"DLK" (space) message & send to 7575

انحراف کا انجام!

سنا ہے کہ پیپلز پارٹی بلکہ دونوں پیپلز پارٹیوں (پارلیمانی اور سادہ برانڈ) کے اندرونی انتخابات بھی ہوئے ہیں۔ یہ انتخابات اتنی خفیہ کارروائی کے ذریعے کیے یا کروائے گئے کہ ان کی بھنک تک بھی پارٹی کے ششدر کارکنان تک نہیں پہنچی۔ انہیں پچھلے 40 سال کی طرح پارٹی کے عہدے داروں کے فیصلوں اور نتائج کا علم میڈیا کے ذریعے ہی ہوا ہے۔ ایسے ''انتخابات‘‘ پر بھلا کون اعتبار کرے گا؟ وہ نامہ نگار یا نمائندگان جو میڈیا کے سامنے ان کے ''نتائج‘‘ کا اعلان بھی کر رہے ہوں گے ان کا خود ان پر کتنا یقین ہو گا؟ ان کے ضمیر کی ابتری کی انتہا کیا ہو گی؟ لیکن جن پارٹی کارکنان نے نئے عہدیداروں کی خبریں سنیں وہ اس سارے کھلواڑ سے اگر گھن نہیںکھائیں گے تو کیا کریں گے؟ اس سے پارٹی کی ساکھ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ساکھ پہلے ہی کتنی بچی ہے! پنجاب اور دوسرے علاقوں میں پارٹی کی اس ساکھ کی نام نہاد بحالی کی بھی اصلیت ظاہر ہو گئی ہے۔ نظاموں سے لڑنا تو درکنار یہ تو نواز شریف کی نحیف اور کھوکھلی حکومت کی مزاحمت سے بھی فرار اختیار کر رہے ہیں۔ اگر سیاسی گھاگ ہونے سے یہ مراد ہے اور یہی جوڑ توڑ کی سیاست کہلاتی ہے تو پھر اس سیاست کا کردار کتنا گھنائونا ہے؟ جب پارٹیوں میں ایسے عہدیدار مسلط کیے جائیں جو اعلیٰ قیادت کی وقتی پسند پر پورے اترتے ہوں تو پھر پارٹیاں نہیں‘ قیادتوں کی پیروکاری ہی باقی رہ جاتی ہے۔ جب قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کاسہ لیسی کا مقابلہ بازی کا تماشا لگا ہو تو پھر عوام کہاں؟ پارٹی کے نظریات کیا؟ اور مقاصد کون سے رہ جاتے ہیں؟ پیپلز پارٹی 1967ء کے جنم کے وقت کوئی بالشویک لیننسٹ پارٹی نہ سہی لیکن انقلابی سوشلزم کے نام لیوا ایک انقلابی جذبے کو عوام میں سرشار کرنے اور اس نظام کو تبدیل کرنے کا سندیسہ دینے والی پارٹی ضرور بن گئی تھی۔ کم از کم عوام میں یہی تاثر بنا تھا۔ آج اگر ہم پارٹی کی کیفیت کا جائزہ لیں تو اس میں1967ء والی پارٹی کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ زرداری صاحب کی حالیہ تشریف آوری سے پیشتر بلاول کو ابھارتے ہوئے چند لیڈروں نے پارٹی کی انتہائی گری ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے کافی ہاتھ پائوں مارے تھے، لیکن ان چند ماہ میں بھی سوشلزم اور انقلاب کا واضح پروگرام اور پیغام دینے سے بلاول گریزاں ہی رہے۔ صرف نواز شریف کے خلاف نعرے بازی اور قومی شائونزم سے عوام میں کوئی نیا جذبہ اور بغاوت کی شورش پیدا نہیں کی جا سکتی‘ لیکن زرداری صاحب نے آتے ہی پارلیمنٹ اور جمہوریت کا پھر سے نیا تماشا شروع کر دیا ہے۔ لوگوں نے سڑکوں پر کیا آنا تھا، لیکن زرداری صاحب نے پھر بھی اس خوف سے کہ کہیں واقعی عوام باہر ہی نہ نکل پڑیں‘ ساری سیاست پارلیمنٹ کے سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے ایوان کی آسائش میں آرام کرنے کے لیے بِٹھا دی۔ انقلابی سوشلزم سے پارٹی قیادت اتنی خوفزدہ ہے کہ اس کو ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں عوام اس راستے پر باہر ہی نکل آئیں۔ ایسے میں جوڑ توڑ کی سیاست کو تحریکیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہیں۔ کئی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ قیادت والے کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں۔ ان کو اور ان کے حواریوں کو اتنا بھی احساس نہیں کہ یہاں کی مخلوق اس جمہوریت سے کتنی تنگ ہے جس نے اسے مفلسی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ وہ اس ادارے سے حقارت رکھتے ہیں جس میں حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی بے معنی نورا کشتی چلتی ہے اور عوام کے دکھوں کا ذکر بھی محض تقاریر میں اپنے منجھے ہوئے مقرر ہونے کی نمائش کے طور پر ہی کیا جاتا ہے۔ تضادات سے عوام کس حد تک بیزار ہیں اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کسی روز یہ جرنیلوں سے اکڑتے ہیں، ان کے حواری صفائیاں دیتے ہیں اور پھر یہی لیڈر کچھ عرصے بعد آ کر اسی فوج کی عظمت کے گیت گاتے نہیں تھکتے۔ عوام کیا اتنے ہی کند ذہن اور پست دماغ ہیں؟ یہ شاید عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں جن کو کسی سمت بھی ہانکا جا سکتا ہے۔ انہیں شاید جلد ہی عوام اپنی ذہانت اور جرأت کی جھلک دکھلائیں گے۔ 
زرداری صاحب اور پیپلز پارٹی کی دوسری اعلیٰ قیادت پر کرپشن کے الزامات درحقیقت ان کے لیے مفید ہیں‘ کیونکہ کرپشن کے الزامات کی بوچھاڑ میں ان کے اصل معاملات اور پارٹی کی بنیادوں سے نظریاتی انحراف اوجھل سے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کس نے کتنی اور کس طرح کی کرپشن کی! جس نظام زر میں معیشت اور معاشرت کی بنیاد ہی کرپشن پر ہے اس کی سیاست بھلا کیسے کرپشن سے مبرا ہو سکتی ہے؟ پارٹی کی بنیادی سوچ اور نظریات طبقاتی کشمکش کے ناقابل مصالحت کردار پر مبنی تھے۔ پارٹی پر سب سے بڑا وار اس نظریے پر ''مصلحت انگیزی‘‘ یا ''ری کنسیلی ایشن‘‘ کی پالیسی کے ذریعے کیا گیا‘ جس میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی سیاست سے نہ صرف مصالحت کی گئی بلکہ اس کی حمایت کرتے ہوئے ان رجعتی بالادست طبقات کو پارٹی کی بالاتر قیادت پر مسلط کر دیا گیا۔ نیشنلائزیشن کی جگہ پرائیویٹائزیشن‘ انقلاب کی جگہ اصلاحات‘ سوشلزم کی جگہ لبرل ازم‘ محنت کی جمہوریت کی جگہ دولت کی جمہوریت‘ عوام کی پنچایتوں کی جگہ بورژوا پارلیمنٹ اور منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی جگہ انسان دشمن منڈی کی معیشت کی جانب پارٹی کو الٹا کر دینا‘ ان کا وہ تاریخی ارتکاب ہے جس نے ان کو محنت کش عوام کی نظروں میں گرا دیا ہے اور پارٹی کی حالت زار ہمارے سامنے ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی کی صرف بنیادی دستاویزات میں سوشلزم اور طبقاتی کشمکش کا ناقابلِ مصالحت پروگرام ہی پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ 1968-69ء کی تحریک، 1971ء میں پاکستان کے ٹوٹنے کا تجربہ اور پیپلز پارٹی کی دسمبر1971ء سے جولائی1977ء تک کی حکومت کے تجربات اور آمریت کے اسباق پر ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں موت کی کال کوٹھری میں جو نتائج اخذ کیے‘ اور مستقبل میں نجات کا راستہ اختیار کرنے کی پارٹی اور عوام کو جو وصیت کی‘ وہ بھی اسی طبقاتی کشمکش کو ناقابلِ مصالحت جدوجہد اور عوام کی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے نجات کا ہی پیغام تھا۔ لیکن بھٹو کو کون جانتا ہے! اس کی دھندلی پُرکشش یادوںکو اس کی تصویروں کو بینرر پر لگا کر مزید دولت اور طاقت کی ہوس کو بجھانے کے لیے ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 40 سال سے پیپلز پارٹی کی قیادت بھٹو کے بنیادی منشور اور جیل میں ان کی آخری تصنیف کی ہدایات کے یکسر الٹ اور دشمن پالیسیاں ہی اپنائے جا رہی ہے اور بھٹو کے رومانس کو پوری طرح استعمال بھی کرتی چلی جا رہی ہے۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کھلواڑ اب دم توڑ رہا ہے اس کے موثر ہونے اور حمایت حاصل کرنے کی صلاحیت تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ موجودہ سیاست میں تمام سیاسی پارٹیاں اب اسی نظام زر کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ یہاں دوسری سیاسی لڑائیوں کی طرح قدامتی پرستی اور لبرل ازم کی لڑائی کافی سطحی اس لیے بن جاتی ہے کہ ان متحارب رجحانات کی اقتصادی بنیاد تو ایک ہی ہوتی ہے۔ ایسے میں سیکولرازم اور لبرازم میں سے سامراجی گماشتگی کی جب بدبو آتی ہے تو وہ متعفن ہو جاتا ہے۔ انتہا پسندی اس قسم کے سیکولرازم سے کمزور ہونے کی بجائے مضبوط ہوتا ہے۔ اگر رجعتیت کی وحشت معاشرے کو تاراج کر رہی ہے تو اس کو سامراجی حمایت سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آخر وہ انہی کی تو پیداوار ہے۔ پیپلز پارٹی اسی ریاست اور سامراج کے ذریعے اقتدار کی متمنی بن چکی ہے۔ قیادت نے پارٹی کو سرمائے کی سیاست کے راستے پر دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں پارٹی کے سرمایہ داروں‘ نودولتیوں اور دوسرے فنانسرز کی دولت پارٹی کے فیصلے کرتی ہے۔ محنت کش عوام کو اپنے مقاصد کے حصول اور ذلتوں کی زندگی سے نجات کے لیے ایک 1967ء سے بھی زیادہ ریڈیکل سوشلزم والی پیپلز پارٹی درکار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں