"DLK" (space) message & send to 7575

وحشت کی نئی یلغار

اس مفلوک الحال معاشرے کے عام لوگ جو شہباز قلندر کے مزار پر اپنی محرومی و مجبوری کے نوحے لے کر‘ اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کی منتیں مانگنے گئے تھے‘ دہشت گردی کی اس نئی یلغار نے ان کو زندگی سے ہی محروم کر دیا۔ ذلت کی انتہائوں میں بھی انسان مرنا نہیں چاہتا‘ لیکن انسان جس معاشرے میں جنم لیتا ہے اس کی قدریں اور حالات اس کی زندگی کے حالات کو طے کرتے ہیں۔ جس معاشرے میں سیاست میں امید کی کوئی کرن نہ رہے، ریاست غریبوں کے دکھوں اور زخموں کے علاج میں ناکام و نامراد ہو جائے‘ ان کو تبدیلی کے لیے کسی انقلابی لائحہ عمل اور راستے کا نشان تک نہ مل سکے تو مایوسی اور بدگمانی کے اس عارضی عہد میں منتیں مانتے اور مزاروں پر فریاد کرتے ہیں۔ جو نظام انسان کی زندگی کو اذیت ناک بنا دے وہ خود ایسی بربادیوں کا شکار ہو جاتا ہے‘ جس کی ایک شکل تعصبات اور خونریزی کی یہ وحشت ہے۔ لاہور، پشاور، کوئٹہ اور دوسرے خطوں کے بعد اب سندھ کے سخی لعل شہباز قلندر کے مزار پر دہشت گردی ایک تسلسل ہے۔
دانشور لاہور کو نہ صرف پاکستان کا بلکہ تقسیم سے پہلے کا متحدہ ہندوستان کا ثقافتی اور سیاسی مرکز سمجھتے ہیں۔ صحافتی اور سماجی شعور میں ایک خاص اہمیت حاصل ہونے کے باعث لاہور میں پچھلے دنوں ہونے والا دہشت گردی کا حملہ ملک اور دنیا بھر میں محسوس کیا گیا۔ چند گھنٹوں بعد ہی پاکستانی طالبان کے دھڑے ''جماعت الاحرار‘‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ اس گروپ کے ترجمان کے مطابق یہ ''محض آغاز‘‘ ہے۔ 2016ء میں لاہور ہی میں ایسٹر کے تہوار کے دن بھی ایک بدترین حملے میں 70 افراد ہلاک ہو گئے تھے‘ جس کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔
عوام اس حملے سے مزید سوگوار ہو چکے ہیں۔ اس نظام اور ریاست کے سماج پر لگائے ہوئے طبقاتی جبر کے زخموں پر یہ دہشت گردی نمک پاشی کر رہی ہے۔ حکمران اشرافیہ نے حسبِ معمول مذمتی بیانات اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ سول اور ملٹری حکام کی اس بڑھک بازی سے عوام بیزار ہو چکے ہیں۔ جلد ہی یہ المناک واقعہ بھی فراموش کر دیا جائے گا اور نسبتاً جمود کے اس دور میں پھر وہی کرپشن کے الزامات، سکینڈل اور حکمران طبقات کے دھڑوں کی کراہت آمیز تکرار میڈیا اور سماجی شعور پر مسلط کر دی جائے گی۔ میڈیا کے 'عظیم‘ مبصرین اور تجزیہ کاروں کے بقول ملک بھر میں دہشت گردی کی اس نئی لہر کی وجہ فوج کی ہائی کمانڈ میں تبدیلی ہے۔ لیکن یہ درست نہیں، یہ انتہائی سطحی وضاحت ہے جس کا اس پژمردہ سماج کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
ضیا آمریت کے بعد ریاست اور سیاست میں متعارف کروائی گئی رجعتی بنیاد پرستی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکی ایما پر اس سب کا مقصد افغانستان میں 1978ء کے ثور انقلاب کو تباہ کرنا تھا۔ آج امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست کی اشرافیہ اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ریاستی اداروں کے بالائی اور درمیانی ڈھانچوں میں رچ بس چکی رجعتی اخلاقیات اور نفسیات اور ضیا دور کی سیاسی میراث اور ثقافت کی موجودگی میں پرہیزگاری کا لبادہ اوڑھے، دہشت گردوں کے خلاف کوئی جامع ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ کالے دھن کی بے پناہ دولت اس گٹھ جوڑ کا محور ہے اور یہ دہشت گرد تنظیمیں اس دولت کے حصول کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ ریاستی ڈھانچوں میں کالے دھن کی بڑے پیمانے پر سرایت سے اس طرح کی ذہنیت اور سوچ کو مادی بنیادیں میسر آئی ہیں۔ جانے کب نام نہاد اعتدال پسند‘ انتہا پسند اور دہشتگرد بن جائیں۔
جہاں نصاب سے لے کر سماجی اخلاقیات قدامت پسند خیالات اور رجعتی سماجی ڈھانچوں میں جکڑی ہوں وہاں منافرت کا خاتمہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہی تعصبات دہشت گردی کی کارروائیوں کو اکساتی ہیں‘ اور ان کے تدارک کے لیے کہیں زیادہ انقلابی تطہیر اور جراحی کی ضرورت ہے۔ مذمتی بیانات اور جھوٹے وعدے خود اس حکمران اشرافیہ کی اس دہشت گردی کے خلاف بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تشدد ان کی اپنی معیشت اور حکمرانی کے ڈھانچوں کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ ان کی تمام کوششوں کا مقصد صرف فوری حملے کو ٹالنا ہوتا ہے۔ کالے دھن کے ان مافیائوں کا اثر و رسوخ اور معیشت میں حصہ داری کی موجودہ کیفیت میں اس سے کہیں زیادہ بھیانک خطرات اور بربریت سماج پر منڈلا رہے ہیں۔
ریاست کے کچھ حصے واقعی اس عفریت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان پلانز پر عملدرآمد اور آپریشنز کا نشانہ چند مخصوص گروپ ہوتے ہیں۔ کالے دھن کے سرغنہ سیاسی جماعتوں اور ریاستی طاقت کے اداروں اور حلقوں میں بے پناہ مال لگاتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف ریاست کے ڈسپلن اور ڈھانچوں کو کمزور کر دیا ہے بلکہ اب تہذیب اور سماجی وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ کسی عفریت کی طرح یہ اپنے انہی خالقوں کو مارنا شروع ہو گئے ہیں‘ جنہوں نے اپنے مفادات اور بالادستی قائم رکھنے کے لیے انہیں تخلیق کیا تھا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ریاستی اور سیاسی طاقت کے حصہ داروں کی جانب سے کسی بڑی پالیسی میں تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ انہی پالیسیوں کو جاری رکھنا‘ ان کی مجبوری ہے کیونکہ یہ ان رجعتی، کرپٹ اور جرائم پیشہ حکمران طبقے کے مفادات کے لیے ضروری ہیں جن کے لیے یہ سیاسی اور ریاستی بازی گر کام کرتے ہیں۔
اس دور میں پراکسی جنگیں نئی حکمت عملی بن چکی ہیں کیونکہ اب بورژوازی مالی وسائل اور دیگر وجوہ کی بنا پر قومی اور عالمی جنگوں کی متحمل نہیں ہیں اور اس سے دونوں طرف کی اشرافیہ کی مکمل تباہی کا خطر ہ ہے؛ چنانچہ دہشت گردی ساری دنیا میں معمول بن چکی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے جنوبی ایشیا اور افریقہ تک سماج تاراج ہو رہے ہیں۔ سامراجی فوجی مداخلتوں اور معاشی لوٹ مار کے نتیجے میں یہ عمل اور بھی شدید ہواہے۔ آخری تجزیے میں یہ عفریت ان ریاستوں کی پیداوار ہے جو ماضی میں انہیں خفیہ آپریشنز کے لیے استعمال کرتی تھیں‘ جب سامراج اور قومی ریاستوں کا طاقت کا توازن آج سے مختلف تھا۔ یہ تاریخ کا مکافات عمل ہے۔ پراکسی جنگوں اور مختلف سرمایہ دارانہ مفادات کے ٹکرائو سے سماج کا تانا بانا بکھرتا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کے انہدام اور روایتی پارٹیوں کے لیڈروں کی لا غرضی کی وجہ سے یہ بے حسی مزید گہری اور عوام کی رجعت کے خلاف لڑائی کمزور پڑی ہے۔ کسی انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں پیٹی بورژوا نوجوان اور تاریک مستقبل دیکھنے والے مایوس بے روزگار بنیادی بقا کی خاطر ان تنظیموں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔
دہشت گردوں کے گنجان آباد شہروں اور مضافات میں سرایت کر جانے کے بعد انہیں عام آبادی میں تلاش کرکے سرجیکل آپریشن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اگرچہ سماج میں ان جنونیوں کی حمایت بہت قلیل ہے لیکن یہ بہت منظم اور بہت مالدار ہیں۔ یہ کرپٹ حکمرانوں پر دبائو ڈالنے کے لیے چھوٹے مظاہرے کروا سکتے ہیں۔ ملک بھر کے شہروں میں قائم ان کے ادارے ریاستی اور سیاسی حکام کی سر عام حکم عدولی کرتے ہیں۔ ان کا داعش جیسی تنظیموں کی حمایت کرنے پر معمولی سا بھی رد عمل سامنے نہیں آتا۔ بلکہ وزرا اور ریاستی حکام ان کے شرمناک بیانات اور عام شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کی توجیحات گھڑتے نظر آتے ہیں۔ وہ عدلیہ کو دھمکا اور رشوت دے کر سر عام قانون شکنی کرتے ہیں۔ لیکن اس کرپٹ ریاستی اور سیاسی نظام میں ان جرائم کے باوجود یہ دندناتے پھرتے ہیں۔
جمود کے ادوار میں اس رجعت اور منافرت کی سماجی و معاشی وجوہ کا خاتمہ کیے بغیر دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ متروک اور مرتے ہوئے معاشی، سیاسی اور انتظامی نظام کا خاتمہ نہ صرف دہشت گردی اور سماج پر مسلط رجعتی‘ اخلاقی اور ثفافتی اقدار کے خاتمے کے لیے ضروری ہے بلکہ سماج کی ترقی اور ذلت و غربت کے خاتمے کے لیے بھی ایک انقلاب ہی درکار ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں