ویسے تو یہاں میڈیا معمولی واقعات، خصوصاً معمول بن جانے والی کرپشن کی خبروں اور افواہوں ہی سے چائے کے کپ میں طوفان کھڑا کر دیتا ہے‘ لیکن جنرل راحیل شریف کی جانب سے فوج میں تطہیر کے تاثر سے تو سونامی برپا ہو جائے گا۔ پاکستان میں کسی فوجی سربراہ کا فوج کے افسران کے خلاف ایسا ایکشن اس ملک کی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ دوسری جانب ایک ایسی فضا میں‘ جہاں کارپوریٹ میڈیا اور حکمران طبقے کے دانشوروں نے کرپشن کو ہی تمام مسائل و مصائب کا ذمہ دار قرار دے رکھا ہے، فوجی اداروں میں بدعنوانی کے خلاف کارروائی کو ان بالادست حلقوں میں خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔
21 اپریل کو فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی اس کارروائی میں6 افسران کو برطرف کیا گیا ہے۔ ان افسران کی مراعات اور پوزیشنز ان سے واپس لے لی گئی ہیں اور ان کو صرف پنشن اور میڈیکل کے حصول کی رعایت دی گئی ہے۔ فوج کے ایڈجوئنٹ جنرل زبیر محمود حیات کی جنرل راحیل شریف کے احکامات پر کی جانے والی تفتیش سے اخذ ہونے والے نتائج پر یہ کارروائی ہوئی ہے۔ ابھی تک فوج یا کسی سرکاری ادارے کی جانب سے اس پوری خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ لیکن صرف ایک روز قبل جنرل راحیل شریف کا یہ بیان تھا کہ ''ہر طرف مکمل احتساب کیا جانا لازم ہے... اگر ہم بدعنوانی کی غلاظت کا خاتمہ نہیں کریں گے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی‘‘۔ عمومی طور پر حزب اختلاف نے اس بیان کو نواز شریف اور ان کے خاندان کے حالیہ پاناما لیکس سکینڈل کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی‘ لیکن چونکہ اس پیسے کی سیاست کے تمام دھڑے کسی نظریاتی بنیاد سے عاری ہیں‘ اس لیے اس
کے تجزیے اور بیان بڑے ہی سطحی اور محدود ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سیاست دان کسی دور رس تناظر یا پروگرام یا لائحہ عمل سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ ان کی چونکہ ساری دلچسپی مال بٹورنے میں ہوتی ہے‘ اس لیے ان کی یہ کو شش ہوتی ہے کہ اقتدار کے ذریعے اس لوٹ میں زیادہ حصہ داری رکھنے والے سیاسی دھڑوں کو کسی نہ کسی طریقے سے پچھاڑا جا ئے، چاہے وہ فوجی کارروائی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔ جمہوریت کے یہ چیمپئن تو بوقت ضرورت فوجی حکومتوں میں بھی حصہ داری حاصل کر لیتے ہیں‘ اور اس وقت حاوی سیاست کی کوئی بھی ایسی پارٹی نہیں ہے جو کسی نہ کسی فوجی اقتدار میں کسی نہ کسی قسم کی شراکت اور مراعات حاصل نہ کرتی رہی ہو۔
جنرل راحیل شریف کی یہ غیر معمولی کارروائی کسی اور ہی مسئلے اور تشویش کی غمازی کرتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی ریاست میں کسی نہ کسی سطح پر کرپشن موجود ہوتی ہے۔ کچھ اداروں میں کرپشن کم اور کچھ میں زیادہ ہوتی ہے‘ لیکن پاکستان کی موجودہ فوج، جس کے بنیادی ڈھانچے انگریز سامراج کی برصغیر میں کھڑی کی جانے والی فوج پر مبنی اور انہی کا تسلسل ہیں، اس میں کرپشن کی گنجائش کم از کم انگریز سامراج نے بہت کم چھوڑی تھی۔ یہ اس لیے نہیں تھا کہ برطانوی سامراج بڑا دیانت دار اور نیک تھا بلکہ اس لیے کہ ریاست کے فوج جیسے کلیدی ادارے میں کرپشن کا بڑے پیمانے پر پھیل جانا پوری حاکمیت کے لیے زہر قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔ انگریز سامراج نے مارکس کے الفاظ میں ''ہندوستان پر قبضہ ہندوستان
(برصغیر) کی فوجوں کے ذریعے ہی کیا تھا‘‘۔ یہاں تک کہ 1857ء کی جنگ آزادی میں سکھوں، کشمیر کے مہاراجہ اور دوسرے مقامی قبائلی، علاقائی اور نسلی لشکروں کی حمایت انگریز کو نہ ملتی تو ان کو یہاں کے مقامی فوجیوں اور عوام کی بغاوت نے شکست دے دینا تھی‘ اور ان کو ہندوستان پر مکمل قبضے کی بجائے فرار ہونا پڑتا۔ انہوں نے بنگال سے آغاز کیا‘ اور تقسیم اور لالچ کے ذریعے مقامی راجائوں، مہاراجائوں کو غداریوں کی طرف راغب کر کے انہیں استعمال بھی کیا اور نوازا بھی۔ پھر یہ پالیسی ہر طرف جاری کی گئی۔ لیکن پھر انہوں نے یہاں کی برادریوں، نسلوں، ذاتوں کی اقسام اور ان کے سماجی کردار کی پرکھ بھی حاصل کی‘ اور انہیں استعمال کرنے کی پالیسی بھی اختیار کی۔ اس طرح انہوں نے جغرافیائی حوالے سے بکھرے ہوئے معاشروں کی معاشی و سماجی خصوصیات‘ حتیٰ کہ مختلف خطوں کے افراد کی جسمانی ساخت کی بنیاد پر برٹش انڈین آرمی تشکیل دی۔ ان میں خصوصاً شمال مغربی پنجاب کے سنگلاخ علاقوں اور وادیوں سے زیادہ بھرتیاں کی گئیں۔ یہ کوئی حادثاتی امر نہیں تھا کہ برطانوی فوج کے عروج میں بھاری نفری سکھ جاٹوں، راجپوتوں اور دھن، بھون، ونہار، کالا چٹا وغیرہ جیسے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فوجیوں کو سویلین آبادیوں سے الگ سخت ڈسپلن کے تحت چھائونیوں میں ہی محدود رکھا۔ اگر کسی فوجی کو کنٹونمنٹ کی حدود سے شہر میں کسی نہایت ضروری کام سے بھی جانا ہوتا تھا تو اس کے لئے نائٹ پاس حاصل کرنا ضروری ہوتا تھا۔ دوسری جانب یہ فوجی سپاہی اور افسران دہقانوں، چھوٹے کسانوں یا درمیانے درجے کے زمین دار گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے‘ اور ان میں نسل در نسل مغرب سے برصغیر آنے والے حملہ آوروں کے لئے لڑنے کی روایات بھی موجود تھیں اور پھر ان کے خلاف بغاوتوں کی ریت بھی پائی جاتی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد یہاں کا حکمران طبقہ اپنی تاریخی نااہلی، مالیاتی کمزوری، تکنیکی پسماندگی کے تحت جدید صنعتی سماج، سرمایہ دارانہ ریاست اور پارلیمانی جمہوریت قائم کرنے سے قاصر تھا‘ اور نظام کو برقرار رکھنے اور اسے چلانے کے لئے روز اول سے ہی اقتدار میں فوج کا کلیدی کردار رہا۔ اقتدار میں آ کر فوج اور بالخصوص فوجی اشرافیہ یا جرنیلوں کی دولت اور طاقت کے باہمی رشتے میں شمولیت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ جوں جوں فوجی اقتداروں کی شرح بڑھتی گئی، فوج کا سرمائے اور کاروباری امور میں کردار بھی بڑھتا چلا گیا۔ اسی طرح یہاں کے سرمایہ دار طبقے کا وجود ہی کرپشن اور چوری سے مشروط ہے؛ چنانچہ وقت کے ساتھ یہ بدعنوانی ریاست کے ہر ادارے میں پھیلتی چلی گئی۔ ضیا الحق کے دور میں اور اس کے بعد یہ عمل تیز تر ہو گیا۔
جنرل راحیل شریف کا یہ اقدام کرپشن اور کالے دھن کے اس پھیلتے ہوئے زہر کے تریاق کی کوشش معلوم ہوتا ہے‘ جس سے پورے ادارے کے ڈھانچوں اور وجود تک کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسے میں یہ ادارہ نہ اس ریاست کے کسی کام کا رہے گا اور نہ اس کا وجود اور ساکھ برقرار رہ سکے گی۔ فوج کے کرپشن میں ملوث ہونے کی داستانوں کی کتابیں ڈھیروں ہیں‘ لیکن یہ واقعہ حکمرانوں کی شدید تشویش اور سنگین کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ریاستی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ قدم بہت چھوٹا ہے اور بہت تاخیر سے اٹھایا گیا ہے؛ تاہم حکمران طبقات کے دانشور، تجزیہ نگار اور درمیانے طبقے کے کچھ افراد اس پر بھی خوش ہیں کہ چلو کچھ ہوا تو ہے! راحیل شریف کی ابھاری گئی ساکھ کا بھی شاید ان کے شعور پر بھاری بوجھ ہو گا۔اس اقدام سے اس ادراک کا یہی کردار ہو سکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن اس بحران کی وجہ نہیں ہے بلکہ اس کی ناگزیر پیداوار ہے۔ ریاست، معیشت اور سیاست کے اس بحران کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ پہلے تو پاکستان کے بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقے میں اتنی سکت ہی نہیں کہ یہاں کے سرمایہ دار ٹیکس اور بل بھی ادا کریں، محنت کشوں کو انسانی اجرت اور سہولیات بھی دیں، ہر کام جائز طریقے سے کریں اور ساتھ ہی اپنی شرح منافع بھی برقرار رکھ سکیں۔ دوسری جانب بدترین استحصال، نابرابری اور غربت سے ذلت اور محرومی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس میں ہر سطح اور ہر ادارے میں دو نمبری کے بغیر گزارا نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اقدام بے قابو ہوتے ہوئے عمل کے خلاف صرف ایک وارننگ ہے‘ لیکن جب بدعنوانی نظام کا ناگزیر جزو بن جائے اور اوپر سے نیچے تک سماج اور ریاستی مشینری کے رگ و پے میں رچ بس جائے تو جرنیلوں، افسر شاہی اور سیاست دانوں وغیرہ کے خلاف انفرادی کارروائیوں سے ختم نہیں ہو سکتی۔ سوال پھر پورے نظام پر آتا ہے۔ بدعنوانی کو ختم کرنے کے لئے ذاتی ملکیت اور دولت کے نظام کا خاتمہ درکار ہے۔ یہ کسی جرنیل کا نہیں سوشلسٹ انقلاب کا فریضہ ہے۔