"DLK" (space) message & send to 7575

طلبہ سیاست کی تنزلی؟

اعلیٰ تعلیم کے ایک ادارے میں طلبہ کے حالیہ تصادم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلبہ یونینوں پر پابندی سے تعلیمی اداروں میں تشدد کا خاتمہ نہ ہوا ہے، نہ ہو سکتا ہے۔ یہ واقعہ گو میڈیا کے ذریعے کافی حد تک منظر عام پر آ چکا ہے، لیکن یہ اپنی نوعیت کا کوئی اکلوتا یا منفرد واقعہ نہیں ہے۔ طلبہ کے مختلف گروپوں میں تصادم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں واقعات مسلسل جاری رہتے ہیں‘ جن کو شاید میڈیا کی زینت نہیں بنایا جاتا۔ مختلف گروہوں کے درمیان ایسے زیادہ تر تصادم اور پُرتشدد کارروائیاں سیاسی یا نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوتیں بلکہ یہ پیسے، مالی تضادات، طاقت کے توازن، غنڈہ گردی سے برتری حاصل کرنے اور جنسی حسد و عناد کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ طلبہ سیاست اور یونینوں پر پابندی کی ظاہری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان اداروں کے قیام سے طلبہ کی تدریسی توجہ اور انہماک میں کمی آتی ہے اور اس سیاست سے تعلیمی اداروں کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ اگر غور کریں تو یہ ''ماحول ‘‘طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں کے فقدان کی وجہ سے کہیں زیادہ ''خراب‘‘ ہوا ہے۔ منشیات کے استعمال سے لے کر دہشت گردی اور پھر دوسرے جرائم میں طلبہ کا غرق ہونا کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔
پیسے اور دولت کی ہوس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا ہے اور جہاں تعلیم اور علاج کے ادارے ہی طبقاتی بنیادوں پر قائم ہوں وہاں سرکاری تعلیمی ادارے‘ جہاں کم از کم درمیانے طبقے کے طلبہ کو جانا نصیب ہو سکتا ہے‘ کے اندر بھی طلبہ میں محاذ آرائی ایسے گروہوں کے درمیان ہوتی ہے جن کے سربراہ زیادہ تر یا تو بہت امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر ان کی دہشت کی بنیاد ان کی پُرتشدد کی حرکات اور غنڈہ گردی ہوتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1950ء کی دہائی سے لے کر ضیاء الحق کے دور تک طلبہ سیاست میں جہاں نظریاتی تفریق بہت واضح تھی اور اس کی بنیاد پر سیاست ہوتی تھی وہاں بائیں بازو کی سیاست کم از کم بہت حد تک مالیاتی مداخلت اور اس کے جبر سے مبرا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی تحریکوں‘ جن کے نظریات، افکار اور مقاصد محنت کشوں اور عام انسانوں کو درپیش ذلتوں کا چھٹکارا تھے، میں آغاز کا کردار اور پہلی چنگاری بننے کا شرف بھی طلبہ کی اسی سیاست کو حاصل تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف حکومتوں‘ چاہے وہ سیاسی تھیں یا فوجی‘ کی مداخلت رہی تھی لیکن مارکسزم کی سیاست کرنے والے بائیں بازو کے طلبہ اور لیڈر ان تعلقات اور ناتوں سے مبرا اس لیے رہتے تھے۔ جن نظریات کی سیاست وہ کر رہے تھے اور جن پر مبنی وہ ان بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کی تعمیر کرتے تھے‘ ایسے نظریات میں بالادست طبقات اور ریاستی حکمرانوں سے کوئی تعلق، کوئی واسطہ، کوئی امداد ان کی ساری سیاست اور نظریات کی ہی نفی کر دیتی تھی۔ اس بیرونی اور مالیاتی سرمائے کی مداخلت کے بغیر یہ سیاسی تنظیمیں اور طلبہ یونینیں زیادہ طاقتور اور فعال اور بڑی سوچوں کی حامل ہو کر پورے معاشرے کو جھنجھوڑ دینے کی طاقت رکھتی تھیں۔ 
یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی اور اہم تحریک جس نے پورے ملک کے محنت کشوں اور عوام کو ابھار دیا تھا اور ایک انقلابی صورتحال کو جنم دیا تھا وہ راولپنڈی پولی ٹیکنیکل اور گارڈن کالج سے شروع ہوئی تھی۔ 1968-69ء میں طلبہ کی اس تحریک نے پشاور سے لے کر چٹاگانگ (مشرقی پاکستان) تک پورے ملک میں محنت کشوں کی جدوجہد کے راستے پر ایک چنگاری بن کر وہ مشعل روشن کی جس نے اس سماج میں قائم ملکیت کے رشتوں اور سیاسی ڈھانچوں کو یکسر بدل کر رکھ دینے کی منزل کو ان کی نظروں میں منور کر دیا تھا۔ 1968-69ء کی تحریک صرف سیاست اور ریاست کی حاکمیت کو بدلنے کے لیے نہیں ابھری تھی بلکہ اس کا بنیادی کردار یہاں پر رائج استحصال کے نظام اور معیشت کے بنیادی رشتوں اور سماجی ڈھانچوں کو توڑ کر ایک نئے اشتراکی نظام کو رائج کرنا تھا۔ اسی تحریک نے پیپلز پارٹی کو راتوں رات پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی قوت بنا دیا تھا‘ لیکن پیپلز پارٹی نے سوشلسٹ انقلاب کا صرف پروگرام دیا تھا، نہ وہ کوئی بالشویک لینن اسٹ پارٹی تھی اور نہ ہی اس کے پاس اس تحریک کو ایک انقلابی فتح سے ہمکنار کرنے کا لائحہ عمل، تیاری اور ڈھانچے تھے۔ پیپلز پارٹی اسی ریاستی اقتدار میں آکر اس نظام کو تبدیل کر بھی نہیں سکتی تھی۔ اس لیے وہ محض ریڈیکل اصلاحات تک ہی محدود رہی۔ لیکن کسی متروک اور بحران زدہ نظام میں عوام میں خوشحالی لانے والی اصلاحات کی نہ تو گنجائش ہوتی ہے اور نہ ہی صلاحیت۔ اس ناکامی سے جس بحران نے جنم لیا‘ اس سے کاری ضرب بائیں بازو کی خصوصاً طلبہ سیاست کو لگی۔ اس کے ردعمل میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کا ابھار خصوصاً پنجاب میں ملتا ہے۔ رجعتی نظریات اور سخت گیر حکمت عملی سے ان کا ابھار اور طلبہ میں کوئی ترقی پسند متبادل نہ ہونے کی وجہ سے جس محرومی کا احساس تھا، اس میں بعض پارٹیوں کی ذیلی تنظیموں کی مسلح طاقت کا خوف ان کو بے حسی کا شکار کرتا چلا گیا۔ ان پارٹیوں کو پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری سالوں میں حکومتی امداد بھی حاصل ہونا شروع ہو گئی تھی کیونکہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں میں تحریک کی ناکامی کے خلاف شدید غم و غصہ ان میں بغاوت اور مزاحمت کی تحریکیں بھی ابھار رہا تھا۔ ریاستی اقتدار کے دوران پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے حکومتی اور ریاستی طاقتوں کو ان بائیں بازو کے طلبہ اور ان کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ میدان میں اس کام کو عملی جامہ یہی دائیں بازو اور تنظیمیں پہنا رہی تھیں۔ ان کو ریاستی آشیرباد اس دور میں حاصل ہو چکی تھی‘ لیکن پھر ضیاء الحق نے سامراجی ایما پر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو معزول کر دیا کیونکہ اپنی بنیادوں کو قائم رکھنے کے لیے وہ سامراجیت اور رجعتیت کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔ ضیاء آمریت کو مسلط کرنے کا مقصد بائیں بازو اور خصوصاً طلبہ و ٹریڈ یونین کے سرگرم کارکنان اور سیاست کو کچل دینا ہی تھا۔ اس کا حتمی ارادہ سرمایہ دارانہ جبر و استحصال اور سامراجی لوٹ کھسوٹ کے خلاف ہر مزاحمت اور بغاوت کے عنصر کو مٹا دینا تھا۔ ایسے میں ان دائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کی چاندی ہو گئی۔ نہ صرف ریاستی طاقت کی مکمل پشت پناہی ان کو حاصل تھی بلکہ مالیاتی اور اسلحہ کی فراوانی بھی ان کو حاصل ہو گئی۔ یہ وہ دور تھا جس میں بائیں بازو کی طلبہ سیاست کے کارکنان اور لیڈروں پر ایک کٹھن آزمائش آن پڑی تھی‘ لیکن بغیر کسی بیرونی حمایت کے ان بائیں بازو کے طلبہ نے بہت سارے مقامات پر سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات جیتے‘ بلکہ اپنے سچے جذبوں کی طاقت اور سائنسی نظریات کے یقین کے ساتھ رجعتی قوتوں کو شکست بھی دی۔ اس سے ضیا آمریت خوفزدہ ہو گئی اور اس نے طلبہ سیاست اور سٹوڈنٹس یونینوں پر پابندی لگا دی۔
جمہوریت کی آمد کے بعد بھی جہاں ضیاء آمریت کی آئینی ترامیم و قوانین برقرار اور جاری رکھے گئے وہاں طلبہ سیاست پر آج بھی پابندی قائم ہے‘ لیکن طلبہ کو ہمیشہ اس جکڑ میں بند نہیں رکھا جا سکتا۔ ان پر مالیاتی تشدد سے ان کی تحریک کے ابھرنے کو روکا نہیں جا سکتا‘ لیکن طلبہ کو جو اپنا تاریخی کردار ادا کرنا ہے‘ اس کے لیے وہ نظریات اور لائحہ عمل درکار ہیں‘ جو اس معاشرے سے طبقاتی نظام تعلیم، محرومی، غربت، افلاس، بیماری، دہشت گردی اور ذلت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر سکیں۔
جمہوریت کی آمد کے بعد بھی جہاں ضیاء آمریت کی آئینی ترامیم و قوانین برقرار اور جاری رکھے گئے وہاں طلبہ سیاست پر آج بھی پابندی قائم ہے‘ لیکن طلبہ کو ہمیشہ اس جکڑ میں بند نہیں رکھا جا سکتا۔ ان پر مالیاتی تشدد سے ان کی تحریک کے ابھرنے کو روکا نہیں جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں