"DLK" (space) message & send to 7575

کوریڈور

گزشتہ تقریباً سات دہائیوں کے دوران پاکستان میں ہونے والی تضادات سے بھرپور سماجی و معاشی ترقی کے اثرات عام لوگوں کے لیے منفی ہی رہے ہیں۔2008ء کے عالمی مالیاتی انہدام سے جنم لینے والا عالمگیر معاشی بحران 'جزوی بحالی‘ کے بعد اب ایک نئے معاشی زوال میں تبدیل ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایما پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یکم دسمبر کا منی بجٹ، افراطِ زر کی شرح میں اضافے اور پہلے سے مفلوک الحال عوام کے لیے مزید مہنگائی اور معاشی مشکلات میں اضافے کا پروانہ ہے۔درآمدات پر ٹیکسوں میں چالیس ارب اضافے سے ہر چیز کی قیمت چڑھ جائے گی، لیکن حکمران ٹولے کو عوام کی تکالیف کی پریشانی تو کیا، احساس تک نہیں ہے۔
تجارتی خسارہ پہلے ہی 24 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے اوراس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ بیرونی قرضہ نئی انتہائوں کو چھو رہا ہے اور اس پر غیر معمولی شرائط اور شرح سود لاگو ہے۔ برس ہا برس سے برآمدات میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور صنعتی پیداوار کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ روز مرہ گھریلو استعمال کی اشیا بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ سامراجی غلبے میں اضافے کے ساتھ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی مالیاتی اداروں کا شکنجہ سخت ہوتا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کو انتہائی ظالمانہ حالات کا نشانہ بنانے کے باوجود حکمران اشرافیہ بیرونی سرمایہ کاری حاصل نہیں کر پائی جو گزشتہ ایک سال کے دوران نصف ہو گئی ہے۔ معیشت کی خستہ حالی کے باوجود حکمران اشرافیہ ''ترقی‘‘ کے دعوے کرنے میں مشغول ہے اور سامراجی ریٹنگ ادارے بھی سرمایہ داری کا جبر قائم رکھنے کے لیے عوام پر کیے جانے والے مظالم کو خوب سراہ رہے ہیں۔
چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور میں چینی سرمایہ کاری سے بہت امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔ سطحی طور پر دیکھا جائے تو اس سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ منصوبہ سازوں کے مطابق یہ ایک میگا پروجیکٹ ہے جو پاکستان کے جنوب مغرب میں گوادر کی بندرگاہ کو شاہراہوں اور ریل کے نیٹ ورک کے ذریعے شمالی پاکستان سے جڑے چین کے خودمختار علاقے سنکیانگ سے ملا دے گا اور پائپ لائنوں کے ذریعے تیل اور گیس کی ترسیل ہو گی۔ یہ معاشی کوریڈور گوادر سے کاشغر تک 3000کلو میٹر پر محیط ہو گا۔ تعمیرات کے اخراجات کا کل تخمینہ 46 ارب ڈالر ہے۔ تکمیل میں کئی برس لگیں گے۔ یہ چین کے مجوزہ 'اکیسویں صدی کی شاہراہِ ریشم‘ کے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ ٹرانسپورٹ انفرا سٹرکچر کے علاوہ اس منصوبے سے پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن اور توانائی کا انفرا سٹرکچر بھی تعمیر ہوگا۔ اس پروجیکٹ کا ایک مقصد دونوں ممالک کے درمیان ''انٹیلی جنس کا تبادلہ‘‘ بھی ہے۔ پاکستانی میڈیا اور حکومت کے مطابق یہ سرمایہ کاری خطے کی ''قسمت بدل دے گی‘‘۔ گارڈین اخبار لکھتا ہے کہ ''چینی نہ صرف پاکستان کے لیے اشد ضروری انفرا سٹرکچر بنانے کی پیشکش کر رہے ہیں بلکہ وہ پاکستان کو اپنے وسیع تر معاشی اور سٹریٹیجک عزائم میں اہم پارٹنر بنانا چاہتے ہیں۔ اس پروجیکٹ سے مغربی چین کے لیے تجارتی راستے کھلیں گے اور چین وسائل سے مالامال مشرقِ وسطیٰ کے خطے تک آبنائے ملاکا کے موجودہ طویل راستے کی بجائے بحیرہ عرب کے راستے سے رسائی حاصل کر پائے گا‘‘۔
اس پروجیکٹ کی تجویز 22 مئی 2013ء کو چینی وزیرِ اعظم لی کو چیانگ اور وزیر اعظم نواز شریف کے مابین اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں پیش کی گئی تھی اور 27 اگست 2013ء کو اسلام آباد میں پاک چین اکنامک کوریڈور سیکرٹریٹ کھولا گیا۔2014ء میں چینی حکومت نے اگلے چھ برسوں میںاس پروجیکٹ پر 45.6 ارب ڈالر خرچ کرنے کا وعدہ کیا جس میں چین کو مشرقِ وسطیٰ سے ملانے والی شاہراہوں، ریلوے ، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر شامل ہے۔گوادر میں چین کی حصہ داری سے بحرِ ہند میں اس کے اثر و روسوخ میں اضافہ ہو گا، جو بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کے درمیان تیل کی ترسیل کا ایک اہم راستہ ہے۔ اس کے علاوہ چین آبنائے ملاکا سے گزرنے سے بھی بچ جائے گا۔ اس وقت چین کی تیل کی درآمدات کا 60 فیصد مشرق وسطیٰ سے آتا ہے، جس کا 80 فیصد آبنائے ملاکا سے گزر کر چین پہنچتا ہے، جو قزاقوں سے بھرا خطرناک سمندری راستہ ہے۔
ان حقائق سے واضح ہے کہ چینی اشرافیہ نے اپنی جغرافیائی سیاست اور سٹریٹیجک مفادات کے لیے یہ پروجیکٹ تشکیل دیا 
ہے۔اس کے علاوہ یہ چینی حکمران اشرافیہ کی کینشیئن ازم (Keynesianism) معاشی پالیسیوںکا حصہ ہے جن کے تحت وہ چینی معیشت اور صنعتی پیداوار میں پھر سے جان ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں جو 2008ء کے بعد یورپ اور امریکہ میں سست روی کا شکار ہے۔ ان دیو ہیکل منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے ریاستی قرضے استعمال کیے جا رہے ہیں جو پہلے ہی چین کے جی ڈی پی کے250 فیصد تک پہنچ گئے ہیں، یعنی یونان کے مقابلے میں بھی تین گنا زیادہ۔ 2007ء میں 14.2 فیصد کی معاشی شرح نمو گرکر 6.8 فیصد تک آ پہنچی ہے،لہٰذا چینی اپنی صنعتی پیداوار بحال کرنے کے لیے بے چین ہیں۔چین کی اس 'پیشکش‘ کا ایک اور اہم پہلوچین اور بیرونِ ملک میگا پروجیکٹس کے ذریعے چینی سرمایہ داروں کی گرتی ہوئی شرح منافع کو سہارا دینا بھی ہے۔
اس طرح کی بیرونی سرمایہ کاری اور منصوبوں کا مقصد آخری تجزیے میں شرح منافع میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ پاکستانی حکمران طبقے اور ریاستی افسر شاہی کا تاریخی کردار روز اول سے ہی سامراجی لوٹ مار میں کمیشن ایجنٹ کا رہا ہے۔ رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق ''نومبر 2014ء میںچینی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ چینی کمپنیوں کو پاکستان میں 45.6 ارب ڈالر کے توانائی اور انفراسٹرکچر پروجیکٹس کے لیے سرمایہ فراہم کرے گی جو سی پی ای سی کا حصہ ہے‘‘۔ رائٹرز کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق چین نے توانائی میں 33.8 ارب اور انفرا سٹرکچر میں 11.8ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے جو زیادہ سے زیادہ2017ء تک مکمل ہو جائے گی۔ اس ڈیل میں گوادر بندرگاہ کے لیے622 ملین ڈالر مختص ہیں۔ سی پی ای سی معاہدے کے مطابق 15.5 ارب ڈالر کے کوئلے، ہوا، شمسی توانائی اور پانی سے بجلی بنانے کے منصوبوں سے پاکستان کی نیشنل گرڈ میں10,400 میگاواٹ کا اضافہ ہو گا، لیکن ایک بنیادی نکتہ جس پر کارپوریٹ میڈیا میں کوئی بات کرنے کو تیار نظر نہیں آتا، یہ ہے کہ تمام سرمایہ کاری قرضوں کی صورت میں ہوگی جو پاکستان کو مع سود لوٹانا ہوں گے۔ اس سود کی شرح کو شفاف طور پر سامنے نہیں لایا گیا لیکن یہ یقیناً بھاری ہوگی اور ادائیگی کے لیے مزید بالواسطہ(انڈائریکٹ) ٹیکس لگائے جائیں گے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔ جہاں تک روزگار کا سوال ہے تو زیادہ تر انجینئر، ٹیکنیشن اور زیادہ تنخواہ والی نوکریاں بھی چینیوں کو ہی ملیں گی بلکہ آج کل تو چینی کمپنیاں سستی لیبر بھی چین سے ہی ساتھ لے کر آتی ہیں۔
پاکستان کا میڈیا، سرکاری دانشور اور سیاسی اشرافیہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس پروجیکٹ کوایک معجزہ قرار دے رہی ہیں جو پاکستان کی تقدیر بدل دے گا۔ انہیں عوام کا کیا خیال؟ وہ ان پروجیکٹس میں چینی سرمایہ داروں سے ذیلی ٹھیکے حاصل کر کے اپنی لوٹ مارکے لیے بے تاب ہیں، اسی لیے ریاست اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑے اسے اپنے زیر اثر علاقوں سے گزارنا چاہتے ہیں اور اس پر اختلافات بھی ہو رہے ہیں۔ زیادہ تر ٹھیکے ریاست کے طاقتوراداروں کو ہی ملیں گے اور مل رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں