہ داروں کے منافعوں کے حصول کے لیے امن کا ناٹک رچایا جاتا ہے جبکہ عام افراد بجلی، پانی، گیس اور پٹرول کی بنیادی سہولیات سے محروم ہو رہے ہیں اور صحت اور تعلیم کی سہولیات ایک خواب بنتی جا رہی ہیں۔
اوباما کی بھارت یاترا جہاں بھارت میں اپنے سرمایہ داروں کے لیے وسیع منڈی کی تلاش کے حوالے سے اہم پیش رفت ہے وہاں خطے میں اسلحے کی ایک نئی دوڑ کے آغاز کے بھی امکانات موجود ہیں۔ عالمی سطح میں اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک میں بھارت کے بعد چین اور پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ان ہی ممالک میں دنیا کی غربت اور ذلت کی سب سے گہری کھائی بھی موجود ہے جس میں گرنے والے افراد کبھی واپس نہیں نکل سکتے۔ چین میں سرمایہ داری کی استواری کے بعد امارت اور غربت کی خلیج میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ منصوبہ بند معیشت کے خاتمے کے بعد منڈی کی معیشت نے عوام سے روزگار، علاج، تعلیم اور دیگر تمام بنیادی سہولیات چھین لی ہیں اور لوگ فٹ پاتھوں اور جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ دنیا کے جدید فون تیار کرنے والی کمپنیوں کے مزدور خود کشیاں کر رہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود چین کے سامراجی عزائم موجود ہیں اور وہ جنوبی ایشیا میںمختلف بندرگاہوں کی تعمیر کے علاوہ لوٹ مار کے بہت سے نئے منصوبے بنا رہا ہے جنہیں عرف عام میں سرمایہ کاری کا نام دیا جاتا ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس ان ممالک کے حکمران غریب عوام سے لوٹی رقم سے ہتھیاروں کے انبار میں مزید اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ دنیا کی تقریباًتین ارب آبادی پر مشتمل ان ممالک کے عوام قومی جنگوں کے نام پر کئی دفعہ دھوکا کھا چکے ہیں۔ بربادی اور جنگوں کے اس چکر کو صرف ایک طبقاتی جنگ کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے جب خطے کے کروڑوں محنت کش عوام اپنے حکمرانوں کے مظالم کے خلاف باہر نکلیں اور ان کے اس سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام کا مکمل خاتمہ کر کے ایک سوشلسٹ فیڈریشن کو قائم کریں۔