جنوب ایشیائی برصغیر میں سال 2016ء کے حوصلہ افزا واقعات اور حقیقی تحریکوں میں ہندوستان میں ہونے والی 2 ستمبر کی تاریخی عام ہڑتال اہم تھی‘ جس میں اٹھارہ کروڑ محنت کشوں نے پورے ملک کو جام کرکے رکھ دیا تھا۔ اسی طرح پاکستان میں فروری میں قومی ایئر لائن کی ہڑتال نے ایئرلائن کو جام کر دیا تھا‘ جس نے محنت کشوں کی تحریک کی طاقت کو واضح کیا۔ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت کے خلاف طلبہ کی بغاوت نے ایک دفعہ پھر طلبہ کی جد وجہد کی طاقت کو واضح کیا۔ لیکن سب سے طاقتور اور اہم کشمیری نوجوانوں کی وہ تحریک تھی جس نے دیوہیکل ہندوستانی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا‘ اور ہمسایہ ریاستوں کے طاقت کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے جس خطے کو سات دہائیوں تک مسلسل جبر، قبضے اور عوامی بغاوتوں کا سامنا رہا ہے، وہ بلاشبہ کشمیر ہے۔ ایک طرف اس طویل تنازعے میں بھارتی اور خطے کی دوسری ریاستوں کا جبر مسلسل بڑھا ہے تو دوسری طرف نسل در نسل محکوم کشمیری عوام نے اس جبر کے خلاف جد وجہد اور مزاحمت جاری رکھی ہے۔ 2016ء میں یہ جدوجہد اپنی نئی بلندیوں پر جا پہنچی۔ اس عوامی بغاوت کی تپش اتنی زیادہ تھی کہ کارپوریٹ میڈیا بھی اس کو چھپا نہیں سکا اور خطے کی رجعتی ریاستوں کا ننگا جبر مکمل طور پر عیاں ہو گیا۔
کشمیر میں تحریک کا احیا‘ جو 8 جولائی 2016ء سے شروع ہوا تھا، سامراجی قبضے کے خلاف اس تحریک کی تاریخ کی سب سے حوصلہ افزا اور شاندار بغاوت تھی۔ تقریباً چھ مہینے کے بعد آج بھی بغاوت کے شعلے مسلسل بھڑک رہے ہیں۔ اس تحریک کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ پانچ لاکھ سے زائد ہندوستانی فوج کے حامل دنیا کی سب سے زیادہ ملٹرائزڈ علاقے میں نوجوانوں نے موت کے خوف کو فتح کر لیا ہے۔ تحریک کی اس تپش میں انہوں نے عوامی احتجاج کی طاقت کو محسوس کیا اور ان کے دلوں اور روحوں میں آزادی کے ایک نئے احساس نے جنم لیا۔ موت کا خوف انہیں اب ڈرا نہیں سکتا اور جب یہ خوف ختم ہو جائے تو دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوج بھی کچھ نہیں کر سکتی۔
دہائیوں کے فوجی تسلط کے بعد ہندوستانی ریاست کو جس چیز کا ڈر تھا وہی ہوا۔ اسے اب ایک ایسے جرأت مندانہ اور پُرجوش عوامی احتجاج کا سامنا ہے‘ جسے کچلنے کے لیے اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں۔ کشمیر ی عوام، جنہیں سالوں سے اس جبر کا سامنا ہے جس میں ہزاروں لوگ قتل، 'غائب‘ ریپ کا شکار اور زخمی ہوئے، اب ایک عوامی بغاوت میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس طرح کی بغاوت کو کسی بھی طرح روکا یا ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس طویل عرصے میں ہندوستانی ریاست نے ہر طریقے سے کوشش کی کہ کشمیری عوام کی آزادی کی تحریک کو کمزور، بدنام، خوفزدہ یا پُرتشدد طریقے سے کچل دے۔ بھارت کے حکمرانوں نے اپنے تسلط اور غلبے کا خوب پرچار کیا اور کشمیر کی فتح کا اعلان بھی کئی بار کیا۔ لیکن بندوق کی نوک پر فوجی تسلط کے ذریعے 'معمول‘ کے حالات ہمیشہ سے ہی کمزور اور عارضی تھے۔ کشمیر میں جمود کے ان ادوار کو ریاستی آقائوں نے کشمیری عوام کی رضامندی سے تعبیر کیا اور ان کے فرماں بردار میڈیا نے اسے فرمانبرداری قرار دیا۔ لیکن یہ سب سراب اور خوش فہمی ہی ثابت ہوا۔
علیحدگی پسند اور دوسری مقامی قیادتوں کو اب ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس میں ایسا لگتا ہے کہ بجائے نوجوان اور عوام اس کے نقش قدم پر چلیں، تحریک ان کو آگے کی جانب دھکیل رہی ہے۔ سید علی شاہ گیلانی نے جب ایک عوامی ریلی میں اعلان کیا کہ وہ اس تحریک کے واحد لیڈر ہیں تو انہیں عوام کی طرف سے ایسے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا کہ فوراً ہی اپنا بیان واپس لے لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر کی حالیہ تحریک نے ہندوستان کے حکمران طبقات کے لیے اس پرانے حربے کا استعمال بالکل ناممکن بنا دیا ہے کہ کشمیر میں ہر عوامی بغاوت کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے یا دہشت گرد لوگوں کو 'تحریک‘ میں زبردستی جانے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن 1930ء کی دہائی سے لے کر آج تک یہ سوال موجود ہے کہ کون اس تحریک کی حقیقی قیادت ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ اس پر شدید تنازع ہے۔ شیخ عبداللہ سے لے کر مسلم کانفرنس، مین سٹریم سیاسی پارٹیاں یا حریت کانفرنس۔ تاہم اس بار یہ چیز بالکل واضح ہو چکی ہے کہ عوام ہی تمام تر عوامل پر غلبہ رکھتے ہیں اور بالآخر خود اس تحریک کی کوکھ سے ہی حقیقی قیادت تخلیق ہو گی۔ مزید برآں یہ کہ مصنوعی اور مسلط کردہ رہنمائوں کی کوئی عوامی بنیاد نہیں ہے۔
ماضی میں متعدد عوامی بغاوتیں ہوئیں‘ لیکن ان میں سے کوئی بھی اتنی طویل اور وسیع نہیں تھی۔ کشمیر کی مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کی قیادت خوشی سے نئی دہلی کے ٹی وی سٹوڈیوز میں بحث مباحثوں میں شریک ہوتی ہے لیکن ان میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ کشمیر کی گلیوں میں آئے۔ اپنی طوالت اور جوش و جذبے سے اس تحریک نے ہندوستان کے ریاستی جبر کے کھوکھلے پن کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ پولیس کے سامنے دو ہی راستے تھے، یا تو وہ تحریک کے راستے سے ہٹ جاتے یا قتل عام کرتے۔ وہ راستے سے ہٹ گئے۔ مسلح افواج اور عوامی مظاہروں کے درمیان ٹکرائو کے کئی واقعات میں ایک گولی بھی نہیں چلی۔
اس حالیہ تحریک کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس نے بانی رہنمائوں کے نظریات کو بحال کر دیا۔ مقبول بٹ، جو کشمیر کی تحریک آزادی کا ایک تاریخی نام ہے، کو جابر ہندوستانی ریاست نے تہاڑ جیل نئی دہلی میں پھانسی دے دی تھی۔ مقبول بٹ نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو سرمایہ داری کے خاتمے اور رجعتی قوتوں کے خلاف لڑائی سے جوڑا تھا۔ آج کا نوجوان اس جدوجہد کو غربت کے خاتمے اور صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات، پانی، بجلی، نکاسی آب اور سب سے بڑھ کر روزگار کی فراہمی سے جوڑ رہا ہے۔ فی الوقت عمومی تاثر یہ ہے کہ تمام تر مسائل کی جڑ ہندوستانی تسلط ہے، اس لیے آزادی لازم ہے۔
کشمیر کی تحریک خطے کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ اسی بات نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ کشمیریوں کو برصغیر کے محنت کشوں اور محکوموں کی حمایت کی ضرورت ہے۔ برصغیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا یہ تاریخی فریضہ ہے کہ وہ کشمیری عوام پر جبر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ بورژوا ریاستوں کے قبضوں، استحصال اور وحشت کو ختم کرکے ایک انقلابی فتح صرف طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوکر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔