بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت جارحانہ نیولبرل معاشی پالیسیوں کو سماجی، سیاسی اور ثقافتی جبر کے تڑکے کے ساتھ لاگو کررہی ہے۔ جواہرلعل یونیورسٹی کے طلبہ پر جبر، گائے کا گوشت کھانے والوں پر بی جے پی کے غنڈوں کا تشدد اور قتل،لکھاریوں پر جبر اور حالیہ دنوں میںفلم 'ادتا پنجاب‘ کی سنسرشپ جیسے واقعات صرف چند مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی متشدد فوجی کارروائیاں، عورتوں سے زیادتی کے خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے واقعات، مزدوروں اور نوجوانوں پر ہونے والے جبر کے واقعات کو کارپوریٹ سیکٹر کا گماشتہ میڈیا رپورٹ نہیں کرتا۔ مودی کی یہ ڈھٹائی اور جارحیت خارجی محاذ پر بھی داخلی محاذ کی طرح ہی جاری ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس کے بیرونی دوروں کو خوب اجاگر کیا ہے۔ مودی نے سعودی عرب اور قطر اور ہر اس جگہ کا دورہ کیا ہے جہاں کوئی بھارتی حکمران شاذو نادر ہی گیا ہوگا۔ اپنے حالیہ پانچ ممالک کے دورے میں اس نے بھارت کی بلند معاشی شرح نمو اور 'جمہوری روایات‘ کے بارے خوب شیخی بگھاری ہے۔
لیکن افغانستان میں مودی کی ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان اور ہند افغان سلما ڈیم کا افتتاح بھارت کے حکمران طبقات کے سامراجی عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ قطر میں اس نے ڈینگیں ماریں کہ انڈیا کی شرح نمو دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور امریکہ میں اس نے عالمی سرمایہ داری کے حالیہ معاشی زوال سے نکلنے کے لیے 'ڈیموکریٹک گروتھ انجن‘ کی بات کی۔ ایک عالمی معاشی زوال ، جس سے بحالی کے امکانات بہت کم ہیں، کے دوران کارپوریٹ میڈیا 'بھارت کے معاشی معجزوں‘ کے گن گارہا ہے۔ اس لفاظی کو مودی عیارانہ طریقے سے انڈیا کی تیس کروڑ سے زائد بحران زدہ مڈل کلاس کو لبھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن بھارت کی دو تہائی سے زیادہ آبادی بدترین مصائب، غربت اور محرومی کی زندگی گزار رہی ہے۔
اس وقت دنیامیں غربت کا سب سے زیادہ ارتکاز بھارت میں ہے۔ تیس سال پہلے بھارت میں دنیا کی غربت کا پانچواں حصہ موجود تھا جبکہ آج دنیا کی ایک تہائی سے زیادہ غربت یہاں موجود ہے۔ اس وقت سرکاری طور پر بھارت کی آبادی کا 29.8 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے۔ لیکن سرکاری اعداد و شمار پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔غربت کی اس تعریف میں وہ لوگ آتے ہیں جن کی روزانہ کی آمدنی 28.65 روپے سے کم ہو جبکہ دیہاتوں میں یہ رقم 22.42 روپے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ اعداد و شمار کے مطابق 30 روپے کمانے والا غریب نہیں! یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی جانب سے شائع کئے جانے والے غربت کےMPI انڈیکس کے مطابق بھارت میں 64 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں (کل عالمی غربت کا 40 فیصد)۔ بی بی سی پر گزشتہ عرصے میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق انڈیا کی آدھی آبادی نہ صرف بیت الخلا بلکہ بجلی سے بھی محروم ہے۔ یونیسیف کے حالیہ اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ دنیا میںکم خوراکی کے شکار ہر تین میں سے ایک بچہ بھارت میں ہے۔اسی طرح ملک میں پانچ سال سے کم عمر کے 42 فیصد بچے کم وزنی کے شکار ہیں جبکہ 58 فیصد بچوں کی جسمانی نشوونما بگڑی ہوئی ہے۔پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کے درمیان ہتھیاروں کے انبار لگانے کے ساتھ ساتھ غربت اور بربادی پھیلانے کا مقابلہ بھی بہت سخت ہے!
گلوبل ریسرچ کی ایک رپورٹ میں کولن ٹوڈ ہنٹر نے لکھا ہے، ''غربت کا مسئلہ بھارت میں بار بار اپنا سر اٹھاتا رہتا ہے۔ پلاننگ کمیشن بار بار خط غربت کو تبدیل کرتا رہتا ہے ۔ بھارت میں خط غربت سے چھیڑ چھاڑ ایک اچھا مشغلہ بنا ہوا ہے۔ بھارت کے بیہودہ حد تک امیر حکمران طبقات کے لیے غربت ایک ہزیمت بنی ہوئی ہے جو خلائی پروگرام، جدیدہتھیاروں، سپورٹس ٹائونز، شرح ترقی کے اعداد و شمار، فارمولا ون کے ریسنگ ٹریک اور بڑی عمارتوں کے ذریعے بھارت کو ایک ابھرتی ہوئی سپر پاور دکھانا چاہتے ہیں۔‘‘
تیس لاکھ خاندانوں، جو کل خاندانوں کی کل تعداد کا صرف 1.25 فیصد ہے، کے پاس ایک لاکھ ڈالر سے زائد انویسٹبل فنڈز کی موجودگی کو پھر اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ بھارت دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی فہرست میں شامل ہے۔ مودی نے شیخی بگھاری کہ بھارت کی شرح نمو 7.9 فیصد ہے جبکہ وہ یہ بات بھول گیا کہ غربت کے خاتمے کی شرح 0.8 فیصد ہے جس کا آبادی میں اضافے کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ منفی میں آتا ہے جو بیس سال پہلے بھی یہی تھا۔
حالیہ سالوں میں بھارت امریکہ کے قریب تر آگیا ہے اور نتیجتاً اس کی جیو پولیٹکل اور معاشی بالادستی کو قبول کر رہا ہے۔ امریکہ کی بھارت کی ایٹمی انڈسٹری کی منظوری اور اس کی ترویج (باوجود اس کے کہ بھارت نے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط نہیں کیا ہے) کے بدلے بھارت کی معیشت کو مغربی کمپنیوں، ایگری بزنس، دوا ساز کمپنیوں اور دوسرے کاروباروں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔عام طور پر یہ تاثر دیا جا تا ہے کہ برصغیر کی تقسیم نے پاکستان میں بنیاد پرستی اور رجعت کو پروان چڑھایا۔ یہ صرف آدھا سچ ہے۔ بٹوارے نے بھارت میں بھی رجعت کو پروان چڑھایا۔ بی جے پی کا ابھار اور مودی کا حکومت میں آجانا اس خوفناک حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ 15 اگست 1947ء کو نہرو نے دہلی میں کھڑے ہوکر مقدر کے ساتھ ملنے کی بات کی تھی، بھارت کو ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھنا تھا لیکن سب کچھ الٹا ہوگیا۔
آج کے بھارت کی سماجی اور ثقافتی اقدار، جو زیادہ تر وسیع پیٹی بورژوازی (مڈل کلاس) پر حاوی ہیں، ہوس زر، لالچ اور خود غرضی ہیں۔ شاپنگ اور صارفیت (کنزیومر ازم) بھارت کی مضطرب مڈل کلاس کی ترجیحات بنی ہوئی ہیں جب کہ آبادی کا وسیع حصہ معاشی سائیکل سے ہی باہر ہے۔ کارپوریٹ میڈیا مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وفادار ہر حکومت کی حمایت کرتا ہے اور ملک کے غریب ترین لوگوں کو 'اندرونی دشمن‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔
بھارت کی اپنی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ معدنیات سے بھرپور چھتیس گڑھ، اڑیسہ، جھارکھنڈاور آندراپردیش میں ہورہی ہیں جہاں ریاستی حکومتیں سامراجی کان کنی کی کمپنیوں کے ساتھ سینکڑوں معاہدے کر رہی ہیں۔ تین لاکھ سے زائد لوگوں کو زبردستی بے دخل کر دیا گیا ہے۔ مغربی اور بھارتی کارپوریٹ ٹولے اب بھارت کے نئے نوآبادیاتی آقا ہیں۔ مغربی دانشور اپنی کج نظری کی وجہ سے بھارت کو روحانیت، اخلاقیات اور روشن خیالی کی سرزمین کہتے ہیں جبکہ بیرونی سرمایہ داروں کے لیے یہ لوٹ مار اور محنت کشوں کے لئے محرومی کی سرزمین ہے۔
غریب ترین عوام پر جنگ مسلط کرنا ہو یا بیرونی حکومتوں یا کارپوریشنوں کے ساتھ مل کر لوٹ مار کرنا ہو، بھارت کی ہر حکومت نے محنت کشوں کو دھوکے دیئے ہیں۔ انہوں نے وال سٹریٹ اور دوسرے سرمایہ داروں کے ساتھ خفیہ معاہدے کئے ہیں جبکہ نسبتاً خوشحال مڈل کلاس کے سامنے آزادی اور خودمختاری کا ڈھونگ رچاتے ہیں جو اس پر یقین بھی کرتے ہیں اور ملک کے غریبوں پر ہونے والے جبر کو 'ضروری معاشی انفراسٹرکچر‘ حاصل کرنے کی قیمت قرار دیتے ہیں۔
آبادی کا 75 فیصد دو ڈالر سے کم یومیہ پر زندگی گزار رہا ہے، مغربی زرعی کمپنیوں کی وجہ سے دو لاکھ کسان خود کشی کرچکے ہیں اور ملک کے بڑے حصے پر فوجی قوانین لاگو ہیں۔ اس کے باوجود سیاست دان اور میڈیا بھارت کی سرمایہ داری کے معجزوں کی بات کرتے ہیں اور اسے جمہوریت کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ دھوکہ بازی اور منافقت بھارت کے حکمران ٹولوں کی سیاست اور ثقافت کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن اس سیارے کی آبادی کے پانچویں حصے کو استحصال اور سرمایہ دارانہ جبر کے تحت زیادہ دیر تک مجبور نہیں رکھا جاسکتا۔
بھارت کے کارپوریٹ سرمایہ دار طبقات نے ہندو بنیاد پرستوں کو اقتدار میں پہنچایا ہے۔ یہ حقیقت خود ''آزادی‘‘ کے بعد سماج پر مسلط ہونے والے حکمران طبقات کی رجعتی فطرت کی عکاس ہے۔ کانگریس اور اپوزیشن کی دوسری پارٹیوں کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ جمہوریت اور سیکولرازم کے نعروں میں محنت کشوں کے لئے کوئی کشش نہیں ہے۔بایاں بازواور کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت اب بھی انقلابی راستہ چننے سے کترا رہی ہے۔ لیکن جلد یا بدیر محنت کشوں کو بغاوت کرنا ہو گی۔ جس وقت بھارت کا محنت کش طبقہ اور پرولتاریہ جدوجہد کے میدان میں اترے گا، سب کچھ تبدیل ہوجائے گا۔ اگر کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت انقلابی سوشلزم کا لائحہ عمل دینے میں ناکام رہتی ہے تو تحریک نئے سیاسی مظاہر اور قیادت کو جنم دے گی۔