ماضی قریب میں پاکستان کے مختلف اداروں کے محنت کشوں نے مختلف سیاسی اور معاشی مطالبات پر چھوٹی چھوٹی تحریکیں بر پا کی ہیں۔ لیکن سیاسی جمود اور کسی حد تک کسی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ تحریکیں بھی محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کو متحرک کرنے اور جوڑنے میں ناکام رہیں۔ اس کے نتیجے میں طبقے کی مختلف پرتوں میں مایوسی اور بدگمانی کے سائے گہرے ہوئے۔
پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کو روزگار چاہیے۔ کم اجرتیں /آمدنی، بے تحاشا مہنگائی اکثریتی والدین کو مجبور کر تی ہیں کہ وہ بچوں کو سکول سے اٹھوا کر کام پر لگائیں۔ چائلڈ لیبر انہی مادی حقائق پر مشتمل ایک نا گزیر سماجی مظہر ہے جس کا خاتمہ سماجی اور مادی حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی مشروط ہے۔ پاکستان ، نائجیریا کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے جس میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ 43 فیصدبچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما ادھوری ہے۔ ملک میں ہر 3 منٹ میں ایک بچہ ہیضہ سے اور ہر سال80,000 بچے نمونیا سے مر جاتے ہیں۔ 1000 میں سے 90 بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے مر جاتے ہیں۔ان تمام مسائل کا تدارک محض نعرے بازی اور بلند و بانگ جھوٹے دعووں سے نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح تعلیم اور صحت پر بجٹ میں اخراجات میں پچھلے تین سالوں سے مسلسل کٹوتیاں کی جا رہی ہیں ۔ بیماریوں کے خاتمے اور صحت مند زندگی کے لیے صحت کے دیوہیکل منصوبوں اور ہسپتالوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ صاف پانی، صاف ماحول چاہئے اور بیماریوں کا باعث بننے والی وجوہ کا خاتمہ ضروری ہے جس کے لیے بے پناہ وسائل درکار ہیں، لیکن پاکستان کی سرمایہ داری کی حالت ایسی ہے نہ ہی کبھی رہی ہے کہ اس طرح کے سماجی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ خرچ کیا جائے۔ اسی طرح ضروریات کے ان منصوبوں کی تشہیری حیثیت ممکن نہیں جبکہ میٹروبس اور اورنج ٹرین کے منصوبوں کو کار نامے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری سہولیات میں بہتری سے تعلیم و علاج جیسی بنیادی ضروریات زندگی کا کاروبار کرنے والے سرمایہ داروں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
پاکستان کی معیشت میں گروتھ نہیں ہو رہی اور نہ ہی اگلے کچھ سالوں میں، انفراسٹرکچر اور توانائی کے کچھ بڑے منصوبوں کے باوجود، معاشی ترقی کے امکانات کے بارے میں حکمران زیادہ پر امید نہیںہیں۔ زیادہ تر کوشش کی جا رہی ہے کہ اس مدت ِ اقتدار میں کچھ نمایاں نظر آنے والے منصوبوں کو مکمل کیا جائے۔ لوڈشیڈنگ میں کسی حد تک کمی لوگوں کے مسائل کم کرنے کی بجائے اس میں اضافے کا باعث بنے گی، کیونکہ مہنگی بجلی کی فراہمی لوگوں کی آمدنی کومزید سکیڑنے کا باعث بنے گی۔ اس تناظر میں ان کمزور اور نحیف کامیابیوں کی بنیاد پر موجودہ حکومت کا دوبارہ اقتدار میں آنے کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ سرمایہ داری کے موجودہ عالمی بحران نے ان حکمرانوں سے کسی طویل اور مستحکم معاشی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی صلاحیت چھین لی ہے۔سلگتے ہوئے سماجی مسائل کو حل کرنے میں یہ حکمران مکمل طور پر ناکام ہیں۔ 6 کروڑ لوگ ماہانہ 3000 روپے سے کم کماتے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 7 فیصد ہے جس میں اپنی اہلیت کے مقابلے میں کم تر روزگار میں موجود لوگوں کو بھی با روزگار شمار کیا گیا ہے، اسی طرح روزگار نہ ملنے پر ٹھیلا لگانے یا رکشہ چلانے جیسی کیفیات کو بھی ''باروزگار‘‘ شمار کیا جاتا ہے، کنٹریکٹ یا دہاڑی پر کام کرنے والے کروڑوں محنت کش بھی باروزگار ہی شمار ہوتے ہیں۔حقیقی بے روزگاری یا پھربیروزگاری سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔کل افرادی قوت کا 70 فیصد غیر رسمی روزگار پر مشتمل ہے جس میں کوئی مراعات یا نوکری کی ضمانت تک نہیں ہے۔ نوجوانوں کو کھپانے کے لیے 15 لاکھ نوکریاں ہر سال درکار ہیں جبکہ معاشی بحران، موجودہ سرمایہ داری کی Capital Intensive کیفیت اور پیداوری شعبے سے مالیاتی شعبے اور سروسز کی طرف سرمائے کی شفٹ کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں روزگار ملنا ناممکن ہے۔ مالیاتی سرمایہ اور خدمات کا شعبہ کل داخلی پیداوار (GDP) کا 50 فیصد ہے۔
ہر سیاسی پارٹی بیرونی سرمایہ کاری کو ترقی کے نایاب نسخے کے طور پر پیش کرتی ہے۔کیا وجہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں نہیں آ رہی؟ توانائی کے بحران اور امن و امان کے مسئلہ کو بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بالفرض یہ دونوں مسائل حل بھی ہوجائیں تو بھی سرمایہ کاری پیداواری شعبے میں نہ آنے اور پیداواری لاگت مہنگی ہونے کی وجہ سے ممکنہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ جتنی بھی سرمایہ کاری آتی ہے وہ زیادہ تر مالیاتی سرمائے اور اسٹاک مارکیٹ میں آتی ہے جو کہ روزگار اور معاشی ترقی میں معاون ثابت نہیں ہوسکتی۔اس کے باوجود بھی جولائی2015 ء سے مارچ 2016ء تک صرف993 ملین ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں ہوئی ہے۔ مارچ تک 20 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر جمع ہوئے ہیں جو کہ زیادہ تر تارکین ِ وطن کی ترسیلات زر پر مشتمل ہیں نہ کہ بر آمدات یا تجارت کے ذریعے جمع ہوئے ہیں۔ یہ عمل ان ذخائر کی کمزوری اور معاشی سرگرمی نہ ہونے کا اظہار ہے۔ اوپر سے 14 ارب ڈالر تک تجارتی خسارہ پہنچ چکا ہے جو کہ ان ذخائر کو ہڑپ کر جائے گا۔ آج پاکستان تاریخ میں سب سے زیادہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑا ہو ہے۔ اب تک 68 ارب ڈالر کا بیرونی قر ضہ واجب الادا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اگلے چار سالوں میں90 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ مجموعی داخلی و بیرونی ریاستی قرضہ 18 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔
کوئی ایسی سیاسی پارٹی نہیں ہے جس کے پاس کوئی ایسا پروگرام ہو جو ان عذابوں سے اس ملک کی عوام کو چھٹکارا دلا سکے۔اس کرپشن کی انتہا اور حکمران طبقے کے نزدیک اس کے خلاف ممکنہ عوامی ردعمل کے خوف کے پیش نظر اس مسئلے کو زیادہ بڑھا چڑھا کر ایک نان ایشو کا بلبلہ بنایا جا رہا ہے۔
محنت کش طبقے کا شعوری ارتقاکبھی سیدھی لکیر اور ایک سمت میں نہیں ہوتا بلکہ مختلف واقعات اور حالات کے نتیجے میں مختلف سمتیں اختیار کرتا ہے اور بعض اوقات متضاد ردعمل سامنے آتا ہے۔لیکن ایک بات طے ہے سماج میں انفرادی طور پر طبقاتی شعور بہت ایڈوانس بھی ہوسکتا ہے اور پسماندہ بھی، لیکن عمومی طور پر اجتماعی شعور فیصلہ کن ہوتا ہے جو مختلف کیفیات اور مراحل میں حتمی نتائج اخذ کرنے کی پوزیشن میں جاتا ہے۔ہر طبقہ زندگی اور تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے۔ طبقے ، تحریک اور انقلابی پارٹی کا ایک مخصوص نکتے پر ملاپ ہی سرمایہ داری کو اکھاڑ کر سوشلزم کو نسل انسان کا مستقبل بنا سکتا ہے۔