"DLK" (space) message & send to 7575

جبر کی بوکھلاہٹ

ہفتہ 10 اکتوبر کی صبح ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے مرکزی ریلوے سٹیشن کے باہر بائیں بازو کی ٹریڈ یونین تنظیموں اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے زیر اہتمام ریاستی اور مذہبی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں ہزاروں نوجوان اور محنت کش اکٹھے ہو رہے تھے کہ اس دوران دو خوفناک بم دھماکے ہوئے۔ تا دم تحریر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 128 ہو چکی ہے اور یہ جدید ترکی کی تاریخ میں دہشت گردی کا سب سے خونیں واقعہ ہے۔ حکومتی کی جانب سے ''مذمت‘‘ یا ''اظہار افسوس‘‘ سے پیشتر ہی ترکی کی بائیں بازو کی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینز نے نہ صرف تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا بلکہ حکومت کے خلاف 12 اور 13 اکتوبر کو 48 گھنٹے کی عام ہڑتال کی کال بھی دے دی۔
ترکی گزشتہ کئی سالوں سے داخلی تضادات اور علاقائی صورتحال کی وجہ سے مسلسل خلفشار کا شکار ہے۔ طیب اردوعان کے دور حکومت میں نجکاری اور نیو لبرل سرمایہ داری کے ذریعے پھیلایا جانے والا معاشی بُلبلہ اب پھٹ رہا ہے۔ معیشت تیزی سے زوال پذیر ہے اور جی ڈی پی گروتھ‘ جو 2010ء میں 10 فیصد سے تجاوز کر رہی تھی‘ اب 3 فیصد تک گر چکی ہے۔ اے کے پی کے دور حکومت میں دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز، ریاستی اثاثوں کی لوٹ مار، کرپشن، حکومت کی رجعتی پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں حکمران ٹولے سے نفرت اپنے عروج پر ہے۔ مئی 2013ء میں اردوعان حکومت کے خلاف شروع ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کئی ماہ تک جاری رہے تھے۔ یہ تحریک حکومت کا خاتمہ تو نہ کر سکی‘ لیکن اقتدار میں کئی دراڑیں بہرحال ڈال گئی۔ اب ایک بار پھر اس سے کہیں بڑی تحریک کے امکانات واضح ہو رہے ہیں۔ میرے خیال میں حالیہ دھماکہ اس بغاوت کو پیشگی کچلنے کی ہی ایک واردات قرار دی جا سکتی ہے۔اس سے قبل جولائی 2015ء میں شامی بارڈر کے نزدیک ترکی کے قصبے سروک میں، داعش سے برسر پیکار کردوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں بھی خود کش بم دھماکہ ہوا تھا‘ جس میں 30 سے زائد نوجوان جاں بحق ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اردوعان شام کے ساتھ ساتھ ترکی میں بھی اپنے مفادات کے تحت داعش سے قتل و غارت گری کروا رہے ہیں۔
گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں ترک عوام کے حالات تنگ ہی ہوئے ہیں اور ریاستی جبر (بالخصوص کردوں پر) ناقابل برداشت ہوتا چلا گیا ہے۔ ''انسانی حقوق‘‘ اور ''جمہوریت‘‘ کے ٹھیکیدار امریکی اور مغربی سامراجیوں کو نہ تو اردوعان کی بنیاد پرستی سے کوئی گلہ ہے اور نہ ہی عوام پر اس کے ظلم و جبر اور آزادی اظہار پر بدترین حملوں پر کوئی اعتراض ہے۔ اس دہشت گردی اور قتل و غارت کے بارے میں میڈیا جس چیز کو روپوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ وہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی مسلسل خود رو ایجی ٹیشن ہے‘ جو ترکی کے تمام بڑے شہروں میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ کل کے دھماکے کے بعد لاکھوں افراد آج پھر پورے ملک میں سراپا احتجاج ہیں۔ جس احتجاجی مظاہرے میں ریاست نے بالواسطہ طور پر یہ قتل عام کیا‘ اس کی کال کسی روایتی یا دائیں بازو کی پارٹی نے نہیں دی تھی۔ اسے منظم کرنے والوں میں ایچ ڈی پی کے علاوہ سرکاری شعبے کے ملازمین کی کنفیڈریشن (KESK)، انقلابی ٹریڈ یونین فیڈریشن آف ترکی (DISK)، ترکی میڈیکل ایسویسی ایشن (TTB) اور ترکی کے انجینئروں اور فن تعمیر کے ماہرین کی یونین (TMMOB) بھی شامل تھیں۔ ایچ ڈی پی کے مظاہرین کا پہلا جتھہ اس مقام پر پہنچا‘ جہاں سے مظاہرہ شروع ہونا تھا تو وہیں پہلا بڑا دھماکہ کیا گیا۔ 
ایچ ڈی پی ایک دلچسپ سیاسی مظہر ہے۔ یہ چند ماہ قبل ہی ابھرنے والی بائیں بازو کی پارٹی ہے‘ جس نے جولائی میں ہونے والے قومی انتخابات میں80 نشستیں جیت کر حکمران مذہبی جماعت (AKP) کو 2002ء کے بعد پہلی مرتبہ حکومت بنانے کی اکثریت سے محروم کر دیا اور گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل ریاستی جبر کا نشانہ بن رہی ہے۔AKP سمیت کوئی جماعت چونکہ حکومت بنانے کے قابل نہیں‘ لہٰذا دوبارہ الیکشن ہوں گے۔
ایچ ڈی پی نے ہولناک دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد بیان جاری کیا ہے کہ ''یہ بتانا ضروری ہے کہ جب یہ دھماکے ہوئے تو وہاں سکیورٹی اور پولیس کا نام ونشان نہیں تھا۔ مظاہروں کو کنٹرول کرنے والی پولیس 15 منٹ بعد پہنچی‘ لیکن جب یہ پولیس آئی تو انہوں نے مظاہرین پر تشدد شروع کر دیا۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے زخمیوں کو بچانے والوں کو شدید اذیت کا شکار کیا گیا۔ ایمبولینسوں کو بھیجنے سے پیشتر مسلح پولیس کی بکتربند گاڑیوں کو بھیجا گیا۔ اگر وہاں مظاہرین میں ڈاکٹر اور صحت کے شعبہ کے محنت کش نہ ہوتے تو اموات اور زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو جاتی‘‘۔ یاد رہے کہ دھماکوں کے بعد حسب روایت اردگان نے ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا پر واقعے کا بلیک آئوٹ کروانے کی کوشش کی اور ٹویٹر وغیرہ کے استعمال میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ہتھکنڈے ماضی میں استعمال کیے جاتے رہے۔ 
ایچ ڈی پی کے لیڈر سلاطین ڈیمرتاس نے اس دہشت گردی کا مجرم حکمران جماعت AKP کو ٹھہرایا ہے۔ اس کے بیان کے مطابق ''AKP کے ہاتھ بے گناہوں کے لہو میں رنگے ہوئے ہیں۔ اس ملک میں حکومت کے خلاف جو بھی بولے گا اس کو گولی مار دی جائے گی۔ اگر کوئی بچہ پتھر پھینکتا ہے تو اس کو بھی گولی سے جواب دیتے ہیں۔ یہ ریاست قاتلوں کا ایک جتھہ ہے۔ تمام آثار بتاتے ہیں کہ ریاست کو پہلے سے دہشت گرد حملے کا علم تھا‘‘۔
کردوں کے خلاف ترک ریاست کی ہولناک جارحیت کی لمبی تاریخ ہے۔ ہزاروںکرد اب تک ریاستی جبر میں مارے جا چکے ہیں۔ کردوں کی آزادی کی تنظیم ''کردستان ورکرز پارٹی‘‘(PKK) کی طرح اب ایچ ڈی پی کے بیشتر لیڈروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ترکی میں چند ہفتوں بعد یکم نومبرکو نئے انتخابات ہونے ہیں‘ جن میں ایچ ڈی پی کے مزید نشستیں جیتنے کا خطرہ AKP کو لاحق ہے۔ اردوعان اس حد تک ریاستی طاقت سے چمٹے رہنا چاہتا ہے کہ وہ ایک خونیں خانہ جنگی کو ہوا دے رہا ہے‘ لیکن اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اس سلسلے میں PKK کے ساتھ جنگ بندی کو ختم کرتے ہوئے ترک علاقوں میں فضائی بمباری کی جا رہی ہے۔ 10 اکتوبر کی یہ دہشت گردی بھی عین ممکن ہے کردوں کو اشتعال دلا کر دوبارہ مسلح جدوجہد کی طرف راغب کرنے کے لئے کروائی گئی ہو تاکہ ریاستی جبر کو جواز مل سکے۔ ایچ ڈی پی سے ترک ریاست کے خوف کی اہم وجہ یہی ہے کہ اس پارٹی کے ذریعے قومی تعصبات کو مسترد کرتے ہوئے کرد اور ترک نوجوان طبقاتی بنیادوں پر ایک بائیں بازو کے سیاسی پلیٹ فارم پر متحد ہو رہے ہیں۔
قدیم یونانی کہاوت ہے کہ ''دیوتا جسے برباد کرنا چاہتے ہے پہلے اسے پاگل کرتے ہیں‘‘۔ اردوعان کی ذہنی کیفیت بالکل ایسی ہی ہے۔ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں اس ہولناک دہشت گردی کے چند گھنٹے کے بعد ہی ایک لاکھ سے زیادہ افراد کا بھرپور حکومت دشمن مظاہرہ ہوا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ حکومت کی رعونت اور وحشت نہ صرف تحریک کو کچلنے میں ناکام ہو رہی ہے بلکہ اس کا الٹ اثر ہو رہا ہے۔ 2013ء کی بغاوت ایک بار پھر سر اٹھانے لگی ہے ۔ ایک بات طے ہے کہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں‘ لیکن اردوعان یا AKP حکومت کے چلے جانے سے سرمایہ دارانہ نظام کا جبر و استحصال ختم نہیں ہو گا۔ ٹریڈ یونین تنظیموں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو تمام قومی اور لسانی تعصبات کو مسترد کرتے ہوئے ماضی کی غلطیوں اور نظریاتی کمزوریوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ طبقاتی بنیادوں پر آگے بڑھتے ہوئے انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر متحرک ہو کر ہی ترکی کے محنت کش اور نوجوان سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کو شکست دے سکتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں