"DLK" (space) message & send to 7575

داخلی بحران کے سفارتی مضمرات

جنگ کی سائنس میں مہارت رکھنے والے انیسویں صدی کے مشہور جرمن جرنیل کارل وون کلاز وٹزکی تحریریں آج بھی دنیا کی بڑی ملٹری اکیڈمیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔کلاز وٹز نے کہا تھا کہ ''جنگیں جیتنے کے لیے دوخصوصیات ناگزیر ہوتی ہیں۔ پہلی خصوصیت وہ دانش اور وجاہت ہے جو تاریک وقت میں بھی روشنی کی کچھ لَو اپنے اندر بچائے رکھتی ہے۔ دوسری خصوصیت وہ جرأت ہے جو اس لَو کے پیچھے چلنے کے لیے درکار ہوتی ہے، چاہے وہ جس طرف بھی لے جائے۔۔۔۔ ۔جنگ دوسرے ذرائع سے سیاست کا ہی تسلسل ہوتی ہے‘‘۔
جنگیں جہاں داخلی انتشار سے فرار کا ذریعہ ہوتی ہیں وہاں حکمران طبقات کی خارجہ اور سفارتی پالیسیاں بھی ممالک کو داخلی خلفشار میں مبتلا کر سکتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی شدت کا اظہار اس نظام کے''عالمی پولیس مین‘‘ اور تاریخ کی سب سے بڑی معاشی و عسکری طاقت ، یعنی امریکی سامراج کی بحران زدہ سفارت کاری اور لڑکھڑاتی ہوئی خارجہ پالیسی میں پوری طرح عیاں ہے۔
مشرق وسطیٰ پر نصف صدی تک امریکی سامراج کا تسلط قائم رہا لیکن آج اس خطے میں اس کی سفارت کاری سب سے زیادہ ذلت کا شکار نظر آتی ہے۔ 3200 سال پرانی خیالی داستان پر اسرائیل کا قیام 1948ء میں سامراج کی گماشتہ ریاست کے طور پر''اقوام متحدہ‘‘ کے ذریعے عمل میں لایا گیا۔المیہ ہے کہ یہ قرارداد جوزف سٹالن نے سامراج کے ساتھ معاہدے کے تحت اقوام متحدہ میں پیش کی تھی۔ یہ وہ عہد ہے جب دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ ایک عالمی قوت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ مشرق وسطیٰ کو مسلسل عدم استحکام، تنائو اور قومی و مذہبی تعصبات کا شکار رکھنے کے لیے اسرائیل کو جنم دیا گیا تاکہ تیل کی دولت اور سٹریٹیجک جغرافیائی پوزیشن سامراج کے کنٹرول میں رہے۔
امریکہ کی سب سے زیادہ فوجی امداد حاصل کرنے والا ملک اسرائیل رہا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر صہیونی ریاست کی بربریت کا دفاع امریکہ نے کیا۔ ڈیموکریٹس ہو ں یا ریپبلکن ،ہر امریکی حکومت اسرائیل کے وسیع جنگی جرائم کا جواز پیش کرنے میں پیش پیش رہی۔ یورپ کی سامراجی قوتیں بھی ڈھٹائی سے امریکہ کی پیروی کرتی رہی ہیں؛ تاہم عراق اور افغانستان میں پے درپے شکستوں اور 2008ء کے مالیاتی کریش (جس سے بحالی نہیں ہورہی) کے بعد سے ریاستی دیوالیہ پن کے خطرے کے پیش نظر فوجی اخراجات کم کرنے کے لیے کچھ برسوں سے امریکی سامراج نے مشرق وسطیٰ میں ''مصالحت‘‘ کی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔جوہری ہتھیاروں کے معاملے پر ایران کے ساتھ جنیوا میں ہونے والا عبوری معاہدہ اس پالیسی میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔ لیکن سفارت کاری کی اس پالیسی شفٹ پر اسرائیلی حکمران سخت برہم ہیںاور اپنے آقا کو تضحیک وتذلیل کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسرائیل کے مذہبی جنونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکہ کا تین روزہ دورہ شروع کر دیا ہے۔یہ کسی اسرائیلی سربراہ مملکت کا پہلا امریکی دورہ ہے جس میں اس کو امریکی صدر نے وائٹ ہائوس آنے کی دعوت نہیں دی۔ یعنی ان کی صدر اوباما سے ملاقات نہیں ہوگی۔ دورے کے آغاز پر نیتن یاہو نے انتہائی دولت مند اور طاقتور''امریکن اسرائیلی پبلک افیئرزکمیٹی‘‘ کی تقریب میں1500افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتہ اسرائیل کے وجود کے لیے سنگین خطرہ ہے۔۔۔۔۔امریکی رہنما اگر اپنے ملک کی سکیورٹی کے بارے میں پریشان ہیں تو ہمیں اپنے ملک کی بقا کا خطرہ لاحق ہے‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس کاانتہائی نحیف سا جوابی بیان دیا کہ ''اسرائیل کی سکیورٹی ہمارے ذہنوں پر سب سے زیادہ غالب ہے لیکن ہمیں دوسرے ممالک اور اپنی سکیورٹی بھی عزیز ہے‘‘۔اس دورے کا سب سے اہم حصہ نیتن یاہو کا امریکی کانگریس سے بدھ کا خطاب ہے جس میں امریکی پارلیمان کے نمائندوں پر زور دیاگیاکہ ایران کے ساتھ معاہدے کا راستہ روکا جائے۔ 31مارچ کو ہونے والے اس ممکنہ معاہدے میں ایسے نکات بھی شامل ہیں جسے اسرائیلی وزیراعظم توڑ مروڑ پیش کر رہے ہیں۔
دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی دائیں بازوکی ریپبلکن پارٹی نے سپیکر جان بوہنر پر زور دے کر نیتن یاہوکے خطاب کا اہتمام کیا۔امریکی صدر اور وائٹ ہائوس کو اس کی اطلاع دینا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا۔ جان کیری کے بقول یہ واقعہ ''عجیب‘‘ اور ''انتہائی غیر معمولی‘‘ ہے۔17مارچ کو ہونے والے اسرائیل کے انتخابات سے قبل نیتن یاہواس دورے کوانتخابی سٹنٹ کے طور پر بھی استعمال کر رہا ہے، وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی خطرناک قدم اٹھا سکتا ہے۔ سینئر برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے یہاں تک لکھا کہ نیتن یاہو ''ایران پر بمباری بھی کروا سکتا ہے۔ نیتن یاہو نے اوباما کو 'جھوٹا اور دھوکہ باز‘ تک کہا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بخوبی جانتا ہے کہ امریکہ میں وہ کوئی بھی حرکت اسی عتماد کے ساتھ کرسکتا ہے جس طرح غزہ میں بچوں کا قتل عام کرتا ہے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ نیتن یاہو نیویارک میں پیدا نہیں ہوا ورنہ آج امریکہ کا صدر ہوتا۔ اسرائیل اور امریکی حکومت کے درمیان فرق دکھانے کی جعل سازی اور ناٹک بند کیا جائے ‘‘۔ (انڈی پینڈنٹ، 2مارچ 2015ء)
درست ہے کہ اوباما کو نیتن یاہو پرکافی غصہ ہے لیکن یہ ''ڈیموکریٹ‘‘ بھی ریپبلکن پارٹی سے کم اسرائیل کے طرفدار نہیں ہیں۔ غزہ کے قتل عام پر ڈیموکریٹک پارٹی کی ممکنہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کی ڈھٹائی ہی ڈیموکریٹک پارٹی کا اصل کردار بے نقاب کرنے کو کافی ہے۔انہوں نے فرمایا تھا کہ ''غزہ کی جنگ میں خواہ مخواہ الزام تراشی کی جارہی ہے۔ جنگ کی ''دھند‘‘ میں یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔عورتوں اور بچوں کے قتل عام سے ایک اذیت پیدا ہوتی ہے اور سچائی تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے‘‘۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کی پالیسی شفٹ سے اسرائیل کی طرح امریکہ کے حامی روایتی عرب حکمران بھی ناخوش نظر آتے ہیں۔ اس سے قبل شام پر حملہ نہ کرنے پر بھی وہ نالاں تھے۔نائن الیون کو''انسائیڈ جاب‘‘ قرار دینے والے ہندوستان کے تبلیغی ذاکر نائیک کو ''کنگ فیصل انٹرنیشنل پرائز‘‘دینے کی بھی ایک معنویت ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جنگوں اور پراکسی جنگوں کی یہ پالیسیاں سامراجی ریاستوںکے داخلی بحران کی پیداوار ہیں۔ سامراجی ریاستیں اپنے محنت کش عوام کی بھی سگی نہیں ہیں۔ آخر کو انہی ممالک کے غریب نوجوان ان جنگوں کا ایندھن بنتے ہیں جن کے اخراجات محنت کش طبقے پر لاد دیے جاتے ہیں اور بھاری منافعے حکمران کماتے ہیں۔ انہی سامراجی ریاستوں کی کوکھ میں غربت، بیروزگاری اور مہنگائی پلتی ہے۔ سیاہ فام صدرکے اقتدار میں سیاہ فام غریب شہریوں کا پولیس کے ہاتھوں قتل امریکہ کا معمول ہے۔ امریکی محنت کشوں کا معیار زندگی مسلسل روبہ زوال ہے۔ دولت، آبادی کی اکثریت کی جیبوں سے نکل کر چند ہاتھوں میں سمٹ رہی ہے۔ بل گیٹس کی دولت میں پچھلے سال 16ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اسرائیل کے حالات بھی اتنے اچھے ہوتے تو 2011ء کے مظاہروں میں لاکھوں محنت کش اور نوجوان سڑکوں پر نہ امڈتے۔ اسرائیل کی دس فیصد سے زائد آبادی نے معاشی و سماجی ناانصافیوں کے خلاف ان مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ پاکستان کی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد دوکروڑ بنتی ہے۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں عوام پاکستان کی سڑکوں پر ہوں تو پیدا ہونے والی انقلابی صورت حال کے مضمرات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ نااہل اورکرپٹ حکمران تو شاید چند گھنٹوں میں ہی ملک سے فرار ہوجائیں گے۔اس داخلی بغاوت کو مسلسل زائل کرنے کے لیے ہی یہ سامراجی قوتیں ''تہذیبوں کے تصادم‘‘ جیسے نظریات کا پرچارکرکے بیرونی دشمن تراشتی ہیں۔
جنگ، خونریزی اورانتشار سے پاک مشرق وسطیٰ کا خوشحال مستقبل، سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف اس خطے کے عوام کی انقلابی تحریک سے مشروط ہے۔ اسرائیل کی وحشی صہیونی ریاست کو اکھاڑ پھینکنے میں اسرائیل کے محنت کش عوام کا کردار کلیدی ہے۔2011ء میں امریکی نوجوانوں کی ''آکو پائی وال سٹریٹ‘‘ تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دنیاکے ایک ہزار شہروں میں بیک وقت مظاہرے ہوئے تھے۔ سامراج کی کوکھ سے ایسی تحریکیں پھر ابھریں گی۔ مارکسی تناظر اور لائحہ عمل سے لیس ہوکر ہی یہ بغاوتیں بربریت اور وحشت کے اس گھن چکر سے دنیا کو نکال سکتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں