"DLK" (space) message & send to 7575

یہ محرومی انسانیت کا مقدر نہیں!

کارپوریٹ میڈیا کے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے چین، ہندوستان اور دوسرے خطوں میں لاکھوں افراد کو غربت سے نکلتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ درحقیقت معاملات اس سے کہیں زیادہ دردناک اور تاریک ہیں۔ کرہ ارض پر براجمان موجودہ منڈی کی معیشت کو خاص طور پر ترقی پذیر ممالک پر ایک قطعی غلبہ حاصل ہے۔ نسل انسانی پر یہ جبر وقت کے گزرنے اور عالمی سطح پر سرمایہ داری کے بحران کے بڑھنے کے ساتھ مزید شدید ہو گیا ہے۔ کوئی بھی غریب یا امیر ملک سرمایہ دارانہ حکومتوں کے معاشی حملوں سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ان حملوں کے سیاسی روپ تو بظاہر مختلف ہیں لیکن بنیادی طور پر اسی ظالمانہ معاشی نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جو کروڑوں لوگوں کو محرومی اور بربادی کی دلدل میں ڈبو رہے ہیں۔ تمام تر حکومتیں‘ چاہے وہ مذہبی بنیاد پرست ہوں یا سیکولر اور لبرل اسی سرمایہ دارانہ معاشی نظام پر یقین رکھتی ہیں جس نے انسانی زندگی کو ایک عذاب مسلسل میں تبدیل کر دیا ہے۔ 'گلوبل ایشوز‘ کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار انتہائی کربناک اور اذیت ناک ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی آدھی آبادی (تین ارب سے زائد) روزانہ 2.5 ڈالر سے کم پر زندگی گزار رہی ہے۔ باقی آبادی کا 80 فیصد یومیہ 10 ڈالر سے کم پر زندگی گزار رہا ہے۔ دنیا کی غریب ترین 50 فیصد آبادی کے پاس عالمی دولت کا صرف 5 فیصد ہے۔ امیر ترین 10 فیصد کے پاس دنیا کی تین چوتھائی دولت ہے۔ پچھلے سال دنیا (کی منڈیوں میںدولت کی گردش کی وجہ بننے والے سرمائے) میں 76.6 فیصد نجی کھپت امیر ترین 20 فیصد نے کی۔ آبادی کے غریب ترین پانچویں حصے کی کھپت محض 1.5 فیصد تھی۔ مقروض ترین 41 غریب ممالک (مجموعی آبادی 567 ملین) کی جی ڈی پی سات امیر ترین افراد کی مجموعی دولت سے بھی کم ہیں۔ ترقی 
پذیر ممالک ہر ایک ڈالر کے قرض کے بدلے 25 ڈالر سود ادا کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں قرضوں کی دوبارہ ادائیگی کے لیے پیسہ براہ راست عوام کے جیبوں سے ہی نکالا جاتا ہے جنہوں نے نہ تو یہ معاہدے کیے تھے اور نہ انہیں یہ قرضے ملے۔ 'یونیسیف‘ کے مطابق ہر دن 22000 بچے غربت کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ تقریباً اٹھارہ لاکھ بچے ہر دن 'ہیضہ‘ کا شکار ہوتے ہیں۔ ہر سال 350 سے 500 ملین افراد 'ملیریا‘ میں مبتلاہو جاتے ہیں جن میں سے ایک ملین مر جاتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں تقریباً 28 فیصد بچے وزن کی کمی کی وجہ سے پوری نشوونما سے محروم رہتے ہیں۔ ان بچوں کی اکثریت جنوبی ایشیا اور سب صحارا افریقہ میں ہے۔ ہر سال 1.4 ملین افراد صاف پانی کی عدم دستیابی اور نکاسی آب کی مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ہرسال بائیس لاکھ بچے اس وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں کہ ان کو حفاظتی ٹھیکے نہیں لگائے جاتے۔ ترقی پذیر ممالک میں 72 ملین بچے سکول نہیں جا سکتے جن میں 57 فیصد بچیاں ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر ایک ارب انسان کتاب نہیں پڑھ سکتے تھے یا اپنا نام نہیں لکھ سکتے تھے۔ سامراجی اور سرمایہ دارانہ ریاستیں جتنا ہر سال جنگوں اور اسلحے پر خرچ کرتے ہیں اس کا اگر ایک فیصد بھی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو ہر بچہ سکول جا سکتا ہے۔ غربت اور نابرابری پر ہونے والی حالیہ تحقیقات کے کچھ اعداد و شمار مندرجہ ذیل ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں تقریباً 2.6ارب لوگ حفظان صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ صاف پانی سے محروم تقریباً تین میں سے دو افراد یومیہ 
دو ڈالر سے کم پر گزارہ کرتے ہیں اور تین میں سے ایک یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم پر گزارہ کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے دو ارب بچوں میں سے 640 ملین کے پاس مناسب رہائش نہیں ہے یعنی ہر تین میں سے ایک۔ اسی طرح 400 ملین یا ہر پانچ میں سے ایک کو صاف پانی میسر نہیں اور 270 ملین کو صحت کی کسی طرح کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ یومیہ ایک ڈالر سے کم پر گزارہ کرنے والے ہر چار میں سے تین افراد 'دیہی‘ علاقوں میں رہتے ہیں اور دنیا کی آبادی کا یہی تناسب ناقص غذا کے شکار ہے۔ لیکن شہروں کے بڑھنے سے انسانی زندگی میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں آئی۔ شہروں میں کچی آبادیوں کے پھیلنے کی رفتار شہروں کے پھیلائو کی رفتار سے زیادہ ہے۔ دنیا کی آبادی کا آدھا حصہ اب شہروں اور قصبوں میں رہتا ہے۔ شہروں میں بسنے والے ہر تین افراد میں دو کچی یا نیم کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ اعداد و شمار ترقی پذیر ممالک کی اوسط سے بھی نیچے ہیں۔ صرف سماجی اور معاشی اشاریے ہی نہیں بلکہ جنگیں اور تنازعات بھی سماجوں کو برباد کر رہے ہیں اور ریاستیں بدترین انداز میں انتشار اور خونیں تصادم میں منہدم ہو رہی ہیں۔ آج دنیا میں تاریخ کے کسی بھی دور کی نسبت انسانوں کی سب 
سے بڑی آبادی مہاجر اور پناہ گزین بن چکی ہے۔ اسی طرح ان تنازعات میں بچوں، خواتین اور بوڑھوں کی بڑی تعداد تیزی سے جنگوں کا شکار بن رہی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے آغاز کو لینن نے اپنی کتاب میں ''سامراجیت، سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ کہا تھا، کہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان ایک بڑھتی ہوئی خلیج موجود ہے‘ لیکن نوآبادیاتی دور کے بعد کے عرصے میں عالمی تقسیمِ محنت، عالمی منڈی، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کی جانب سے غریب ممالک کو قرضوں اور سود کے جال میں پھنسا کر سامراجی لوٹ مار میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ان غریب اور ترقی پذیر ممالک میں بھی امیر اور غریب کا فرق موجود ہے جو محنت کشوں اور غریبوں کو مزید محرومی میں دھکیل رہی ہے۔ ان ممالک میں کچھ ایسے حکمران اور اشرافیہ کے لوگ بھی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے امیر افراد سے بھی زیادہ امیر ہیں۔ آج چین میں امریکہ سے زیادہ ارب پتی ہیں اور ہندوستان میں جاپان سے زیادہ ارب پتی افراد موجود ہیں۔ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ امیر ممالک اور غریب ممالک دونوں میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج اور عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ اس نظام کے اندر یہ عمل رک نہیں سکتا۔ اگر ہم عوام کے معیار زندگی میں اس انہدام کی وجوہ کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں یہ نظر آئے گا کہ اس کی بنیادی وجہ شرح منافع میں کمی، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور اس کے برخلاف آج کی سرمایہ داری اور گلوبلائزیشن کے گہرے ہوتے ہوئے بحران اور عام محنت کشوں کی قوت خرید میں کمی ہے۔ اسی طرح اگر ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت کو دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ پیداواری صلاحیت سے کہیں کم پیمانے پر پیداوار لی جا رہی ہے۔ پیداوار کو روکنے کی صرف یہی ایک وجہ ہے کہ شرح منافع کو کم ہونے سے روکا جائے۔ حکمران سرمایہ دار طبقات اور سامراجی کارپوریٹ مالکان ان اجناس کی پیداوار کی اجازت نہیں دیتے۔ مینوفیکچرنگ، خدمات، زراعت اور صنعت کے دوسرے شعبوں میں پیداوار کا مقصد شرح منافع میں مستقل اضافہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں منافع کی ہوس اور امیر طبقات کی امارت کی لالچ اب سماج کے ارتقا اور ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ کیوں سرمایہ داری اب معاشی اور تاریخی طور پر متروک نظام ہے۔ یہ خوفناک نابرابری اور محرومی نہ صرف محنت کش طبقات کے لیے سماجی اور معاشی بربادی لاتی ہے بلکہ یہ سماج میں عدم استحکام اور تشدد کو پروان چڑھاتی ہے۔ تمام تر براعظموں میں انتشار کی یہی وجہ ہے۔ اس سیارے کا بڑا حصہ خونیں تصادموں میں گھرا ہوا ہے جو انسانی سماج کو تاراج کر رہے ہیں اور بہت سے خطوں میں' بربریت‘ کے عناصر سامنے آ چکے ہیں۔ انسانیت کی بقا کے لیے موجودہ نظام زر کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ یہ نظام انسانی تہذیب کے لیے ایک خطرہ ہے۔ جب نجی ملکیت اور منافع کی زنجیریں ٹوٹ جائیں تو ٹیکنالوجی اور ذرائع پیداوار کو ان کی پوری صلاحیتوں کے ساتھ استعمال کیا جا سکے گا۔ اس سے تھوڑے ہی عرصے میں اجناس کی اتنی افراط ہوگی کہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہو سکے گی۔ یہ کوئی خواب نہیں ہے بلکہ دیوہیکل کارپوریشنوں کے اپنے اعداد و شمار اس پیداواری صلاحیت کے امکان کو ثابت کرتے ہیں۔ محرومی اور ضروریات کے خاتمے کے تاریخی مقصد کو حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ منافع پر مبنی معاشی اور سماجی نظام کو تبدیل کرکے ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھی جائے جہاں پیداوار اور خدمات کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل ہو جو صرف اور صرف سوشلزم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں