"DLK" (space) message & send to 7575

سرحدوں کے آرپار، ایک ہی داستان!

مسئلہ کشمیر ایک ایسا زخم بن چکا ہے جس کا علاج تو درکنار، برصغیر کے حکمران اسے بار بار کرید کر پورے خطے کو اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جس کا مقصد یہاں کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے بنیادی معاشی و سماجی مسائل کو قومی شاونزم اور مذہبی بنیاد پرستی تلے دبانا ہے۔ مسرت عالم کی گرفتاری، رہائی اور پھر گرفتاری کے گرد ابھرنے والی شورش کے ذریعے کشمیر میں سطح کے نیچے پنپنے والی بغاوت اور غم و غصہ پھر سے پھٹا ہے۔ کشمیر پر دو طرفہ سامراجی تسلط کے ذریعے وہاں کے عوام کو نہ صرف قومی استحصال کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ ریاستی دہشت گردی کے ساتھ معاشی جارحیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔
مغربی دانشور اور ان کے مقامی حواری عمومی طور پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ برصغیر، خصوصاً پاکستان میں مذہبی منافرت اور بنیاد پرستی کو 1947ء کے خونی بٹوارے سے فروغ ملا ہے۔ غربت، بیروزگاری، کالے دھن جیسے بنیادی عناصر اور سب سے بڑھ کر سامراج کی اپنی مداخلت اور پراکسی جنگوں پر بڑی عیاری سے پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر کوئی مذہبی جنونی ہے۔ یہ مفروضہ نہ صرف غلط ہے بلکہ پاکستان میں بسنے والے محنت کش عوام کی جدوجہد، قربانیوں اور 1968-69ء جیسی انقلابی تحریکوں کی تضحیک ہے۔ یہ درست ہے کہ اس ملک میں مذہبی دہشت گردی گزشتہ کچھ عرصے سے شدت اختیار کر گئی ہے اور سماجی اقدار پرکسی حد تک مذہبی یا فرقہ وارانہ تعصب حاوی ہے۔ لیکن یہ ایک عارضی کیفیت ہے جو اس سماج کی روایات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ صورت حال ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی۔ مذہبی بنیاد پرستی کی تباہ کاریاں تہذیب اور معاشرت کو مٹا سکتی ہیں لیکن اس ملک کے محنت کش ایسا کبھی نہیں ہونے دیںگے۔ ان کی میراث اس حقیقت کی گواہ ہے اور ماضی کے بغیرکوئی مستقبل نہیں ہوا کرتا۔ یہ جدلیات کا اصول اور تاریخ کا قانون ہے۔ 
یہاں مذہبی انتہاپسندی کو پروان چڑھانے میں 1947ء کے بٹوارے کا کوئی کردار ہے تو بھارت بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ بھارتی ریاست کو ''سیکولر‘‘ قرار دینے کا پراپیگنڈا حقائق کے برعکس ہے۔ بھارت کے معاشی ارتقا کے ساتھ وہاں کی سرمایہ داری کا تعفن بڑھتا ہی گیا ہے۔دنیا کی اس سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت میں دنیا کی سب سے زیادہ بھوک پلتی ہے۔ پاکستان کی ہی طرح کرپشن، بدعنوانی اور کالے دھن نے بھارت کی ریاستی مشینری کو بھی کھوکھلا کر دیا ہے۔ 2014ء کے الیکشن میں انتہائی دائیں بازوکے ہندو بنیاد پرست نریندر مودی کی انتخابی مہم میں امریکی انتخابات سے بھی زیادہ دولت لٹائی گئی تھی۔ غربت کے اس بحر میں امارت کے جزائر بھی ہیں۔ مکیش امبانی، لکشمی متل اور کمار برلا جیسے بھارتیوں کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی بحران میں شرح منافع کو برقراررکھنے کے لیے محنت کش عوام پر معاشی حملے اس نظام کی ضرورت بن چکے ہیں۔ بھارت کے ان سرمایہ داروں نے اسی مقصد کے تحت مودی
جیسے جنونی شخص کو اقتدار دیا ہے جس کی فسطائیت ان آقائوں کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
مودی کی سماجی بنیادیں معاشرے کی پسماندہ پرتوں اور معاشی گراوٹ کے تحت سکڑتی ہوئی مڈل کلاس میں ہیں۔ اسے ایک طرف بھارت کے نام نہاد ''سیکولرازم‘‘ کی پاسداری کا ناٹک کرنا پڑرہا ہے تو دوسری طرف بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سَنگھ جیسی فاشسٹ تنظیموں کے دبائو کا سامنا ہے جن کے ذریعے بنیاد پرستی کا زہر عوام کی نفسیات میں انڈیل کر اس نے ووٹ لیے ہیں۔ مودی حکومت کی پالیسیاں تضاد کا شکار ہیں اور''اکھنڈ بھارت‘‘کی نعرہ بازی بھی کی جارہی ہے۔ 
مودی حکومت کے تحت بھارتی ریاست کی بڑھتی ہوئی وحشت صرف کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے بھارت میں قومیتی بنیادوں پر جبراور طبقاتی استحصال میں شدت آ رہی ہے۔ لیکن کشمیر
کا مسئلہ اس لیے بھی زیادہ اجاگر ہوجاتا ہے کہ اس سے پاکستانی ریاست کے مخصوص مفادات بھی وابستہ ہیں۔ مودی نے پہلے ''ترقی‘‘ (وکاس) اور ''یکجہتی‘‘ والی اپنی روایتی واردات کشمیر میں بھی کرنے کی کوشش کی۔کشمیر کے عوام کی مایوسی کو استعمال کرتے ہوئے انہیں سبز باغ دکھا کر، ریاستی الیکشن جیت کر وہ ''اکھنڈ بھارت‘‘ کی تعمیر میں اہم سنگ میل کے طور پر اپنا نام تاریخ میںلکھوانا چاہتا تھا، لیکن کشمیر میں وہ صرف مذہبی تفریق اور منافرت کو ہی ابھار پایا جس کے ذریعے جموں اور لداخ میں بی جے پی نے 25 نشستیں حاصل کیں، جو ان کی توقعات سے کم تھیں۔ بی جے پی کو مجبوراً محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانا پڑی۔ اس مخلوط حکومت نے کشمیر کے حکمران طبقے کا حقیقی چہرہ وہاں کے عوام کے سامنے پھر سے بے نقاب کیا ہے، لیکن یہ حکومت جتنی منافقانہ ہے، اتنی ہی غیر مستحکم بھی ہے جو معمولی سی ٹھوکر سے بھی ٹوٹ جائے گی۔
پچھلی سات دہائیوں سے غاصب ریاستوں نے کشمیر کے عوام پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے ہیں۔ برداشت، مزاحمت اور جدوجہد کی طویل تاریخ کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے رقم کی ہے، لیکن اس جدوجہد ِ آزادی کا المیہ تحریک کے لائحہ عمل، نوعیت اور مقصد و منزل سے متعلق ابہام اور قیادت کا فقدان رہا ہے۔کشمیری قوم پرستی سے لے کر پاکستان کے ساتھ الحاق کے پروگرام اور مذہبی بنیاد پرستی تک،کشمیر کے مظلوم باسی بار بار ناکام و نامراد ہی ہوئے ہیں۔ مسلح جنگ اور انفرادی دہشت گردی ہو یا پھر سامراجی قوتوں اورتنازعے میں ملوث ریاستوںکی مداخلت سے ہونے والے ''مذاکرات‘‘، مسئلہ گمبھیر ہی ہوتا چلا گیا ہے۔ پسپائی کی اسی یاس کو اب ایک تضحیک آمیز طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ 
سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیرکو اگر پاکستان سے ملا دیا جائے توکیا کشمیری عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ بھارت اور پاکستان اپنے اپنے شہریوں کوکیا انتہائی بنیادی ضروریات زندگی بھی فراہم کر سکے ہیں؟حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران بہت عرصے سے کشمیر سے متعلق اپنے کلاسیکی موقف سے بھی دستبردار ہو چکے ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے اِس طرف کے کشمیر ی محنت کشوں کی زندگی کیا کم تلخ ہے؟کشمیرکے نوجوان کیا پورے ملک اور پوری دنیا میں روزگار کی تلاش میں خاک نہیں چھان رہے؟خلیجی ممالک میں نہیں کر رہے ؟ان حالات میں مقبوضہ کشمیرکے عوام کے لیے پاکستان سے الحاق میں کیا کشش یا امید ؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف ایک ہی معاشی و سیاسی نظام کی حاکمیت ہے۔ دونوں طرف سرمائے کا جبر ہے، سرمایہ داری کی ذلت ہے۔ حکمران اس نظام کو نہیں چلاتے بلکہ اس نظام کے تقاضے حکمرانوں کو چلاتے ہیں۔ استحصال اور جبر میں مسلسل اضافہ آج کی سرمایہ داری کے وجود کی بنیادی شرط ہے۔ سرمائے کی اس کالی دیوی کو ہر وقت غریبوں کے لہوکی بھینٹ چاہیے۔ سرمائے سے آزادی کے بغیر ہر ''آزادی‘‘ دھوکہ، جھوٹ اور فریب ہے۔ مسائل اگر لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف میں سنگین ہوتے جارہے ہیں تو صورت حال ریڈ کلف لائن کے دونوں طرف بھی مختلف نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں