مہاجرین کا حالیہ بحران سرمایہ دارانہ سماج کی نہ ختم ہونے والی ذلت، عام محنت کشوں کی انسانی ہمدردی اور اس نظام کے حکمرانوں کی بے رحم ترجیحات کو خوب واضح کر رہا ہے۔ خانہ جنگی ، بھوک اور تباہی کی وحشتوں سے بھاگ کر سمندر یا لاریوں میں مرتے اور خاردار تاروں، پولیس، حراستی مراکز اور زبردستی بے دخلی کا سامنا کرتے ہوئے مردوں، عورتوں اور بچوں کی تصویروں نے کروڑوں لوگوں کو سکتے میں ڈال دیا ہے اور وہ ان حالات کی وجوہ اور ان کے حل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ مہاجرین ان ممالک کو ترک کر رہے ہیں جو خانہ جنگی کی زد میں ہیں۔ یونان اور پھر ہنگری جانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد شام، افغانستان اور کوسووا سے ہے۔ ان ممالک کے حالات کی ذمہ دار سامراجی جنگیں ہیں۔
شام میں خلیجی ریاستوں اور بڑی سامراجی طاقتوں مثلاً امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی مداخلت نے سماج کا تانا بانا ادھیڑ دیا ہے۔ داعش کا ابھار براہ راست عراق پر سامراجی حملے کا نتیجہ ہے۔ افغانستان میں جاری خانہ جنگی کی وجوہ بھی سامراجی ڈالر جہاد سے ہی وابستہ ہیں۔ کوسووا کی موجودہ حالت یوگوسلاویہ کی رجعتی تقسیم کا نتیجہ ہے جسے بیس سال پہلے جرمنی میں سامراجی مداخلت کے ذریعے انجام دیا گیا۔ ان حالات کی ذمہ داری براہ راست طور پر سامراج پر ہے جس نے لاکھوں لوگوںکو دربدر کردیا، لیکن اب وہ نتائج کو قبول کرنے سے کترا رہے ہیں۔ نام نہاد ''انسانی‘‘ بنیادوں پر لیبیا پر بمباری سے ملک میں ریاستی ڈھانچہ منہدم ہوا اور ملک کا بڑا حصہ مذہبی جنونیوں کے تسلط میں ہے۔ قذافی کی حکومت جابر تھی تاہم مارکسسٹ ہمیشہ وضاحت کرتے رہے کہ قذافی کو اکھاڑ پھینکنے کا فریضہ لیبیا کے محنت کشوں کا ہے۔ جہاں کہیں بھی اس طرح کی حکومتوں کو سامراجی مداخلت کے ذریعے ہٹایا گیا وہاں ''جدید جمہوری حکومتیں ‘‘ بننے کی بجائے بربریت نے جنم لیا۔
مہاجرین اور تارکین وطن میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ دونوں اپنے اپنے ملکوں میں سرمایہ داری کی نافذ کردہ وحشتوں سے بھاگ رہے ہیں۔ ہوسکتاہے ان میں سے کچھ صرف خانہ جنگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے جا رہے ہوں جبکہ باقی سامراجی استحصال کے نتیجے میں جنم لینے والی بھوک اور محرومی سے بھاگ رہے ہیں۔ یورپی یونین کا رد عمل پہلے اور آج بھی، مزید دیواریں کھڑی کرنا ہے۔ یورپی یونین نے پندرہ برس میں مہاجرین کو روکنے کے لیے 1.6اَرب یورو خرچ کیے ہیں۔ ان پرکشش ٹھیکوں کی اکثریت سے چار بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں (ا یئر بس، تھیلس، بی اے ای، فن میکانیا) نے فائدہ اٹھایا۔ یہ سب دنیا کی دس بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں سے ہیں۔ اسی عرصے میں یورپی یونین اور شنجن ممالک نے مرکزی طور پر مربوط بے دخلیوں پر گیارہ اَرب یورو خرچ کیے ۔ یہ سرمایہ دار دیوار برلن کو گرانے پر فخر کرتے ہیں جبکہ وہ خود سبتا اور میلیلا ، سربیا ، بلغاریہ اور اب ہنگری میں دیواریں کھڑی کرنے میں مصروف ہیں۔ غیر یورپی یونین ممالک میں حراستی مراکز پر بھی بڑی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔
یورپ سے باہر رکھنے کی اسی پالیسی کی وجہ سے لاکھوں تارکین وطن اور مہاجرین انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ رہے ہیں تاکہ غیر قانونی طریقے سے یورپ میں داخل ہوسکیں۔ یہ بہت پرکشش کاروبار ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق مہاجرین نے پچھلے پندرہ برسوں میں یورپ میں داخل ہونے کے لیے سالانہ ایک اَرب یورو ادا کیے۔ تیس ہزار لوگ مر گئے ۔ بحیرۂ روم میں صرف اس سال ڈھائی ہزار لوگ ڈوب گئے۔ یورپ جتنا اپنی سرحدوں کو مضبوط بنائے گا، راستے اتنے ہی خطرنا ک ہوتے جائیںگے۔ کارپوریٹ میڈیا انسانی سمگلروں کو کوستا ہے جیسے صرف وہی تمام تر مسائل کی جڑ ہیں۔ یہ لوگ یقیناً بے رحم جرائم پیشہ لوگ ہیں جن کے سامنے انسانی زندگی کی کوئی وقعت نہیں،لیکن انسانی سمگلر مہاجرین پیدا نہیں کرتے۔ یہ تلخ حالات ہیں جو اپنا گھر بار چھوڑ کر، زندگی دائو پر لگا کر مغربی ممالک میں پناہ لینے پر لاکھوں انسانوںکو مجبورکرتے ہیں اور یہ حالات انسانی سمگلروں نے نہیں بلکہ ''جمہوریت‘‘ اور ''انسانی حقوق‘‘ کے ٹھیکیدار سامراج حکمرانوں نے پیدا کیے ہیں۔
تارکین وطن سرمایہ داروں اور سامراجی حکمرانوں کے لیے بہت کارآمد ہوتے ہیں۔ ایک طرف سے یہ نہایت ہنر مند مگر سستی لیبر فراہم کرتے ہیں جس سے حکمران طبقہ عمومی اجرتوںکو نچلی سطح پر لانے کے لیے استعمال کرتا ہے، ساتھ ہی اس سے حکمران طبقے کے ہاتھ میں قربانی کا بکرا بھی آجاتا ہے جسے وہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں تمام معاشی گراوٹ اور سماجی مسائل کی وجہ قرار دے کر ایک طرف نسلی تعصبات کو ابھارتے ہیں تو دوسری طرف عوامی سہولتوں میں کٹوتیوں کی راہ ہموارکرتے ہیں۔
دراصل مہاجرین کا موجودہ بحران یورپی یونین میں پناہ لینے والوں کی تعداد سے متعلق نہیں ہے۔ جرمنی کو سب سے زیادہ پناہ کی درخواستیں موصول ہوئی ہیںاور یہ تعداد 1990ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ کی تقسیم کے وقت کی تعداد سے کم ہے۔ یہ بحران یورپی یونین کے مختلف ''شراکت داروں‘‘ کے درمیان جھگڑے سے شروع ہوا کہ سیاسی اور معاشی طور پر بِل کون بھرے گا۔ یہ یورپی یونین کے بحران میں ایک اور کڑی ہے۔
یونان اور اٹلی، سمندر کو عبورکرنے کے بعد تارکین وطن اور مہاجرین کا پہلا ٹھکانہ ہیں۔ یورپی یونین کے دوسرے ممالک یہاں تک خوش ہیں۔ موجودہ ''بحران‘‘ اس وقت شروع ہوا جب تارکین وطن منظم ہوئے اور زبر دستی سرحد عبور کرکے مقدونیہ، سربیا اور ہنگری میں داخل ہوئے، جہاں سے انہوں نے جرمنی اور سویڈن جانے کی کوشش کی۔ یہ دو ممالک پناہ کی سب سے زیادہ درخواستیں وصول کر رہے ہیں۔
یورپ میں دائیں بازوکی حکومتوںکو ہر جگہ دائیں بازوکی تنظیموںکے دبائوکا سامنا ہے جو سخت نسل پرست ، تارکین وطن مخالف اور قوم پرست نظریات رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں 12ستمبرکو ہونے والے مظاہرے میں تقریباً ایک لاکھ لوگوں نے شرکت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پورے ملک میں اسی طرح کے مظاہرے کیے جا رہے ہیں، صرف چند دنوں میں برطانیہ سے زیادہ مہاجرین لینے کے مطالبے کے سرکاری پیٹیشن نے چار لاکھ دستخط اکٹھے کیے ہیں۔
پور ے یورپ میں مہاجرین کی طرف عام محنت کشوں کی یکجہتی ان تمام منافقوں اور دائیں بازو کے نظریہ دانوںکو جواب ہے جو محنت کش طبقے کو لالچی اور حریص تصور کرتے ہیں۔ محنت کش بے وقوف نہیں ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ اس انسانی المیے کا ذمہ دارکون ہے۔ ان کو یہ بھی علم ہے کہ کس پر انگلی اٹھانی چاہیے۔ وہ ایک نظام کے واضح تضادات کو دیکھ سکتے ہیں جس کے پاس عراق میں فوجی مداخلت اور شام پر بمباری کے لیے اربوں ڈالر موجود ہیں، لیکن وہ بہانہ پیش کر تے ہیں کہ ان جنگوں کی وجہ سے دربدر ہونے والے لوگوں کی مدد کے لیے ان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔
آخری تجزیے میں سماج میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ جنگ، محرومی ، بھوک اور استحصال سے بھاگنے والوں کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ جدید ترین اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پورے یورپ میںگیارہ ملین گھر خالی پڑے ہیں۔ یہ یورپ کے غریب اور بے گھر افراد اور مہاجرین کے لیے قابل دسترس سستے گھر فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ سوال ''مقامی یا مہاجرین ‘‘ کے لیے گھرکا نہیں ہے۔
مغربی ممالک میں مسلسل گرتے ہوئے معیار زندگی، بیروزگاری اور عوامی سہولیات میں مسلسل کٹوتیوں کی وجہ تارکین وطن نہیں بلکہ یہ نظام زر ہے جس میں تمام دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں تمام انسانوں کی ضروریات بطریق احسن پوری کرنے کے لیے وافر وسائل اور پیداواری قوت موجود ہے جسے نجی ملکیت اور منافع کے اس نظام نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا بحران بہت سی مقامی جنگوں اور خانہ جنگیوں کی وجہ ہے۔ چند مہا امیروں کے لیے جنگ وحشت ناک حد تک منافع بخش ہے۔ عوام کے لیے یہ بھیانک تباہی لاتی ہے۔ جب تک سرمایہ داری ہے اس وقت تک اس بربادی کا کوئی انت نہیں۔ عالمی سطح پر تمام ممالک کے محنت کشوں کی سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کی عالمی جد وجہد اور عالمی سوشلزم کے لیے یہ ایک طاقتور دلیل ہے۔