"DLK" (space) message & send to 7575

بھرے زخموں کا درد!

سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ایک رکن اسمبلی نے ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے فلور پر کراچی صوبہ بنانے کی تجویز پیش کردی ہے۔ اردو بولنے والی آبادی جن کو عمومی طور پر مہاجر کہا جاتا ہے‘ ہجرت کرکے کراچی میں بڑی تعداد میں آئے تھے۔ اسمبلی میں کراچی صوبے کی مانگ کا مطالبہ‘ ایسے لگتا تھا کہ اس رکن نے قیادت سے مشاورت کے بغیر دیا تھا۔ لیکن یہ تقریر اس پراگندگی اور نفسیاتی دبائو کی غمازی کرتی ہے، جس کا ایم کیو ایم خصوصاً اس کے اسمبلیوں کے ارکان شکار ہیں۔ ایک طرف تو ان ممبران پر پارٹی چھوڑنے اور مصطفی کمال کی سربراہی میں بنی یا بنوائی گئی پارٹی میں شمولیت کا شدید دبائو ہے اور دوسری جانب مختلف ریاستی اداروں سے ایم کیو ایم کے تعلقات کا بدلنا اور کہیں ان کا ٹوٹ جانا ‘اب ان کے لئے مشکلات اور مکافاتِ عمل کا باعث بنا ہوا ہے۔ ایم کیوایم کا ظہوراورچار دہائیوں تک مہاجر عوام (پاکستان کی تحریک کے پرجوش حصے جن کا تعلق اتر پردیش وغیرہ سے تھا)کی حمایت کی بنیادی وجہ‘ نئے ملک میں ہجرت کرنے والی آبادی کے سماج میں نہ سمو پانے اور پاکستان میں رہنے والوں کو ایک قوم نہ بنا پانے کی ناکامی سے متعلق دیگر مسائل رہے ہیں۔
دوسری جانب اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً ہر حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کراچی حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں میں بسنے والے مہاجر عوام کی بھاری اکثریت کے مسائل نہ صرف حل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ ان کے حالات زندگی ان چار دہائیوں کے عرصے میں بد تر ہی ہوتے چلے گئے ہیں ۔ لیکن آغاز میں‘ ضیاء الحق نے پاکستان میں محنت کشوں کی تحریک میں دراڑیں ڈالنے کے لیے مذہبی بنیاد پرستی ‘ فرقہ واریت کو استعمال کرنا شروع کیا۔ یہ کھلواڑ مذہبی عقائد اور مسلکوں تک محدود نہیں رہا بلکہ نسلی، قومی، ذات پات، لسانی تضادات اور تعصبات کو ایک منظم ریاستی مہم کے ذریعے ابھاراگیا۔ کراچی جیسے‘ پاکستانی مزدور طبقے کے گڑھ میں ان کی یکجہتی کو کاری ضرب لگا کر ایک طویل عرصے کے لیے اس کو توڑا دیاگیا۔ اگرہم 68-69ء کی انقلابی تحریک کے دوران ان شہروں کاجائزہ لیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ یہاں ان منافرتوں کو ایک طبقاتی کشمکش کے اُبھار نے کاٹ کر معاشرے سے صاف کردیا تھا۔ ان تمام تعصبات اور توہمات سے گھری نفسیات کو اس انقلابی ابھار نے کھرچ کر صاف دیا تھا۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کا بنیادی مقصد اس جڑت اور امیر اور غریب کی جنگ میں طبقاتی یکجہتی کو توڑنا ہی تھا۔ باقی سب سطحی اور اس واردات کے لیے کیے جانے والے طریقہ کار اور اوزار ہی تھے۔ لیکن اس کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں نے اقتدارکے لالچ میں ایم کیو ایم کو مخلوط حکومت کا حصہ بنانے کے لیے نہ صرف ان تعصبات کو قبول کیا بلکہ فرقہ واریت، لسانی اور قومیاتی بنیادوں پر ابھرنے والی ایم کیو ایم اور دوسری پارٹیوں کو پنپنے اور ان تعصبات کو بھڑکانے کی مکمل چھوٹ دی۔ ہر پارٹی کی حکومت سے ایم کیو ایم کا ٹکرائو بھی ہوا پھر یہ' اقتداری اتحادی‘ بھی بنتے رہے۔ اسی طرح امریکی سامراج اور ریاست نے مختلف پارٹیوں میں سرایت کرکے ان کی بدعنوان قیادتوں کو کہیں بلیک میل کرکے اور کہیں اقتدار کی لوٹ میں حصہ داری دلوا کر اس نظام زر کے استحصال اور محنت کشوں کے خلاف سرمائے کی پشت پناہی کے لیے استعمال کیا۔ قرضوں ‘منفی شرائط پر مبنی تجارت اور دوسرے ہتھکنڈے سے سامراجی استحصال جاری رہا۔ ملک لٹتا رہا اور حکمران کمیشن اور وسائل لوٹتے رہے۔ لیکن پھر جہاں سیاست میں سرمائے کا کاروبار ہو اور جس بحرانی معیشت میں کاروبار ٹیکس چور اور جرائم کے بغیر چل نہ سکتا ہو وہاں جرم سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جن پارٹیوں کا اس نظام زر پر حتمی انحصار اور قبولیت ہو ان کا جرائم میںملوث ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ایم کیو ایم بھلا اس کھلواڑ سے مبرا کیسے رہ سکتی تھی۔ آج وہ داستانیں یہی ادارے اور ذرائع ابلاغ منظر عام پر لا رہے ہیں جنہوں نے ایم کیو ایم کو ان وارداتوں میں تقویت‘ تحفظ اور رازداری فراہم کی تھی۔ لیکن اگر آج ایم کیو ایم اپنی اس مصنوعی طاقت کے زعم میں ان کے کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے اور اس کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس کی ضرورت ہی ختم ہوچکی ہے۔ اس قسم کی حاکمیت کو ایسی لسانی لڑائیوں اور قوم پرست طاقتوں کی سیاسی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب' پاک سر زمین پارٹی ‘کو وہی کردار ادا کرنے کے لیے استوار کیا جارہا ہے‘ جس کے لئے ایم کیو ایم کو بنایا اور پروان چڑھایا گیا تھا۔ لیکن ریاستی جبر سے نہ تو جرم اور خلفشار ختم ہوسکتے ہیں اور نہ ہی وہ وجوہ ختم ہوسکتی ہے جو ان بحرانوں کا موجب بنتی ہیں۔ لیکن جب حکمران ایک ایسے نظام کے تحت حاکمیت، دولت، مراعات اور وسائل اکٹھے کر رہے ہوں جو خود اقتصادی اور تاریخی طور پر متروک ہوچکا ہو تو وہ اس کو بدلتے نہیں، اس کو مختلف تعصبات، چال بازیوں اور دھونس سے مسلط رکھتے ہیں۔ لوٹ مار اور استحصال کا تسلسل بھی جاری رہتا ہے اور جبر میں بھی مسلسل اضافہ جاری رہتا ہے۔ لیکن ایسے اقتدار، ریاست اور نظام کے تجزیہ کار اور ماہرین بھی اس کیفیت میں کند ہو جاتے ہیں، جب ان کا نظام ہی بوسیدہ اور گل سڑ جاتا ہے۔ وہ مرض کی جب درست تشخیص ہی نہیں کرسکتے ہیں اور پھر علاج کے کیا معنی ؟
ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین ہوں یا پاکستان میں پہلے سے بسنے والی قومیتیں‘ ان میں ایک احساس محرومی مسلسل چلا آرہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی 'قوم‘ جس کا اتنا شور مچایا جا رہا ہے‘ وہاں تشخص کا مسئلہ 70 سال بعد ایک زخم بن کر سلگ رہا ہے۔ یہ معاشرہ مہاجرین کو اندر کیوں نہیں سمو سکا اور مختلف قومیتوں کو ایک قوم میں یکجا کیوں نہیں کیا جاسکا؟ پہلے تو ایسے سوالات ہی بعض اوقات جرم بن جاتے ہیں، لیکن ان سوالات کو نظر انداز یا مسترد کرنا تو مسائل کا حل نہیں؟ جہاں مہاجرین میں ایک بیگانگی پائی جاتی ہے، وہاں سندھیوں میں احساس محرومی کیا کم ہے؟ بلوچستان اور پختونخوا میں قومی جبر اور محرومی کا احساس کیونکر ہے؟ کشمیر میں مسئلہ اور زیادہ پیچیدہ ہے لیکن اس کو پس پشت ڈال دینے سے یہ مسئلہ کہیں ختم تو نہیں ہوجائے گا۔ 
پنجاب کا جو 1947ء کا بٹوارہ ہوا، لاکھوں کا لہو بہا، کروڑوں کو بے گھر ہوکر خود کو سنگین حالات کے رحم وکرم پر چھوڑنا پڑا، ستر سال بعد یہاں بھی سارے زخم بھرے ہیں نہ ہی اذیت ختم نہیں ہوسکی۔ لیکن اس قومی مسئلہ اور اس سے ابھرنے والی محرومی، منافرتوں ‘ تعصبات ، الزام تراشی اورشکایات کو بعض اوقات حکمران خود اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس زخم کا علاج کرنے میں یہ حکمران اور ان کا نظام اس لیے ناکام ہے کیونکہ یہاں قومی اور علاقائی بنیادوں پر مساوی اور خوشحالی دینے والی ترقی نہیں ہوسکی ہے۔ ایک طرف امیر اور غریب میں تفریق اور خلیج مسلسل بڑھتی ہی گئی ہے، اب مزید شدت سے یہ اذیت ناک ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دوسری جانب جہاں طبقاتی بنیادوں پر محرومی ہے وہاں مختلف خطوں ، قومیتوں اور علاقوں کے درمیان معیار زندگی اور سماجی حالات میں بھی فرق بہت بڑھ گیا ہے۔ لیکن کوئی ایسی قومیت اور خطہ یا صوبہ نہیں جہاں غریب اور محنت کش کا استحصال نہ بڑھ رہا ہو۔ حکمران کئی مرتبہ کراچی اور حیدر آباد جیسے شہروں میں ایم کیو ایم جیسی لسانی اور قوم پرست طاقتوں کو استعمال کرکے محنت کشوں کو آپس میں لڑواتے ہیں۔اس محرومی کی آگ اور نفرت کو اپنے ہی( طبقے کے) خلاف استعمال کرواتے ہیں۔اس میں لوٹ مار ،جرم اور مافیا کی طرزکی استواری کے لئے درمیانے طبقات کو بھی ملوث کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا معاشی نظام یہاں مساوی ترقی دینے میں ناکام ہے۔ عام حالات میں یہ نسلی، فرقہ وارانہ اور مذہبی وقومی تضادات کو ابھارتا ہے۔ اس سے تصادم اور خونریزی بڑھتی ہے، لیکن جب اسی مسئلہ کے خلاف طبقاتی بنیادپر تحریک ابھرتی ہے تو پھر خونریزی اور انارکی نہیں ہوتی، انقلابات جنم لیتے ہیں۔ یہاں ظاہری طور پر زخم‘ میڈیا نے بھرا ہوا ظاہر کیا ہوا ہے، لیکن معاشرہ ان زخموں سے کراہ رہا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ان پرانے زخموں کا کوئی علاج نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں