"DLK" (space) message & send to 7575

شام: داعش کی پسپائی کا تناظر!

27 مارچ کو شام کے قدیم شہر پلمیرا سے داعش کی قوتوں کا انخلا اور پسپائی اس جنگ میں اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ قدیم روم اور بازنطین سلطنتوں کی تہذیبوں کا گہوارہ جس میں ہزاروں سال قبل کے نوادرات اور آثار قدیمہ ہیں ۔مئی 2015ء میں اس پر داعش کے قبضے سے اس شہر کی تاریخی اہمیت کے حوالے سے بہت دور تک اس خبر کی تشویش گئی تھی ۔ خصوصاً فن تعمیر اور تاریخ سے تعلق رکھنے والے ماہرین، طالب علم اور ثقافتی امور سے وابستہ افراد شدید پریشانی کا شکار بھی تھے۔ کسی بھی تہذیب کی ثقافت کی سب سے ٹھوس اور واضح شناخت اس کے فن َتعمیر کی طرز سے پرکھی جاسکتی ہے۔ مثلاً5سے 7ہزار سال قدیم موہنجو داڑو،ہڑپہ اور وادی سندھ کی تہذیبوں کے سماجی کردار اور ان کے باسیوں کے رہن سہن کے انداز انہی آثار قدیمہ سے ملتے ہیں۔
وادی سندھ کی تہذیبوں کے بیشتر آثار اپنے فن تعمیر سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں کا معاشرتی نظام ایک اشتراکی نوعیت کا تھا اوراس کے فن ِ تعمیر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کی ضروریات کے حصول اور رہن سہن میں ایک جانب کس قدر اجتماعیت تھی اور دوسری جانب یہ انتہائی مساوات پر مبنی معاشرے تھے ۔ اسی طرح روم اور بازنطین کی تہذیبوں میں جو طبقاتی نظام جنم لے چکا تھا اور جو غلامی کے آثار پائے جاتے تھے ‘پلمیرا کے آثار ا س کی گواہی دیتے ہیں ۔ لیکن اس عہد میں فن تعمیر اور سنگ تراشی کا فن کس حد تک ترقی کرچکا تھا یہ آثار اس کی غمازی بھی کرتے ہیں۔ داعش نے پلمیراپر قبضہ کرکے بل اور بالشمین کے مزاروں کو تو برباد کردیا تھا لیکن چونکہ داعش میں ترقی یافتہ ممالک کے پڑھے لکھے نوجوان بھی شامل ہیں انہوں نے بیشتر نوادرات اس شعبے کی کالی منڈی میں بھاری رقوم پر فروخت بھی کیے تھے ۔ یہاں داعش اور طالبان میں فر ق واضح ہوتا ہے۔ افغانستان کے طالبان نے جہاں بدھا کے بمیان میں دیوہیکل مورتیاں بارود سے اڑا کر تباہ کیں تھیں‘ داعش کے بعض ماہرین نے اس درندگی کے ساتھ ساتھ ان نوادرات کے سودے بھی کیے ۔ بہرحال جہاں بھی رجعتیت کی وحشت حاوی ہوئی وہاں ہر فن اور تاریخی ورثے کی بربادی ظاہر کرتی ہے کہ رجعتیت کے ثقافتی معیار کس حد تک بھیانک ہوتے ہیں۔ جب''اچانک‘‘ داعش شام ا ور عراق میں جون2014ء کے دوران ایک جنگجو طاقت کے طور پر ابھری اور اس نے بڑے پیمانے پر ان ممالک کے وسیع علاقوں پر قبضے کیے تو اس کرہ ارض کا عام انسان چونک کر رہ گیا ۔ اس اندھیری طاقت کے ابھار سے ایک خدشہ اور تضحیک عمومی طور پر محسوس کی جارہی تھی ۔وہ سامراجی جنہوں نے بالواسطہ یا براہِ راست اس وحشت کی قوت کو بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا وہ بھی ظاہری طور پر ''تشویش‘‘ کا اظہار کرتے نظر آئے۔ کارپوریٹ میڈیا نے اس قوت کے پورے خطے اور اس سے کہیں دور تک چھاجانے کا خوف بھی خوب پھیلایا لیکن اس کے بعد کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس کی پیش قدمی لڑکھڑا نے لگی تھی۔ 2014ء میں داعش نے موصل پر قبضہ کرتے ہوئے بغداد کی جانب یلغار کردی تھی لیکن 2015ء میں اس کو شہرتکریت میں شکست کھا کر یہاں سے نکلنا پڑا تھا۔ لیکن اس کے بعد پھر اس کے جنگجوئوں نے عراق میں رمادی اور شام میں پلمیرا پر قبضہ کرکے پھر سے اپنی دہشت کی دھاک بٹھائی تھی ۔ لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ اس کی بڑی پسپائی کا آغاز شروع ہوگیا ہے۔ روسی بمباری سے نہ صرف اس پر کاری ضربیں لگائی گئی ہیں بلکہ شامی فوجوں کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہیں ۔ گو داعش کا یہ قول کہ وہ '' وہیں رہیں گے اور پھیلیں گے‘‘ اب دونوں ممالک میں پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ یہ ''خلافت‘‘ اب شام میں20فیصد اور عراق میں40 فیصد قبضہ کی ہوئی سرزمین ہار چکی ہے۔ پلمیرا کے بعد اس کی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ہوئی ۔پلمیرا کو بھی وہ ثانوی طور پر تباہ کرسکی ہے اور اب بھی وہاں سلطنت ِروم کے دور کا ''ایمی تھیٹر‘‘ یا سٹیڈیم قائم ہے۔ یہی وہ تھیٹر تھا جس کے میدان میںداعش کے جلادوں نے شام کے شعبہ علوم آثار قدیمہ کے سربراہ کا سرقلم کردیا تھا۔لیکن پلمیرا پر شامی فوج کے دوبارہ قبضے کے بعد شام کے بحران میں گھرے ہوئے صدر بشار الاسد کو دوبارہ ایک اعتماد حاصل ہوا ہے۔ وہ دنیا کو اب یہ باور کرواسکتا ہے کہ وہ داعش اور دوسرے مذہبی جنونیت کی وحشت سے اصل لڑائی لڑ رہا ہے۔ حیرانگی اس بات پر ہے کہ داعش کے ابھار پر اتنی تشویش کرنے والے امریکی، یورپین اور دوسرے حکمرانوں کے جیسے منہ بند ہوگئے ہوں۔ انہوں نے اس کی پسپائی پر کوئی بیان یا اس کے بارے میں کسی کامیابی کا اظہار نہیں کیا۔ یہ خاموشی بہت معنی خیز بھی ہے اور تجزیہ طلب بھی ہے۔ اسد نے اب مزید علاقوں کو واپس لے کر جہاں دمشق کو زیادہ محفوظ بنا لیا ہے۔ وہاں اس نے اب داعش کے دارالخلافہ رفعا کی جانب پیش قدمی شروع کردی ہے۔ پہلے ہی رفعا اور موصل کے درمیان رابطے اور راستے کاٹ دیئے گئے ہیں۔ جس سے تیل کی سپلائی بند ہوگئی ہے۔ روسیوں کی فضا ئی بمباری سے داعش کے قبضے میں بہت سے تیل کے کنوئیں اور آئل ریفائنریاں بھی تباہ ہوگئی ہیں۔ اس سے داعش کی آمدن اور دولت کے ذخیرہ میں تیزی سے کمی بھی واقعہ ہوئی ہے اور اس کا اقتصادی بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔ مقامی جنگجوئوں اور داعش کے لیے یورپ اور دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لڑاکا نوجوانوں کے درمیان تنائو بھی بڑھ گیا ہے۔اس سے کئی داخلی تصادم بھی ہوچکے ہیں۔ ان بھڑکتے ہوئے تضادات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان جنگجوئوں کو دی جانے والی اُجرتوں میں شدید کٹوتیاں کی گئی ہیں اورچونکہ بیرونِ ملک سے آئے ہوئے جنگجوئوں کی تنخواہیں تقریباً دگنی تھیں اس لیے یہ عنصر بھی اس تنائو میں اضافے کی فیصلہ کن وجہ بنا ہے۔ اب بیشتر نئے بھرتی کیے جانے والے رنگروٹوں کو لیبیا بھیجا جارہا ہے جہاں خفیہ آمدن اور مال داعش کے کنٹرول میں ابھی تک زیادہ ہے۔ اس کو کسی بڑی شکست اور پسپائی کا سامنا نہیں کرنا پڑاکہ لیبیا کی ریاست ٹوٹ کر بکھر چکی ہے۔ لیکن داعش کو اگر مکمل طور پر شکست دے کر شام اور عراق میں ختم بھی کردیا جاتا ہے تو پھر بھی یہاں فوری امن وآتشی کا قیام ممکن نہیں ہوگا۔کیونکہ داعش کے علاوہ دوسرے گروپوں میں بھی فرقہ واریت کی آگ اتنی بھڑکائی جاچکی ہے کہ وہ ان مسلکوں کے تضادات میںمتصاد م ہی رہیں گے ۔ شام میں اب تک اس خانہ جنگی میں250,000 سے زائد انسانی جانوں کا زیاں ہوچکا ہے۔ اس کے ذمہ دار جہاں سامراجی جارحیت کے مظالم اور تاراجی ہے وہاں مقامی سامراجی طاقتوں ترکی، ایران اور عرب بادشاہتیں بھی ہیں۔ ان فرقوں کی لڑائی کے پیچھے بھی دراصل ہاتھ مختلف ریاستی اورغیر ریاستی مالیاتی مفادات کے جغادریوں کا ہے۔ لیکن اگر اس خطے میںداعش کا خاتمہ بھی ہوجائے تو اس کی دوسرے خطوں میں کارروائیاں جاری رہیں گی۔ برسلز میں داعش کی حالیہ دہشت گردی کی کارروائی اس کی غمازی کرتی ہے۔ جب تک اس مذہبی، قومی، فرقہ وارانہ اور نسلی بنیاد پرستی اور تعصبات کی سماجی، ثقافتی اور اقتصادی وجوہ ختم نہیں ہوتیں‘دہشت گردی جاری رہے گی ۔ ایک ایسا نظام جو تاریخی طور پر متروک ہوگیا ہو اور معاشی طور پر عام انسانوں پر مسلسل اقتصادی حملے کیے جارہا ہو‘ وہ استحکام اور امن استوار نہیں کروا سکتا۔ اس کے بحران سے جو ہر طرف مختلف طرح کے تعصبات ‘ بیگانگی کی ذلت اور غربت وافلاس کی اذیت کو جنم دے رہا ہو‘ خاتمے کے بغیر امن او رآتشی قائم کرنے کے دعوے محض دھوکہ دہی اور فریب ہی ہوسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں