جدید تاریخ کی خونیں تقسیم، جس میں لاکھوں لوگ بے گھر اور ہجرت پر مجبور ہوئے، کے ذریعے وجود میں آنے والے پاکستان کو اپنی پُرانتشار تاریخ میں حقیقی استحکام اور خوشحالی کے کم ہی ادوار نصیب ہوئے ہیں۔ سماجی معاشی نظام کے بحران کے ستائے ہوئے سماجوں میں عوامی ہجرت پہلے سے موجود بحرانوں، جنگوں اور انتشار کو شدید کر دیتی ہے۔ پاناما لیکس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے ایوانوں میں آنے والا بحران دراصل موجودہ جمہوری سیٹ اپ کی شکستگی اور ریاستی اداروں اور سیاسی نظام کی بوسیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
اگرچہ فی الحال محکوم طبقات کی کوئی عوامی بغاوت وجود نہیں رکھتی لیکن حکمران جماعتوں اور سیاست دانوں کی ایک دوسرے پر منافقانہ الزام تراشی کے نیچے موجودہ نظام اور اس کے دم چھلوں کے خلاف نفرت اور غم و غصے کا لاوا پک رہا ہے۔ یہ سماجی بے چینی مختلف شکلوں میں اپنا اظہار کرتی ہے جو بظاہر متضاد مقاصد کی نمائندگی کر سکتی ہے۔
نظام کے پالیسی سازوں اور ریاست کی طبقاتی جدوجہد اور سماجی بغاوت کو کچلنے کے لیے تخلیق کردہ بنیاد پرستی کا دیو اب اپنے ہی مالک پر چڑھ دوڑا ہے۔ سرمایہ دارانہ استحصال اور لوٹ مار کی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لیے مڈل کلاس اور سماج کی پسماندہ پرتوں کے جذبات کو استعمال کرکے وحشی بنیاد پرستوں کے ذریعے رجعت کو حاوی کرنا ایک جان لیوا عمل تھا۔ اب ریاست اس کینسر کو قابو کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے جو پہلے سے بوسیدہ نظام کے عدم استحکام میں اضافہ کر رہا ہے۔
چونکہ پاکستان کے بدعنوان اور رجعتی حکمران طبقات قومی جمہوری انقلاب کا کوئی بھی فریضہ انجام نہیں دے سکے، اس لیے یہ تمام مسائل اب رستے ہوئے ناسور بن گئے ہیں‘ جو معیشت اور سماج کی بیمار کیفیت کی غمازی کرتے ہیں۔ قومی جبر جاری ہے جبکہ موجودہ نظام اور ریاست کی حدود میں اس مسئلے کا کوئی حل بھی نہیں ہے۔ محکوم قومیتوں کے بہت سے بورژوائی لیڈروں نے پاکستانی ریاست کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے جبکہ باقی سمجھوتے اور سودے بازی کے عمل میں ہیں جو بظاہر ناکام ہوتے دکھائی دیتے ہیں؛ تاہم محکوم قومیتوں میں ایسے نوجوان بھی ہیں جو حقیقی بنیادوں پر اس جبر کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اپنے تجربات اور بورژوائی لیڈروں کے کردار بے نقاب ہونے سے ان نوجوانوں اور طلبا کی سب سے باشعور پرت اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ قومی آزادی کا راستہ طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ یہی وہ انقلابی نوجوان ہیں‘ جنہیں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر (وحشی بنیاد پرست، تنگ نظر قوم پرست، بالخصوص بلوچستان میں، جو مختلف سامراجی مفادات کے پراکسی ہیں) نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین، مذہبی اقلیتوں، کسانوں اور طلبا پر جبر اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم غریب عوام کے بدترین حالات زندگی کے خلاف بے شمار مظاہرے اور احتجاج بھی ہوئے ہیں‘ لیکن سب سے سنجیدہ جدوجہد صنعتی مزدوروں کی طرف سے ہوئی ہیں‘ اور کئی سالوں تک سرکاری اداروں میں نجکاری، لبرلائزیشن، ری سٹرکچرنگ اور جمہوریت کے نام پر بورژوا حکومتوں کی جانب سے محنت کشوں پر دوسرے حملوں کے خلاف ہڑتالیں اور تحریکیں چلی ہیں۔
پی ٹی سی ایل، او جی ڈی سی، پوسٹ، ریلوے اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں ہونے والی ہڑتالیں بہت طاقتور تھیں‘ اور ان میں سے بہت سی کامیاب بھی ہوئیں۔ اگرچہ میڈیا نے ان کامیابیوں کی اہمیت کو چھپانے کی کوشش کی۔ اس سال پی آئی اے کی ہڑتال پرولتاریہ میں پنپتی ہوئی طبقاتی جدوجہد کا واضح اظہار ہے۔ اس کے علاوہ ایک کے بعد دوسری تحریکیں تیزی سے ابھر رہی ہیں؛ تاہم سماج کی موجودہ کیفیت اور 2007ء اور حالیہ سالوں میں محنت کشوں کی تحریکوں میں قیادت کی غداری کی وجہ سے ہونے والی شکستوں سے عوام ابھی تک نہیں سنبھلے ہیں۔
موجودہ جمود عارضی ہے اور ابتدائی علامات سے واضح ہے کہ یہ ختم ہونے والا ہے۔ اس کے باوجود عوام میں سیاسی بیزاری اور موجودہ نظام سے بے اعتنائی موجود ہے۔ ٹائم کے سروے کے مطابق صرف 12 فیصد لوگ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ عدد دنیا میں سب سے کم ہے۔ نام نہاد فوجی سویلین تضادات اکثر ابھرتے رہتے ہیں‘ اور پھر حیرت انگیز طریقے سے فوجی اور سویلین ٹولے میں بوسیدہ سمجھوتے ہوتے ہیں۔ جلد ہی یہ تنازعے دوبارہ ابھرتے ہیں جو اس توازن کی ناپائیداری کی غمازی کرتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی وسیع اکثریت کی حکومت بہت ہی کمزور ہے اور ایک کے بعد دوسرے مسئلے پر پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت بعض اوقات سمجھوتے کرتی ہے‘ اور پھر کبھی اپنے سیاسی، عدالتی اور فوجی مخالفین کو خریدتی ہے‘ لیکن یہ لڑکھڑاتی حکومت خطرے مول لینا نہیں چاہتی۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ انہیں میڈیا اور ان کے اپنے طبقے کے دائیں بازو کے سیاسی مخالفین سے سیاسی حملوں کا سامنا ہے‘ بلکہ اب مسلم لیگ ن کے رہنمائوں اور پارلیمنٹیرینز کے درمیان بھی دراڑیں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شریف خاندان کے اپنے اندر دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ جیسا کہ جنوب ایشیائی ڈراموں میں اکثر ہوتا ہے کہ بیگمات اور اولادوں کی باہمی دشمنی، نفرت اور رقابت ہی دراصل ان نودولتیے اور بدعنوان بورژوا کاروباریوں کے بیچ طاقت اور مالی لوٹ کھسوٹ کی خاندانی جنگ کو ہوا دیتی ہے۔ شہباز شریف کی بیوی تہمینہ درانی کی شریف خاندان کے بیرونی اثاثوں کے خلاف ٹویٹ معاملے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ محلاتی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔
اگرچہ نواز شریف کئی مرتبہ وزارت عظمیٰ سے برطرف ہوتے ہوتے بال بال بچ گئے‘ لیکن اس مرتبہ شاید ایسا نہ ہو۔ ساڑھے تین سال تک حکومت کے چلنے کی واحد وجہ حکومت کی نہایت ہی نحیف کیفیت اور تباہ کن سماجی معاشی حالات ہیں‘ جس کی وجہ سے ریاست کے دوسرے دھڑے کسی تبدیلی‘ بالخصوص فوجی حکومت کے آنے سے خوف زدہ ہیں مبادا فوج کی معاشی اور سماجی حالات میں بہتری لانے میں ناکامی سے عوامی بغاوت امڈ آئے۔ یہ بات قطعاً یقینی نہیں ہے کہ موجودہ بحران سے حکومت چلی جائے گی لیکن اس بحران کی نزاکت اس بات کی غماز ہے کہ پچھلی چار دہائیوں میں تمام حکومتیں برطرف ہونے کے خطرے اور مستقل خوف میں رہی ہیں۔ بہت سی حکومتیں مدت پوری ہونے سے پہلے ہی برطرف کر دی گئیں۔ حکمرانی کی یہ بے یقینی اور تذبذب اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستان کس حد تک بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا شکار ہے۔
یہ ملک بے قابو امڈتے بحرانوں کے ساتھ تیزی سے حکمران ٹولے کے لیے ناقابل حکمرانی بنتا جا رہا ہے۔ اس بدعنوان اور رجعتی ٹولے کی حکومت نے عوام کے لیے صرف محرومی اور خون خرابہ ہی چھوڑا ہے۔ کوئی دیو ہیکل واقعہ یا معاشی حالات میں ایک اچانک تبدیلی ان کے صبر کے پیمانے کو لبریز کرکے ایک عوامی بغاوت کو جنم دے سکتی ہے۔ وہ سیاسی نظام سے نفرت کرتے ہیں‘ اور ریاستی اداروں سے کراہت محسوس کرتے ہیں‘ جو صرف امیروں اور طاقتور کی خدمت کرتے ہیں۔ جب وہ سیاسی میدان میں ایک تحریک کے ذریعے اتر کر اپنی طاقت کا اظہار کریں گے تو وہ نہ صرف حکومت کے خاتمے کا آغاز ہو گا بلکہ پورے استحصالی نظام کے خاتمے کا آغاز بھی ہو گا۔