طبقاتی سماجوں کی تاریخ میں سلطنتیں مسلسل ابھرتی اور پھر بکھرتی رہی ہیں۔ان کے گرنے کی بنیادی وجوہ جنگیں، انقلابات، معاشی تباہی اور نظام کی تنزلی ہیں۔2008ء کے تباہ کن کریش کے بعد دنیا بھر کی سرمایہ دارانہ معیشتوںاور سلطنتوں میںایک خلفشار برپا ہے۔ معاشی بحالی کی کوششیں بے بس ہیں۔ان کے اپنے ماہرین کے مطابق مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور طویل مدتی تناظر بھی زیادہ خوش آئند نہیں۔ سخت کٹوتیوں اور محنت کشوں اور عوام پر ظالمانہ حملوں کے ذریعے معاشی توازن کو بحال کرنے کی کوششوں میں سیاسی توازن بگڑ چکا ہے۔ایسا محض سامراجی طاقت امریکہ ، یورپ یا جدید سرمایہ دارنہ ممالک میں نہیں ہو رہا بلکہ مشرق وسطیٰ اور دوسرے خطوں میں تیل اور معدنیات کی وجہ سے امیر سمجھی جانے والی ریاستیں بھی بحران سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔تیل کی قیمتوں میں بد ترین کمی کی وجہ سے سعودی حکومت کی جانب سے لوگوں کو دی جانے والی مراعات میں سخت کٹوتیوں کرنا پڑ رہی ہیں۔
خام تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک اب معاشی ''اصلاحات‘‘ کے ذریعے تیل پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔حکومت کی دولت کا 80فیصد تیل سے آتا ہے۔آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر برائے ایشیا نے چھ ماہ قبل روزنامہ ٹیلی گراف سے کہاتھا کہ ''سعودی معیشت میں بڑے پیمانے کی بنیادی تبدیلی کرنا ہو ں گی۔ حکومت کو تیل کی سبسڈی کے شاہ خرچ نظام میں اصلاحات کرتے ہوئے کئی نئے ٹیکس نافذ کرنا ہوں گے، جن میں استعمال کی اشیا پر وی اے ٹی جیسے ٹیکس بھی شامل ہیں۔یہ ضروری ہے اور یہ دشوار بھی ہو گا۔۔۔یہ کئی سالوں پر محیط ایڈجسٹمنٹ کے عمل کا حصہ ہو گا‘‘۔( آئی ایم ایف کے مطابق سعودی عرب کا خسارہ 140 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے، جو کہ حکومت کے اپنے اندازے 98ارب ڈالر یا جی ڈی پی کے15فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔)
آکسفورڈ اکنامکس کے مطابق 1986ء میں تیل کی قیمتوں کے آخری بڑے کریش کے دوران تیل پیدا کرنے والے 25 ترقی پذیر ممالک میں سے17 دیوالیہ ہو گئے تھے۔تیل پیدا کرنے والے ممالک کے قرضوں میں اوسطاً 40فیصد اضافہ ہوا تھا۔آکسفورڈ اکنامکس میں گلوبل اکنامکس ریسرچ کے سربراہ گیبریئل سٹرن کے مطابق ''1980ء کی دہائی کی مثالیں بہت پریشان کن ہیں،تیل پیدا کرنے والے ممالک کا دیوالیہ ہونا ایک معمول بن گیا تھا اور محض چند ملک ہی اس سے بچے تھے‘‘۔
سعودی عرب پانی اور بجلی پر سبسڈی کا خاتمہ کرنے جا رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی سفارشات کے مطابق انہیں تین کروڑ کی آبادی کو ایندھن میں دی جانے والی بڑی سبسڈی میں بھی بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔تیل کی قیمت میں موجودہ گراوٹ کی بڑی وجہ بھی پیداوار بڑھانے کی سعودی پالیسی ہی ہے جس کا مقصد زیادہ پیداواری لاگت والے طریقوں سے نکلنے والے تیل سے مقابلہ بازی میں سبقت حاصل کرنا ہے جن میں امریکہ میں شیل کے طریقے سے نکالے جانے والا تیل بھی شامل ہے۔ مسٹر سٹرن کے مطابق''اجناس کی قیمتوں میں گراوٹ حکومتوں کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے۔ اگر یہ ارزانی چلتی رہی تو اس مرتبہ بہت برے نتائج برامد ہو سکتے ہیں۔‘‘
گزشتہ چالیس برسوں کے معاشی عروج میں جنوبی ایشیا ، جنوب مشرقی ایشیا اور دیگر ممالک سے لاکھوں محنت کش روزگار کے لیے سعودیہ آئے اور تیل کی صنعت، تعمیرات اور خدمات کے شعبے میں نسبتاً کم اجرتوں کی نوکریوں کے ساتھ ساتھ درمیانی سطح کی مینجمنٹ اور پیشہ ور ملازمتیں بھی کرتے رہے۔2015 ء میں ملک کی 3کروڑ80لاکھ آبادی میں سے1کروڑ 10لاکھ غیر ملکی تھے ۔ ان کے بھیجے ہوئے پیسے انکے کے ملکوں کے لیے بہت اہم تھے ۔سعودی مرکزی بینک کے شمار کے مطابق 2015ء کی تیسری سہ ماہی میں 9.1ارب ڈالر ملک سے باہر بھیجے گئے۔سعودی معیشت کی شرح نمو سست ہوتی جا رہی ہے اور تیل کی کم قیمت کی وجہ سے ریاستی بجٹ سنجیدہ خسارے کا شکار ہے اور حکومت اخراجات میں کٹوتی پر مجبور ہے۔2006ء سے2015ء کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو اوسطاً 5فیصد سالانہ رہی، جو اس سال 2فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ ابتدائی مرحلوں میں برطرف کیے جانے والے تقریباً سب ہی غیر ملکی تھے جس کی ایک وجہ لیبر قوانین ہیں جن کی رو سے سعودی شہری کو ملازمت سے برطرف کرنا مشکل اور مہنگا پڑتا ہے۔
اب حکومت کے پاس سعودیوں کے لیے سرکاری نوکریاں تخلیق کرنے کے لیے ماضی کی طرح پیسے نہیں ہیں ۔سعودی شہریوں میں بے روزگاری کی شرح11.5ٖفیصد ہے جس میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔یہ حکومت کے لیے تشویش ناک ہے اوروہ ماضی میں غیر ملکیوں سے حاصل نوکریوں پر سعودیوں کو رکھنے کے لیے لیبر مارکیٹ میں بڑی مداخلت کر رہی ہے۔ایک بڑی سعودی کمپنی کے ایک اعلیٰ افسر نے جنوری میں رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہ سال کے آخر تک ایک کروڑ محنت کشوں کا ملک چھوڑ جانا اس کے لیے حیران کن نہیں ہو گا۔ممتاز سعودی معیشت دان فضل ال بوعینین کے مطابق ''معاشی تبدیلیوں کا دبائو لیبر مارکیٹ پر پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں غیر ملکی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد واپس لوٹنا شروع ہو گئی ہے۔کارپوریٹ شرح منافعہ میں گراوٹ سے غیر ملکی محنت کش مینجمنٹ کے اقدامات کا نشانہ بن رہے ہیں جو مستقل مالیاتی ادائیگیوں میں کمی لانا چاہ رہی ہے۔‘‘ابھی تک زیادہ تر برطرفیاں تعمیرات کے شعبے میں ہوئی ہیں جہاں45فیصد غیر ملکی کام کرتے ہیں۔سرکاری ٹھیکوں میں کمی اور حکومت کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر کی بنا پر کنسٹرکشن کمپنیاں پچھلے سال سے ہی ہزاروں محنت کشوں کو برطرف کر رہی ہیں۔
سعودی عرب کے سب سے بڑے آجروں میں سے ایک بن لادن گروپ کے محنت کشوں نے30اپریل کو صوبہ مکہ میں کمپنی کے دفتر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے کمپنی کی بسوں کی نذر آتش کر دیا ۔ انہیں کئی مہینوں کی تنخواہ دیے بغیر ملک سے نکالا جا رہاہے۔اس کمپنی نے پچاس ہزار غیر ملکی محنت کشوں کو برطرف کر دیا ہے۔ سعودی روزنامہ الوطن کے مطابق بن لادن گروپ ان برطرف شدہ محنت کشوں کو ملک سے نکلنے کے لیے مستقل ایگزٹ ویزا جاری کیا ہے لیکن ان میں سے بہت سے واپس نہیں جانا چاہتے کیونکہ ان کے مطابق انہیں پورے پیسے ادا نہیں کیے گئے۔کئی محنت کشوں کو چار ماہ سے اجرت نہیں ملی اور اب وہ روزانہ کمپنی کے دفتر کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ برطرفیاں کمپنی کی کل افرادی قوت کا پچیس فیصد ہیں۔یہ کمپنی القائدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے والد نے 1931ء میں قائم کی تھی اس نے بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل کیے ہیں۔اس کے ایک عرصے سے محنت کشوں کے ساتھ اجرتوں پر تنازعات چلے آ رہے ہیں اور مارچ میں ریاض میں کمپنی کے دفتر کے سامنے احتجاج ہوا تھا۔گزشتہ برس مکہ میں گرنے والی کرین بھی اسی کمپنی کے پراجیکٹ کا حصہ تھی جس کی تباہی سے107افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
2011ء میں بحر اوقیانوس کے ساحل سے لیکر بحیرہ عرب کے کناروں تک پورے خطے میں پھیلے عرب انقلاب سے حکومتیں لرز کر رہی گئیں اور کئی ایک کا تو خاتمہ ہو گیا۔ انتہائی جبر اور بربریت کے ساتھ ساتھ بالخصوص کچھ خلیجی ممالک نے بے چینی کو زائل کرنے کے لیے عوام کو کچھ مراعات دینا شروع کر دیں۔سعودی بادشاہ کی جانب سے عوام کو دی جانے والی مراعات سے ان کی معیشت پر کافی بوجھ پڑا۔ اب تیل کی قیمت میں گراوٹ اور اس کے نتیجے میں معاشی بربادی کی وجہ سے وہ کٹوتیاں کرنے پر مجبور ہیں جو نہ صرف غیر ملکی محنت کشوں کی روزی کے لیے تباہ کن ہیں بلکہ ان سے پاکستان جیسے ممالک کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہو گی۔لیکن ان اقدامات سے سعودی شہریوں کے مسائل بھی حل نہیں ہو پائیں گے۔نسل در نسل معاشی سہل پسندی کے عادی لوگ سعودی معیشت کے بحران کے بوجھ کی سختیوں کو نہیں جھیلیں گے۔مشہور فرانسیسی سیاست دان الیکسس ڈی تاکویل (1805-1859ء) نے کہا تھا کہ ''کسی حکومت کے لیے سب سے خطرناک لمحہ وہ ہے جب وہ اصلاحات کرنا شروع کرے۔‘‘اصلاحات کے واپس چھننے پر انقلاب بھی بھڑک سکتے ہیں۔