کرپشن ملک کی ایسی سمسیا ہے کہ اس پر ہونے والا شور کبھی ختم ہونے کو نہیں آتا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ انتہائی بے باکی اور زورو شور سے جاری بھی ہے۔ کتنے ادارے بنے‘ کتنے عہد وپیمان ہوئے ‘کتنے قانون بنے اور اب تو فوج اور رینجرز نے بڑوں بڑوں کو پکڑنا شروع کردیا ہے۔ کتنے بڑے بڑے اقتدار میں سارے کام کرکے بھی اپنے ان سیاسی رقیبوں اور رفیقوں کا تماشا بھی دیکھ رہے ہیںاور اندر سے ڈر بھی رہے ہیں۔ کرپشن کے ساتھ دہشت گردی کو جوڑدینا ظاہری طور پر اس کے خلاف مہم میں تیزی کا اظہار ہے ۔ میڈیا اور غالب اہل دانش کا یہ تاثر پھیلانا کہ اب اس کا خاتمہ ہوکررہے گا عوام کی پسماندہ پرتوں میں بھی سرایت کر گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بڑے نوٹ ختم کردینے سے کرپشن ختم کی جاسکتی ہے ۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ کرپشن کے خاتمے سے عام مسائل حل ہوجائیں گے۔ کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کو مزید مواقع فراہم کرنے سے کرپشن کا خاتمہ ہوسکتاہے ۔کچھ کہتے ہیں کہ افسران کی تنخواہیں بڑھانے سے بد عنوانی ختم ہو سکتی ہے۔لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ ریاست کے جبر کے بغیر کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔ ویسے عوام کا ریاست کے تمام اداروں سے اعتماد اٹھ جانے کے بعد سماجی شعور میںیہ تاثر سرائیت کرانا کہ فوج کے ذریعے کرپشن ختم کرائی جاسکتی ہے ‘ لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ اگر ان تمام اقدامات سے بھی کرپشن ختم نہیں ہوتی تو پھرکیا ہوگا؟۔
ایم کیو ایم کے بعد پیپلز پارٹی کے قائدین قاسم ضیاء‘ عاصم حسین کی گرفتاری اور اب یوسف رضاگیلانی اور امین فہیم کے ناقابلِ ضمانت وارنٹوں کا جاری کیا جانا پیپلز پارٹی کی قیادت میں کھلبلی مچانے کا باعث
بنا ہوا ہے۔ اسلام آباد میں ایک دن میںدو پریس کانفرنسیں ۔ خورشید شاہ نے پہلے ان گرفتاریوں اور وارنٹوں کی مذمت کی اور پھر یہ کہہ دیا کہ اگر زرداری صاحب پر ہاتھ ڈالا گیا تو اعلانِ جنگ ہوگا۔ دوسری پریس کانفرنس زیادہ دلچسپ تھی۔ شیری رحمن اور قمرزمان کائرہ نے اس پریس کانفرنس میں ''سیاسی لیڈروں‘‘کے مقدمات سویلین عدالتوں میں چلانے اور دہشت گردی کی عدالتوں سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو کیا وہ عوام کو سڑکوں پر احتجاج کے لیے لائیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا۔وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1980ء کے بعد قیادت نے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس سے پارٹی کی اب کتنی ساکھ اور سکت رہ گئی ہے کہ وہ عوام کو کسی بھی تحریک میںمتحرک کرسکیں۔ خصوصاً پچھلی حکومت نے پیپلزپارٹی کے ساتھ وہ کیا جو ضیاء الحق بھی کرنے میں ناکام رہا۔مہنگائی ‘ غربت‘ بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ نے یہاں کے باسیوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ انہوں نے اتنی شدید مزدور دشمن پالیسیاں بنائیں کہ کوئی فوجی آمریت بدترین جبر سے بھی ان کو مسلط نہیں کرسکتی ۔ عوامی تحریک کا خوف اس کو مفلوج کرکے رکھ دیتا۔ اس لیے ایسے کام عوام کے خلاف عوام کی روایتی پارٹیوں سے کراناسامراجیوں اور حکمران طبقات کا پراناوتیرہ ہے۔پیپلزپارٹی کے لیڈر اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دوراقتدار میں عوام کی اتنی درگت بنائی کہ اب وہ ان کی کال پر سڑکوں پر آنا تو درکنار ان کو ووٹ دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان لیڈروں پر کرپشن کے الزامات لگانے والوں اور ان کوپکڑنے اور سزا دینے والوں کی پارسائی کا کیا ثبوت ہے۔ یہ درست ہے کہ میڈیا نے بہت سی بدعنوانیوں کو بے نقاب کیا ہے لیکن میڈیا میں ہونے والی کرپشن کون عیاں کرے گا؟ ان میں جو شخصیات سب سے زیادہ کارپوریٹ میڈیا کا نشانہ بنیں ان کی کتنی کرپشن ہے اس کا فیصلہ تو ابھی تک کوئی عدالت نہ سنا سکی ہے اور نہ ہی کوئی مجرم ثابت کرسکی ہے۔لیکن میڈیا پر مہم اتنی شدیدہوتی ہے کہ عدالتی فیصلے سے قبل ہی اس شخص کوعوام کی نظروں میںمجرم بنا دیا جاتاہے ۔ لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ ایسے کتنے کرپٹ افراد ہیں جن کا میڈیا میں ذکر تک نہیں ہوا۔ ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھنے کی وجہ کیا ہے اورمبینہ بد عنوان افراد کے خلاف مہم چلوانے اور چلانے والے کون ہیں اوروہ اس مہم کوکن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ کیا بلیک میلنگ سے بدترین بھی کوئی کرپشن
ہے؟ یہ ایک لمبی داستان ہے ۔ اس ملک میں کون نہیں جانتا کہ کتنے بڑے بڑے بدعنوان‘ شریف ‘ پارسا اور نیک بنے دندناتے پھر رہے ہیں۔یہاں کرپشن کی الزام تراشی اور تشہیر میں بھی کرپشن کے ملوث ہونے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔کالا دھن کس طرح ''اعلیٰ کاروباری‘‘''نیک نامی کے منصوبوں‘‘ خیرات اور فلاح کی نام نہادتنظیموں میں لگا کر سفید ہوتا ہے کبھی منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ سودوں میں ملنے والی کمیشن اور کک بیکس کدھر جاتے ہیں‘ کبھی میڈیا پر نہیں آئے گا۔ یہ ممکن ہے کہ جن لیڈروں کو اب گرفتار کیا جارہا ہے وہ بدعنوان ہوں اور عوام ان کو سزائیں ملنے پر خوش بھی ہوںگے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ کرپشن اور دہشت گردی کا گہراتعلق اور رشتہ بھی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے سہارے ہی چلتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ چھوٹے بد عنوان افسروں کو نشانِ عبرت بناکر بڑے افسران اور بالادست طبقات کے افراد کو صاف بچا لیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ این آر اوہو جاتا ہے ۔یعنی یہ تمام تر کارروائی‘ حکمران طبقے کا ایک حصہ‘ دوسرے پردباؤ ڈالنے کے لیے ہی کرتاہے اور میڈیا اس میں کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتا ہے۔ڈالروں کی سمگلنگ سے لے کر ہائوسنگ سوسائٹیوں میں خرد برد کی حالیہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ صنعت کاری کے ذریعے وہ دولت اور وسائل پیدا نہیں کرسکاجس سے کسی حد تک معاشرہ بھی ترقی کرتا اور ان کی شرح منافع بھی قائم رہتی۔ اپنی سماجی حیثیت کو قائم رکھنے کے لیے ریاست اور سرکاری خزانہ لوٹنا ان کی ضرورت اور مجبوری تھی ۔اس مقصد کے لیے سیاست کو کاروبار بنایا گیا اور پھراس کے ذریعے اقتدارحاصل کرکے اس کاروبار کو تقویت دی گئی۔ ایک مانگ اور عدمِ مساوات پر مبنی معاشرے میں ریاست کے اہل کاروں کو اپنا معیارِ زندگی بڑھانے کے لیے اس کرپشن کی ہولی میں ہاتھ رنگنے میں بھلا کیااعتراض ہوسکتا تھا۔ ان کی بھی ''فیملیاں‘‘ ہیں جن کی''ضروریات‘‘ ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ دوسری جانب ایک پرانتشار معاشرے میں بھلا دہشت کے بغیر کوئی بھی کاروبار کیسے چل سکتا ہے اور کرپشن کا کاروبار جو مبنی ہی جرم پر ہے اس میںتودہشت کہیں زیادہ درکار ہوتی ہے۔اس طرح اس معاشرے کا 68سال میں جو معاشی اور سماجی ارتقا ہوا ہے اس میں کرپشن اس سماج ‘سیاست ‘ریاست اور ہرشعبے کے ریشوں رگوںاور شریانوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ ضیاء آمریت نے اس کے حجم میں تیز ترین اضافہ کیا۔ 1978ء میں پاکستان میںکالا دھن کل معیشت کے 5فیصد سے کم تھا جبکہ آج 73 فیصد سے زیادہ ہے!
اگر غور کریں تو مسئلہ بہت گہرا ہے۔بیماری کہیں زیادہ ہولناک ہے اور ناسور بہت زیادہ پھیل چکا ہے۔ کسی ادارے یا کسی سیاسی ڈھانچے اور طریقہ کار سے اس کینسر کا علان ممکن نہیں ۔ جب ناسوربڑھ کرجسم کے دوسرے حصوں تک پھیل جائے تو پھر متاثرہ عضو کاٹ بھی دیں تو یہ موذی مرض دوسری جگہ نمودار ہو جاتا ہے ۔ پورا نظام ِ زر اور اس پر مبنی سماج آج اس بیماری کا شکار ہے۔یہ بدعنوانی اس نظام میں خرابی کا باعث نہیں‘بلکہ کرپشن اس گلے سڑے نظام کی ضرورت اور پیداوار ہے۔یا تو اس سارے نظام کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بدلنا ہوگابصورت دیگر کرپشن کا شور مچاکر محنت کشوں کے استحصال اور ذلت کا یہ بیہودہ اور المناک سلسلہ جاری رہے گا۔