"DLK" (space) message & send to 7575

بھارتی دفاعی بجٹ میں اضافہ اور غربت

پوری دنیا میں سیاسی اشرافیہ کی عسکریت پسندانہ سوچ دو ہزار سال پہلے کے قدیم روم کے جرنیلوں سے شاید ہی آگے بڑھ پائی ہے۔ اس وقت کی رومی افسر شاہی کے ایک اہلکار وگیٹیس (Vegetius) نے لاطینی زبان میں ایک مقالہ پیش کیا تھا‘ جو قرونِِ وسطیٰ اور نشاۃ ثانیہ کے وقتوں کی جنگی مہمات میں خوب استعمال ہوتا رہا۔ وگیٹیس نے کہا تھا، ''امن کی خواہش کرنے والوں کو جنگ کے لئے تیار رہنا چاہئے‘‘۔ اس کہاوت کو آج کے عہد میں سیاست کاروں، دانشوروں اور فوجی قیادتوں نے تھوڑے رد و بدل کے ساتھ یوں کر دیا ہے: ''اگر امن چاہئے تو جنگ کی تیاری کرو‘‘۔
یہ جارحانہ عسکری کہاوت درحقیقت داخلی تضادات کو خارجہ دشمنی کی پالیسیوں کے ذریعے دبانے اور محکوم عوام کے شعور کو جنگی جنون کے ذریعے مسخ کرنے کی واردات کے سوا کچھ نہیں‘ لیکن اس طرح کے جنگی جنون اور عسکریت کی پالیسیوں کی پیچھے سب سے بڑھ کر سامراجی اشرافیہ کی وسیع لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کارفرما ہے۔ لینن نے پہلی عالمی جنگ کی بربریت کے تناظر میں کہا تھا، ''جنگیں خوفناک ہوتی ہیں، لیکن وہ خوفناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہیں‘‘۔ آج حکمران طبقات کے لئے ایک کھلی قومی جنگ کرنا تو ممکن نہیں‘ لیکن انہوں نے ہر کچھ عرصے بعد جنگی کیفیت پیدا کرنے اور جنگ کے کسی سنجیدہ امکان کے بغیر بھی جنگی جنون ابھارنے کے فن کو خوب پروان چڑھایا ہے۔ 
بدھ کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کے وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی نے آنے والے مالی سال کے لئے ہندوستان کے 'دفاعی بجٹ‘ میں دس فیصد سے زائد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ پچھلے مالی سال کے 2490 ہزار ارب بھارتی روپوں کے مقابلے میں دفاعی بجٹ کو بڑھا کر 2740 ہزار ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اس رقم میں ابھی فوجیوں کو ملنے والی پنشن شامل نہیں ہے۔ وہاں یہ پنشن سویلین کھاتے میں سے ادا کی جاتی ہے۔ 'ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق ''افراطِ زر اور فوجی ساز و سامان کی تجدید کے پیشِ نظر دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ ضروری ہو گا‘‘۔ لیکن مین سٹریم میڈیا بھی داخلی جبر اور پراکسی جنگوں کے لئے خفیہ ایجنسیوں اور پراکسی گروہوں پر ہونے والے اخراجات کو بے نقاب نہیں کرتا۔ حقیقی 'دفاعی بجٹ‘ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اعلان کردہ بجٹ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ غربت اور محرومی کے سمندر کے بیچوں بیچ بربادی کے آلات پر خوفناک حد تک وسیع اخراجات کی بہتی گنگا میں ایک طرف اشرافیہ اپنے ہاتھ دھوتی ہے تو دوسری طرف سامراجی 'ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ اپنی تجوریاں بھرتا ہے۔ اس سامراجی صنعت کی شرح منافع سب سے بلند ہے۔ ان خریداریوں اور معاہدوں میں ریاستوں کی افسر شاہی اور حکام کے اپنے کمیشن اور کک بیکس ہوتے ہیں۔
واشنگٹن کی 'اٹلانٹک کونسل‘ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بلند دفاعی اخراجات اور معیشت کی کم تر جڑت کی قیمت غربت میں رہنے والے ادا کر رہے ہیں...‘‘۔ 'سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں کے درآمد کنندگان کی فہرست میں ہندوستان سب سے اوپر ہے اور 2010ء سے 2014ء تک ہتھیاروں کی کل عالمی درآمد میں اس کا حصہ 15 فیصد تھا۔ اسی عرصے میں ہتھیار درآمد کرنے والے دس میں سے پانچ بڑے ممالک جنوبی ایشیا میں تھے: چین (5 فیصد)، پاکستان (4 فیصد)، جنوبی کوریا (3 فیصد) اور سنگاپور (3 فیصد)۔
ہندوستان کے سب سے بڑے میڈیا اداروں میں شامل دائیں بازو کے 'این ڈی ٹی وی‘ (NDTV) نے لکھا ہے، ''دنیا کے اسلحہ سازو، خوشی منائو۔ ہندوستان کی حکومت تمہاری وفادار ساتھی ہے۔ صرف یہی حکومت نہیں بلکہ پچھلی والی بھی۔ دفاع پر خرچ ہونے والا پیسہ اگر علاج، تعلیم، سستی رہائش اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا تو بہتر نہ ہوتا؟ حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے وسیع دفاعی اخراجات پر قومی میڈیا میں کتنی کم بحث ہو رہی ہے۔ درحقیقت فوجی بجٹ میں کمی کے حق میں دلائل دینے والے اداریوں سے کہیں زیادہ اداریے ایسے ملیں گے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ بھارتی فوج کو ''تجدید‘‘ اور نئی ٹیکنالوجی پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ یومِ جمہوریہ پر بارک اوباما جیسے مہمانوں کے سامنے جدید اسلحے سے نظارہ تو شاندار بن جاتا ہے‘ لیکن شاید وقت آ گیا ہے کہ فوجی قوت کی اس نمود و نمائش سے ہٹ کر دیکھا جائے کہ کیا موت کی مشینوں پر اتنی فضول خرچی کی کوئی ضرورت بھی ہے؟‘‘ 
پچھلی ڈھائی دہائیوں کا تجربہ واضح کرتا ہے کہ کارگل کے بعد سے دونوں جوہری ہمسایوں کے درمیان کوئی براہِ راست فوجی تصادم نہیں ہوا ہے۔ بیرونی خطرے کی لفاظی اور نعرے بازی کے باوجود کھلی جنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غیر ریاستی پراکسیوں کی مداخلت، میڈیائی جنگوں اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات جیسی چالبازیاں دانستہ طور پر ایک ایسے نظام کی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لئے کی جاتی ہیں‘ جو سماجی زندگی کا گلا گھونٹ رہا ہے اور حکمران طبقات کے جبر و وحشت کو شدید تر کر رہا ہے۔ جنگی جنون‘ رجعت کو ابھارنے اور عوام کو محکوم و مغلوب رکھنے کے لئے بعض گروہ دونوں طرف کے حکمرانوں کے بہترین ہتھیار بن چکے ہیں۔ 
مودی سرکار کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ہندو شائونزم اب 'جمہوری‘ اور 'سیکولر‘ بھارت میں دندناتا پھر رہا ہے۔ جب 'دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ میں انتخابی عمل سے ایک بنیاد پرست اور رجعتی حکومت برسر اقتدار آ جائے تو رائج الوقت نظام اور ریاست کا بحران ناگزیر طور پر آشکار ہو جاتا ہے۔ 
1933ء کے انتخابات میں ہٹلر کا ابھار بھی گہرے معاشی بحران کے ایسے ہی حالات میں ہوا تھا، جب بھوک اور شدید محرومی سے دوچار دنیا کے سب سے جدید جرمن پرولتاریہ کو کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیاں کوئی انقلابی قیادت فراہم کرنے سے قاصر رہی تھیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں ایسی کوئی حکومت کم از کم جمہوری عمل کے ذریعے برسر اقتدار نہیں آئی‘ لیکن سرمایہ داری کے تاریخی اور نامیاتی بحران کے تحت یہ جمہوریت جس حد تک گل سڑ چکی ہے، ان حالات میں مستقبل میں ایسے کسی مشروط امکان کو مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم 1947ء کے بٹوارے کے بعد سے دونوں ممالک میں کم و بیش ہر جمہوری یا آمرانہ حکومت اس دشمنی اور قومی و مذہبی شائونزم کی لفاظی کا استعمال کرتی رہی ہے۔ 
جیسا کہ مارکس نے لکھا تھا، ''جو تاریخ سے نہیں سیکھتے وہ اسے دہرانے کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘۔ تاریخ کے اسباق بالکل واضح ہیں۔ اس متروک نظام کے حامی جبر و استحصال کا خونیں کھیل جاری رکھیں گے۔ 'دفاعی اخراجات‘ بڑھتے جائیں گے، عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔ ہر بنیادی ضرورت اور حق کو نجی شعبے کی منافع خوری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے اور جاتا رہے گا۔ اگر یہ نظام ایسا ہی تاریک مستقبل دے سکتا ہے تو پھر محنت کش طبقات اور نوجوانوں کے پاس اسے اکھاڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یا تو یہ سرمایہ دارانہ نظام بدلنا ہو گا یا پھر سماج بربریت میں غرق ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں