"DLK" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ: ایک صدی کا عذاب!

بحر اوقیانوس کے ساحل سے بحیرہ عرب تک، مشرق وسطیٰ تاراج ہے۔ ایک طرف غربت، محرومی اور جنگ کے عذابوں سے خلق تنگ ہے تو دوسری جانب آمریتوں، رجعتی بادشاہتوں اور نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے۔کہیں صہیونی ریاست کے قبضے میں سسکتے فلسطینی عوام ہیں اور کہیں سامراجی جارحیت کی بربادی ہے۔ اس پر داعش، القاعدہ اور نصرہ فرنٹ جیسے خونخوار مذہبی بنیاد پرست اور فسطائی گروہ انسانی خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ اتنا بڑا خلفشار ہے کہ امریکی سامراج اور اوباما انتظامیہ یہاں سے فرار اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ یورپی سامراج تو پہلے ہی ایسے آگ اور خون کے کھیل سے بھاگتے ہیں جہاں ان کے پائوں جلتے ہوں لیکن کہیں نہ کہیں، چھوٹے یا بڑے پیمانے پر اس تباہ کاری اور خونریزی کے ذمہ دار ضرور ہوتے ہیں۔ عراق اور لیبیا کی ریاستیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ شام کی دراڑ زدہ ریاست کو روسی مداخلت جوڑنے میں ناکام رہی ہے۔ سنائی میں دہشت گردی کی کارروائیاں اب سوئز نہر پار کر کے مصر میں سرائیت کر گئی ہیں۔ اردن میں بادشاہت کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ہے۔تیل کی قیمتوں میں کمی سے خلیجی ریاستیں شدید معاشی بحران اور سماجی خلفشار سے دو چار ہو رہی ہیں۔ 
اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کو مقید تو کیا ہے لیکن ان کو مطیع نہیں بنا سکی۔ فلسطینی عوام کو ان حالات تک پہنچانے میں عرب حکمرانوں کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ اپنے داخلی جبر کو طوالت دینے کے لئے استعمال کیا ہے۔ فلسطینی عوام کی آزادی کبھی ان رجعتی حکمرانوں کا مقصد و منشا نہیں رہا۔ آج تو ان علاقائی اور عالمی سامراجیوں نے فلسطین کو ایسے فراموش کر دیا ہے جیسے اس مسئلے کا وجود ہی کبھی نہ رہا ہو۔ 
مشرق وسطیٰ اور نواحی خطوں کی اس بربادی اور انتشار کی کڑیاں آج سے سو سال قبل برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں کے درمیان ہونے والے 'سائیکس پیکوٹ‘ معاہدے (Sykes-Picot Agreement) سے ملتی ہیں۔ اس خفیہ معاہدے میں روسی زار شاہی بھی ملوث تھی۔ یہ معاہدہ پہلی عالمی جنگ کے عروج پر مئی 1916ء میں طے پایا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے مسلسل عدم استحکام میں اس معاہدے کے کردار کو بہت سے سامراجی اور سرکاری تاریخ دان بھی تسلیم کرتے ہیں۔
برطانوی سامراج کے نمائندے مارک سائیکس اور فرانسیسی سامراج کے نمائندے فرانسوا پیکوٹ کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے ذریعے برطانیہ نے بحیرہ روم کے ساحل کے علاقے حاصل کئے، ان میں اردن اور عراق بھی شامل تھے۔ فرانس نے ترکی، شمالی عراق، شام اور لبنان کے علاقے حاصل کئے۔ روسی زار شاہی نے استنبول، ترکی کے شمالی علاقوں اور آرمینیا پر اس معاہدے کے ذریعے قبضہ جمایا تھا۔ 1918ء میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد ان علاقوں پر سامراجی قوتوں کا تسلط مکمل ہو گیا۔ ارض فلسطین کا اختیار برطانوی سامراج نے حاصل کیا جو 1923ء سے 1948ء تک اس کے قبضے میں رہا۔ 
بندر بانٹ کے اس خفیہ معاہدے کی طرح بہت سی ریاستیں، اگرچہ وہ ظاہری طور پر متحارب ہی کیوں نہ ہوں، آپس کے خفیہ معاہدے برقرار رکھتی ہیں۔ حکمرانوں کی ایسی کارستانیاں عام طور پر انقلابات کے ذریعے ہی عوام پر آشکار ہوتی ہیں۔ سائیکس پیکوٹ معاہدہ بھی شاید طویل عرصے تک خفیہ رہتا۔ اگر انقلاب روس (بالشویک انقلاب) برپا نہ ہوتا۔ نومبر 1917ء میں جب ولادیمیر لینن اور لیون ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک انقلاب میں محنت کشوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تو انقلابی حکومت کے سب سے پہلے اقدامات میں سے ایک وزارت داخلہ اور خارجہ کی خفیہ فائلوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا بھی تھا۔زار شاہی کے تمام خفیہ معاہدوں اور دوسرے ریاستی امور کو بالشویک پارٹی کے اخباروں 'پراودا‘ اور 'ازویستیا‘ میں شائع کیا گیا۔ 
سلطنت عثمانیہ کے علاقوں کو آپس میں تقسیم کرنے کے لئے سائیکس پیکوٹ معاہدے میں نقشے پر سرخ اور نیلے رنگ کی لکیریں کھینچ کر نئے مصنوعی ملک بنائے گئے۔ اس تقسیم میں مذہب اور فرقہ واریت کا زہر بھر کر اپنی حاکمیت کو طوالت دی گئی۔ مقامی عرب
حکمرانوں نے اس بھیانک سامراجی کھلواڑ میں سامراجی دلال کا کردار ادا کیا جو تیل اور دوسرے وسائل کی دولت کو سو سال سے لٹوا رہے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی سے جاری یہ ظلم کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ سرمایہ داری اور سامراج کے سب سے مستند جریدے 'اکانومسٹ‘ کو اپنے حالیہ شمارے میں اسے تسلیم کرنا پڑا ہے۔ اپنے ادارئیے میں اکانومسٹ لکھتا ہے: ''جب سر مارک سائیکس اور فرانسوا جارجیز پیکوٹ نے خفیہ طور پر یہ لکیریں کھینچ کر سلطنت عثمانیہ کے خطہ لیوانت کو مئی 1916ء میں چیرا تو شاید وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہوں گے کہ وہ کس انتشار کو جنم دینے جا رہے ہیں۔ سامراجی جارحیت اور غداری، عربوں کی نفرت اور مزاحمت، عدم استحکام اور فوجی آمریتیں، جنگیں اور آبادیوں کی بے دخلی، فلسطین پر قبضہ اور امن کی ناکامی، ہر طرف ظلم و جبر، انتہا پسندی اور دہشت گردی پر محیط وحشت کی ایک پوری صدی!‘‘
آج اعتراف جرم کے باوجود سامراجی حکمرانوں اور ان کے 'سیانے‘ صلاح کاروں کے پاس نہ تو کوئی خوش آئند تناظر ہے نہ کوئی حل یا مثبت تدبیر۔ اس نظام میں یہ بربادیاں بڑھیں گی، کم نہیں ہوں گی۔ اس بحران زدہ نظام میں کوئی امن و آشتی یا خوشحالی ممکن نہیں۔ عرب عوام کے لئے ان کے خطے میں تیل اور معدنیات کی دولت اور دوسرے وسائل ہی وبال جان بن گئے ہیں۔ 
لیکن ان سو سالوں میں صرف حکمرانوں نے ہی یلغار نہیں کی۔ مشرق وسطیٰ کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی بغاوتوں اور انقلابات کی بھی طویل تاریخ ہے۔ان میں سب سے تازہ 2011ء کا عرب انقلاب تھا جس نے سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا اور حکمرانوں کے تخت دھڑام ہونے لگے تاہم انقلابی مارکسی قیادت کے فقدان میں یہ انقلابی ریلا زائل ہونے لگا اور نتیجہ رد انقلاب کی شکل میں نکلا جو کہیں ''جمہوریت‘‘ اور کہیں خانہ جنگی کی شکل میں عوام کی زندگی کو نئے عذابوں میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ 2011ء سے پیشتر بھی مشرق وسطیٰ اور نواحی خطوں میں سامراجی تسلط اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لئے انقلابات برپا ہوئے جو کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے اور آگے بڑھے۔1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں مصر، شام،لیبیا، عراق اور یمن میں برسر اقتدار آنے والی انقلابی حکومتوں نے سامراجی اثاثوں کو ضبط کیا، بڑے پیمانے پر نیشنلائزیشن کی اور منڈی کے نظام کے خاتمے یا بائیں بازو کی ریڈیکل پالیسیوں کے ذریعے تیز معاشی و سماجی ترقی کی، تعلیم، علاج اور رہائش کی سہولیات عوام کو حاصل ہوئیں۔ تاہم مارکسی لائحہ عمل نہ اپنانے اور قومی اور ریاستی محدودیت کے نظریات کی وجہ سے یہ ریاستیں زوال پزیری سے دو چار ہو کر ختم ہوئیں اور پورے خطے میں انقلابی عمل کئی دہائیوں کے لئے پسپا ہو گیا۔ 2011ء کی تحریک کئی دہائیوں کے بعد برپا ہوئی تھی لیکن آئندہ تحریکوں کے اٹھنے میں اتنا وقت نہیں لگے گا۔ مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے 2011ء کے انقلاب سے بہت سے نتائج اخذ کئے ہیں۔ آنے والے انقلابی ریلوں کو ''جمہوریت‘‘ کے نام پر زائل کرنا حکمرانوں کے لئے اتنا آسان نہیں ہوگا۔وقت اور حالات ناگزیر طور پر محنت کشوں اور نوجوانوں کو پورے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل لا کھڑا کریں گے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں