اس زمانے میں دکھ کرب اور عام ستم ہیں۔عام انسانوں کی زندگیاں کتنی تلخ ہو چکی ہیں۔ایک طرف سیکڑوں ڈشوں پر مبنی حکمرانوں کے افطار ڈنر ہیں اور دوسری طرف وہ کروڑوں کی مفلوک الحال مخلوق ہے جس کے گرد سارا سال ہی بھوک منڈلاتی رہتی ہے۔ ایک طرف وزن کم کرنے کی اربوں کی صنعت دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے تو دوسرے جانب قحط سے ہزاروں زندگیوں کے چراغ گل ہو رہے ہیں۔جہاں معیشت میں استحصال اور محرومی پیدا کر کے حکمران دولت کے انبار لگا رہے ہیں‘ جرائم اور دہشت گردی میں بھی ان کے لیے اشرفیاں ہی ٹپکتی ہیں۔ کئی کئی نوکریاں اور ملازمتیں کر کے بھی محنت کش محرومی اور غربت کی اس اذیت ناک کھائی سے باہر نہیں نکل سکتے۔ سیاست حکمرانوں کی لالچ اور زر کے لیے لوٹ مار بن کر رہ گئی ہے۔آج کے حکمران طبقات کی حالت یہ ہے کہ ان کی موجودہ سیاست میں آنے والی نسلیں ماضی کے حکمرانوں کی پارلیمانی سیاست کی مہارت اور اقدار سے بھی انجان ہیں۔اصولوں ضوابط اور ضمیر کے شائبے بھی ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکمرانوں کی سیاست اگر پارلیمانی ایوانوں میں ہوتی ہے تو محنت کشوں کی سیاست جو کبھی کبھی دہائیوں بعد دیکھنے کو ملتی ہے، وہ فیکٹریوں، تعلیمی اداروں، گلیوں، محلوں اور کھیتوں کھلیانوں میں ہوا کرتی ہے۔آج ہر جگہ انسانی بھیڑ ہے لیکن ان کی سیاست ویران ہے۔اگر سیاست سے محنت کش طبقے کو بے دخل کر دیا گیا ہے تو اس نظر یات سے عاری سیاسی نورا کشتی میں معاشرے کی دلچسپی اورامیدیںختم ہو چکی ہیں۔لوگوں کا ان سیاست دانوں کی عیاریوں، مکاریوں اور طنزیہ مسکراہٹوں اور ناٹکوں سے نہ صرف دل اچاٹ ہو چکا ہے، بلکہ حکمران طبقے کی سیاست، ثقافت، اقداراور شخصیات کے خلاف ایک دیو ہیکل لاوا سماج کی کوکھ میں بھڑکنا تیز ہو گیا ہے۔ اس کی حرارت اور بھڑکنے کی شدت سے اٹھنے والی لہریں اور کرنٹ سے حکمرانو ں کے ایوانوں اور ریاست کے اداروں میں بھی ایک لرزاہٹ کسی حد تک محسوس ہو رہی ہے۔آج اگر یہ معاشرے کی کوکھ سے پھٹ کر سماجی جمود کی سطح کو پھاڑ کر باہر نہیں نکلا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ لا متناہی طور پر اسی کیفیت اور معیار پر ہی سلگتا رہے گا۔ آج عام انسان ایک وقت اور رجعتی عہد کی قید میں جکڑے ہوئے ضرور ہیں لیکن ہمیشہ ایسے تو نہیں رہ سکتے۔یہ تو کائنات اور کشش ثقل کے اصولوں کے بر عکس مفروضہ بن جاتا ہے۔وقت ظالم سہی‘ جبر کا عہد طویل سہی لیکن کبھی الٹا نہیں چل سکتا۔ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔لیکن عوام کو ان کی روائتی قیادتوں کی غداریوں کے خنجر سے گھائل اور مجروح کر کے، معاشی بربادی کر کے، فریب اور بے وفائیوں کے وار کر کے حکمران طبقات جو سیاست اور جمہوریت چلا بھی رہے ہیں، وہ بھلا کون سی کامیاب ہے۔ عوام کے غیظ و غضب سے بے پروا حاکم اس خطرے کو مسترد کر کے کسی مزاحمت کا سامنا نہ ہونے کے باوجود، حکمرانوں کا موجودہ نظام ناکام اور نامراد ہی ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں حکومت حکمران سولین دھڑے کے سیاست دانوں کی ہے لیکن اس اقتدار کو چلا اور استعمال ان سے بھی طاقتور کر رہے ہیں۔عوام کو جمہوری اور مارشل لاء کی اقسامِ ِحکمرانیت کے جعلی تضادات میں الجھا کر تمام جمہوری پارٹیاں اور سیاست دان فوج کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔سامراجی دارالحکومتوں میں سپہ سالاروں کے استقبال بادشاہوں سے زیادہ بڑے اور پر تعیش ہوتے ہیں۔ملک کے اندر پوش علاقوں سے ٹریفک اور عام انسان تلاشی کے جن مراحل سے گزرنے پر مجبور ہوتے ہیں وہ انگریز کے دورِ نوآبادکاری اور سامراجی مقبوضہ علاقوں اور ان کے غاصبانہ قبضے کے عہد کی ترش اور دلخراش یادوں اور روایتوں کو زندہ کرتے ہیں۔اگر سیاست، خارجی اور داخلی پالیسیوں کا اختیار دیگر اداروں کے پاس ہے تو ان کی بنیاد معیشت اور مالیاتی شعبوں پر بھی وہی غالب ہیں۔دہشت گردی کے وقفے آتے اور جاتے رہے ہیں لیکن حکمرانوں کے کاروبار چلتے رہتے ہیں۔طاقت اور اقتدار کے نشے میں عام انسانوں کی جانب حکمرانوں کے رویے بہت ہی ظالمانہ ہوتے چلے گئے ہیں۔جمہوریت کے یہ شہزادے سامراجی طاقتوں اور عسکری اشرافیہ کے جتنے مطیع اور محکوم ہیں، جس انداز میں ان کی کاسہ لیسی کرتے ہیںاس سے ان کی جمہوریت کی عظمت کا پول عوام کے سامنے کھل چکا ہے۔اب کون عام انسان ہے جو وقت کی اس قید سے آزاد ہو کر حکمرانوں کی عیاشیوں اور عوام کی بربادیوں والی جمہوریت کے لیے کسی جدوجہد کرنے کا کشت کاٹے گا۔ زرداری صاحب نے فوج کے خلاف جو حالیہ شوشہ چھوڑا ہے نہ صرف اس کی معافیوں کے لیے اس فن کی ملکہ شیری رحمٰن کو سینٹ کی سیٹ انعام و اکرام کے طور پر بخشی گئی ہے بلکہ جس طرح یہ بیان دیا گیا ہے اس سے عوام کی نظروں میں ''دال میں کالا‘‘ بے نقاب ہو گیا ہے۔ایان علی منی لانڈرنگ کیس اور سندھ میں ان کی کرپشن پکڑنے کے لیے بیوروکریسی پر چھاپے مارے گئے ہیں ۔ ایسے موقع پر فوج پر تنقیدی حملہ اور ملک کے طول و ارض میں تحریک چلانے کی بڑھک
بازی سے جہاں زرداری صاحب کی بوکھلاہٹ سامنے آتی ہے وہاں یہ الیکشن ہارتے چلے جانے والی پارٹی کی طرف سے یہ ''دھمکی‘‘ لگانا کہ ''زرداری کے لیے خون کی ندیاں بہ جائیں گی‘‘ کسی دیوانے کے خواب سے کم نہیں لگتا۔ موٹر ویز اور کوریڈوروں سے لے کر اہم پراجیکٹ کے ٹھیکے لینے میں کسی کی فوقیت موجود ہے تو دوسرے شعبوں میں بھی وہ ان فائدوں کے لیے اپنی ہی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔کیونکہ پراجیکٹ ٹھیکوں کی کمائی بڑھانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ٹھیکے پراجیکٹوں کو بنانے کے لیے نہیں دیے جاتے‘ مال بنانے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں۔یہ درست ہے ''جمہوری‘‘ ادوار میں فوج کا بجٹ زیادہ بڑھایا جاتا ہے اور ان کا سیاسی اور سماجی غلبہ بھی بڑھ جاتا ہے لیکن سویلین سیاست دان جو اتنی بھاری سرمایہ کاری سے اقتدار اور سیاست میں آتے ہیں وہ بھی مال بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا نہیں رکھتے۔اپوزیشن میں ہو کر بھی اس سیاسی ''کلب‘‘ کے ممبران کے پاس لوٹ مار کے بہت سے مواقع ہوتے ہیں۔پارلیمانی کمیٹیوں سے لے کر مصالحتی پالیسیوں کے دام لگتے ہیں کیونکہ ان نوکریوں یا عہدوں کی قیمت ان سے ممکنہ حاصل ہونے والی کمائی کے حساب سے لگائی جاتی ہے اور بیچی اور خریدی جاتی ہیں۔سیاست میں الحاق اور نفاق اب اس زر اور دولت کی خرید و فروخت اور جمہوریت حکومت اور اپوزیشن کہلاتے ہیں۔میڈیا بھی اس کا حصہ ہے۔مذہبی اشرافیہ بھی پارٹنر شپ کا حصہ بن چکی ہے ، پیری مریدی بھی اسی لیے استعمال ہوتی ہے۔جبکہ سارا معاشرہ تعلیم علاج روزگار اور زندگی کو چلانے سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔یہ حکمران چاہے کسی شعبے یا ادارے سے کیوں نہ
ہوں اپنی طاقت کو دولت کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس دولت سے مزیدطاقت جمع کرنے میں محو ہو جاتے ہیں۔لیکن جہاں اس دولت کے انبار خرچ کرنے کا ان سخیوں کے پاس وقت ہے نہ فرصت‘ وہاں یہ نسل درنسل بھی صرف نہیں ہو سکتی بلکہ ان سرمایہ داروں اور جاگیر داروں میں زن‘ زر اور زمین پر خون خرابے بھی ہوتے ہیں۔''عزتیں‘‘ عدالتوں میں رسوا ہوتی ہیں۔ وہاں یہ دولت دوستیوں کو مسترد کر دیتی ہے ۔ رشتوں اور ناطوں کو تڑوا دیتی ہے۔در حقیقت ایسے افراد تنہا اور بے گانگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔غرور بے دلی اور شرمندگی کی نفسیات میں مبتلا بھی ہو جاتے ہیں لیکن ان کا سب سے بھیانک المیہ وہ غرور اور رعونت ہے جو اس دولت کے نشے سے دل و دماغ پر طاری ہو جاتی ہے۔ایسے انسان پھر آدمی بن جاتے ہیں۔جو دوسرے انسانوں کو نیچ اور گھٹیا سمجھے وہ خود اندر سے کھوکھلا اور بدکار ہو جاتا ہے۔ آخر کار وہ خود اپنی نظروں سے گر جاتا ہے۔ خیرات اور دوسرے ناٹک مردہ ضمیروں کو زندہ نہیں کر سکتے۔ لیکن پھر تاریخ میں ہمیشہ ایک مکافاتِ عمل ہوتا ہے۔ جن غریبوں اور محنت کشوں کو حقارت کے ٹھکرا دیا جاتا ہے، اجڑے ہوئوں کو یہ نظامِ زر مزیدبرباد کر دیتا ہے ،وہ بغاوت پر بھی اتر آتے ہیں اور جب وہ ایک طبقے کے طور پر تاریخ کے میدان میں اتر کر ایک تحریک میں متحرک ہوتے جاتے ہیں تو پھر یہ انقلابی طوفان ہر چیز کو اڑا کر تباہ کر دیتا ہے۔ ان حکمرانوں کی یہ رعونت غرور اور محنت کشو ں کے طبقے اور نظریات کی تحقیر خاک میںمل جاتی ہے۔اب تو بس وقت کی قید کی اس جکڑ سے آزاد ہونے کی دیر ہے۔ محنت کشوں میں برداشت کا یہ پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔ ان حکمرانوں کی رعونت کا حشر افتخار عارف کے اس شعر میں کچھ یوں بیان ہے
یہ وقت کس کی رعونت پر خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں