"DLK" (space) message & send to 7575

باڈی لینگویج

پیرس میں 'ماحولیاتی آلودگی‘ پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں بہت سے سربراہان مملکت نے شرکت کی۔ کثافت اور آلودگی منافع کی ہوس پر مبنی سرمایہ داری کی پیداوار ہے اور یہ مسئلہ اس نظام میں حل ہونے والا نہیں۔ آج آلودگی سے پاک توانائی کی تمام تر ٹیکنالوجی اور ذرائع موجود ہیں لیکن مسئلہ تیل اور دوسرے فاسل فیولز سے وابستہ دیوہیکل ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کا ہے جو اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ 
کانفرنس کے موضوع اور اغراض و مقاصد سے قطع نظر، کارپوریٹ میڈیا کی زیادہ تر توجہ اس کانفرنس میں شریک حکمرانوں کی حرکات و سکنات پر مرکوز رہی۔ جب کسی مسئلے کا حل ہی موجود نہ ہو تو پھر اسی قسم کی کوریج پر عوام کا گزارا کرانا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں ایک روایتی لطیفہ بہت مشہور ہے۔ جنگل میں مویشی چرانے والے چرواہے کو ضروری کام سے قریبی گائوں جانا پڑ گیا۔ مشکل یہ آن پڑی کہ وہ اپنے مویشی کس کے حوالے کرتا؟ مجبوراً ایک گلہری سے درخواست کی کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے دھیان رکھے۔ گلہری نے ہامی بھر لی۔ وہ کچھ دیر بعد واپس جنگل آیا تو ریوڑ کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا۔ گلہری کبھی درخت کے اوپر چڑھتی کبھی نیچے اترتی۔ چرواہے نے مویشیوں بارے دریافت کیا تو گلہری کھسیانی ہو کے بولی: ''مویشیوں کو چھوڑو، بس میری آنیاں جانیاں دیکھو!‘‘ آج اس فرسودہ نظام کے نمائندہ حکمرانوں کا حال بھی اس گلہری والا ہی ہے۔ انسانوں کی وسیع اکثریت بھوک، بیماری، بے روزگاری اور جنگوں سے تباہ ہو رہی ہے، پورا کرۂ ارضی آلودگی سے برباد ہو رہا ہے اور یہ عوام کو اپنی آنیوں جانیوں پر رجھانے کی کوشش میں ہیں۔ 
ایسی کانفرنسوں میں حکمرانوں کی بدن بولی یعنی باڈی لینگویج پر میڈیا کا بڑا فوکس ہوتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اب تفریح اور خبروں میں فرق مٹتا جا رہا ہے۔ جب سیاست حقیقی ایشوز سے عاری ہو جائے اور کسی انقلابی تحریک کی عدم موجودگی میں سماج جمود کا شکار ہو تو حکمرانوں کی شادیاں اور طلاقیں، جنسی سکینڈل، گالی گلوچ اور رنگ برنگ کے ناٹک ہی موضوعات بن جاتے ہیں۔ ان کی ملاقاتوں اور معاشقوں پر نیوز چینل گیت فلماتے ہیں اور المیے ''انٹرٹینمنٹ‘‘ بنا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ اگر حکمرانوں کے مظالم بھیانک اور سماج کی حالت نازک نہ ہو تو واقعی یہ حکمران کسی فلاپ فلم کے گھٹیا مسخرے ہی لگیں‘ لیکن ان کا نظام جس طرح انسانیت کو گھائل کر رہا ہے ایسے میں کسی باشعور انسان کو ان کی حرکتوں سے کراہت ہی آ سکتی ہے۔ 
پیرس کی اس کانفرنس میں دو ملاقاتیں خصوصی اہمیت کی حامل تھیں‘ جہاں 'باڈی لینگویج‘ واقعی بہت کچھ بے نقاب کر رہی تھی۔ تعلقات کی نوعیت اور مشکلات خوب عیاں تھیں۔ پہلی ملاقات اوباما اور پیوٹن کی تھی۔ یہ آمنا سامنا بہت کچھ بتا گیا۔ کانفرنس میں اوباما اور پیوٹن کی ساتھ رکھی کرسیوں پر بیٹھنے کے کچھ لمحات کے بعد پیوٹن نے اوباما کی طرف دیکھا، اوباما نے فوراً اپنا انگوٹھا کھڑا کر کے خوش آمدید کا اظہار کیا۔ پیوٹن نے ہلکی سے 'سمائل‘ دی تو اوباما فوراً اپنی کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب لے آیا‘ اور تابعداری کے انداز میں گفتگو کرنے لگا۔ اوباما کی یہ حرکت بنیادی طور پر ترکی کی جانب سے روسی طیارہ مار گرانے پر 'نیٹو‘ کی معذرت کا اظہار تھا (ترکی نیٹو کا ممبر ہے)۔ پیوٹن کے سامنے اوباما کی یہ عاجزی واضح کر رہی تھی کہ شام میں امریکی سامراج اپنی فیصلہ کن مداخلت کی سکت کھو چکا ہے۔ روس کی شام میں براہ راست عسکری مداخلت کے خلاف مغربی میڈیا کے تمام تر پروپیگنڈا کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ شام کے پیچیدہ حالات کو سنبھالنے کے لئے مغربی سامراجیوں کے پاس آخری سہارا روس ہی رہ گیا ہے۔ اس ملاقات میں پیوٹن کی بے نیازی اور نیم بے رخی بتاتی ہے کہ وہ امریکیوں کی بے بسی سے خوب واقف ہے اور اپنی دھونس بڑھا رہا ہے۔ 
دوسری اہم ملاقات، جس کا چرچا بالخصوص جنوبی ایشیا کے میڈیا پر خوب ہوا، وزیر اعظم نواز شریف اور نریندر مودی کے درمیان تھی۔ مودی نے خاصی گرم جوشی دکھائی‘ لیکن میاں صاحب اس معاملے میں قدرے اجتناب برت کر بھارتی ریاست کے تضحیک آمیز رویے کا گلہ کر رہے تھے؛ تاہم ان کے چہرے کی سنجیدگی میں بھی عیاں تھا کہ دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں۔ آخر دنیا کی ''سب سے بڑ ی جمہوریت‘‘ کا سخت گیر سربراہ خود چل کر ان کے پاس آیا تھا، ایسے میں سنجیدگی کا نقاب اوڑھ کر میاں صاحب ''شیر‘‘ ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ چند منٹ کی اس ملاقات میں بھلا کیا طے پانا تھا، بہرحال حکومت اور میاں صاحب کی میڈیا ٹیم نے اسے سفارت کاری کی کامیابی بنا کر پیش کرنے کی خوب کوشش کی۔ 
میاں صاحب نے اس ملاقات کے دوران اور بعد میں جس طرح اپنی خوشی کو چھپایا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جس غیر معمولی احتیاط سے الفاظ کا چنائو کیا ، وہ ''کسی اور‘‘ قوت سے ان کے خوف کا غماز تھا۔ ایسے میں نظر آیا کہ میاں صاحب کا اقتدار کس کا مرہون منت ہے۔ بھاری اکثریت سے برسر اقتدار آنے کے ابتدائی کچھ دنوں میں میاں صاحب نے اپنے کاروباری مفادات کے تحت دورہ دہلی کے دوران کچھ زیادہ ہی گرم جوشی دکھا دی تھی جس کا خمیازہ انہیں جلد ہی بھگتنا پڑ گیا۔ جب اقتدار ہچکولے کھانے لگا تو میاں صاحب بھی توبہ تائب ہو گئے اور اب بھارت کے معاملے میں خصوصاً پھونک پھونک کے قدم رکھتے ہیں۔ بھاری مینڈیٹ والا مودی بھی اپنے کارپوریٹ آقائوں کے آگے خاصا بے بس ہے۔ بھارتی ریاست اور سیاست کے کئی دھڑے اسے بھی میاں صاحب کی طرح ہی پریشان رکھتے ہیں۔ 
ایسی سرسری ملاقاتوں اور مذاکرات کے تسلسل میں، پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کے درمیان بلی چوہے کا یہ کھیل گزشتہ 68 برسوں سے چل رہا ہے، گاہے گاہے دوستی اور امن و آشتی کے گیت گائے جاتے ہیں، تحائف کے تبادلے ہوتے ہیں، کرکٹ ڈپلومیسی ہوتی ہے اور ''خفیہ مذاکرات‘‘ کی بھی اتنی تشہیر ہوتی ہے کہ اتنی کوریج علانیہ بات چیت کو نہیں ملتی۔ لیکن ابھی مذاکرات کا ایک سلسلہ بھی مکمل نہیں ہوتا کہ کوئی واقعہ یا سرحدی جھڑپ اس پورے عمل کو الٹ دیتی ہے۔ پھر یہی حکمران ایک دوسرے کے خلاف آگ اگلتے ہیں، سماج میں دشمنی اور نفرت کا زہر انڈیل دیا جاتا ہے، عوام میں قومی شائونزم اور مذہبی منافرت ابھارنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ کبھی 'لبرل‘ حکمرانوں کے برسر اقتدار آنے سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں تو کبھی یہ کہا جاتا ہے دونوں ممالک میں سخت گیر دائیں بازو کی حکومتیں ہی تلخ تنازعات اور مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ ان دونوں باہم مخالف ملکوںکے حکمرانوں کی اتنی مفاداتی سانجھ ہے کہ دشمنی کے ناٹک بھی دونوں اطراف سیاسی طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ 
محبت اور نفرت کے یہ تماشے میڈیا پر چلتے رہتے ہیں لیکن حکمرانوں کی دوستی اور دشمنی کی یہ باڈی لینگویج برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو کوئی آسودگی دینے سے قاصر ہے۔ ایسی وارداتیں اس استحصالی نظام کے تحفظ اور بقا کے لئے ہی کی جاتی ہیں۔ دونوں ممالک میں غربت اور محرومی اتنی اذیت ناک ہو چکی ہے کہ سرحد کے دونوں طرف انقلابی بغاوت کا خطرہ اب ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے۔ اس کو دبانے اور حقیقی ایشوز کو نان ایشوز تلے دبانے کے لئے امن، جنگی جنون، تنائو اور مذاکرات کا یہ گھن چکر حکمرانوں کی مستقل پالیسی بن چکا ہے۔ یہ امن قائم کر سکتے ہیں نہ کھلی جنگ لڑ سکتے ہیں‘ لیکن یہ کھلواڑ بھی ہمیشہ جاری رہ سکتا ہے نہ خلق کی آواز صدا دبائی جا سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب کے طوفان سرحدوں کو خاطر میں نہیں لاتے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں