"DLK" (space) message & send to 7575

بھٹو کیا تھا؟ کیا بنا دیا گیا؟

آج ذوالفقار علی بھٹو کی39 ویں برسی ماضی کے جذبوں اور امیدوں سے خالی خالی لگتی ہے۔ بلاول ہائوس میں بھاری قلعہ نما دیواروں کے اندر گرج چمک کے ساتھ کیمروں کے سامنے بڑے بڑے بول بولے جا رہے ہیں۔ اس مرتبہ ٹرینوں، بسوں کی بکنگ نہیں کروائی گئی، البتہ پی آئی اے نے اضافی فلائٹس چلانے کا اعلان ضرورکیا ہے ۔ اس سالانہ برسی کے موقع پر پارٹی کارکنان کے قافلے سکڑتے سکڑتے اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سفر کے کوئی انتظامات ہی نہیں کیے جاسکے۔ کارکنان ''اپنے خرچے‘‘ پر جانے کے حکم پر غور کررہے ہیں ۔ کبھی وہ اپنے خرچے پر واقعی جایا بھی کرتے تھے، کیونکہ کوئی نظریہ، کوئی اُمنگ ، انتقام کا جذبہ اور امید کی کوئی کرن ہوتی تھی۔ آج یہ احساس مٹ سا گیا ہے ۔عوامی بسوں اور ٹرینوں سے 'فلائٹس‘ تک کا سفر، پارٹی کی اپنی طبقاتی بنیادوں میں تبدیلی کی غمازی کرتا ہے۔ آج گڑھی خدا بخش میں ماضی کی ہل چل اور ملک بھر سے آنے والے قافلوں کی شورش کم ہوگی۔ جہاں پارٹی قیادت کے محلات کی بلند دیواروں اور دیوہیکل دروازوں پر درباریوں کا قبضہ ہے، وہاں گڑھی خدا بخش کے میدان میں بھی ایک ویرانی عود آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ضیا الحق نے امریکی سامراج کے ایما پر 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کا عدالتی قتل کروایا تھا۔یہ واقعہ ایک زخم، خلش اور درد بن کر عوام کے دلوں اور دماغوں میں اتر گیا۔ اس کے خلاف انتقام کا جذبہ ایک پوری سیاسی تحریک کی شکل میں پارٹی کی رگوں میں طویل عرصے تک دوڑتا رہا، جس کا رخ حکمران طبقات، سامراج اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف تھا۔ لیکن آج بھٹو کی میراث پر قابض پارٹی کی قیاد ت اس سے کسی خاندانی رشتے کی دعویدار تو ہوسکتی ہے، لیکن اس کی سیاست اُن سوشلسٹ نظریات سے نہ صرف یکسر اجتناب ہے جنہوں نے بھٹو کوعوام کا بھٹو بنایا تھا، بلکہ ان کی یکسر نفی کرتی ہے۔عوام دشمن اقتصادی پروگرام اور سیاسی پالیسیوں پر بھٹو کی تصویر چھاپ کر اور اُس کی قربانی کے مرثیے پڑھ کر مفادات اور دولت وطاقت کی اندھی ہوس کے بازار میں بھٹو کے نام کو نیلام کیا جا رہا ہے۔
انقلابی تحریکوں کے سرکردہ لیڈروں کی طرح بھٹو کی اپنی زندگی، رویوں، رجحانات، نظریات اور لائحہ عمل میں بھی تغیر رہا۔ بھٹو ایک فوجی آمریت کے وزیر کے طور پر سیاست میں داخل ہوا۔ پھر ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری اور اسی فوجی حکومت میں وزیر خارجہ کے اعلیٰ عہدے پر بھی فائز رہا۔ اس دوران وہ ایک پاکستانی قوم پرست تھا۔ پھر ریڈیکل ڈیموکریٹ ہوا، لیکن ایوبی آمریت سے استعفے کے بعد بھٹو نے جس بغاوت کا پرچم بلند کیا وہ نہ 'جمہوری‘ تھا نہ آئینی، بلکہ اس کا واضح پیغام انقلابی سوشلزم تھا۔ انہی نظریات پر پیپلز پارٹی قائم ہوئی۔پھر 1968-69ء کی انقلابی تحریک اٹھی۔ بھٹو اس کی بنیاد پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے مقبول لیڈر بنا ۔ لیکن انقلابی سرکشی مکمل فتح سے ہمکنار نہیں ہوسکی۔ پیپلز پارٹی اور بھٹو نے جس اقتدار کو قبول کیا وہ بنیادی طور پر اسی سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی، سیاسی اور ریاستی حدود و قیود میں تھا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے تمام ممکنہ ریڈیکل اصلاحات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جس ریاست اور افسر شاہی کے ذریعے وہ ان کو لاگو کرواناچاہتے تھے، نہ اس میں ان کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت تھی نہ خواہش۔ اس سے بھی بڑھ کر پاکستان کی بوسیدہ اور تاخیر زدہ سرمایہ داری میں اتنی گنجائش ہی نہیں تھی کہ اس معاشرے کو ایک فلاحی سماج بنا سکتی۔ لیکن بھٹو کا عدالتی قتل درحقیقت حکمران طبقات اور امریکی سامراج کا اُن کے نظام پر ضرب لگانے کا انتقام تھا۔
اگر بھٹو صاحب کی زندگی کے ان تمام پہلوئوں اور ادوار کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بہت واضح ہے کہ بھٹو جن سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر ایک انقلابی تحریک کا محور بنا، وہی اُس کی تاریخی میراث ہے۔ پھر مطیع ہو کر اپنی جان بچانے سے انکار اور فوجی آمر کے سامنے ڈٹ کر اسکی طاقت کے عروج پر اس کا استرداد بھٹو کو ممتاز کر دیتا ہے۔ موت کو اپنے طرف آتے ہوئے دیکھ کر اسکی آنکھوں میںآنکھیں ڈالنا اور پھر بھی جھکنے سے انکار کرنا کسی اچانک یا ناگزیر موت کی قربانی سے قطعاً مختلف تھا۔ 
لیکن اس نظام کی حدود میں بھٹو کا اقتدار میں آنا ہی اس کی سب سے بڑی غلطی تھی۔جس نظام کے ڈھانچوں میں کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے وہ نظام ہی حکومت کو چلاتا ہے۔ ایسی حکومت نظام کے تابع ہوتی ہے، اسے بدل نہیں سکتی۔ پھانسی کی کال کوٹھری میں اپنی تحریر'' اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ میں بھٹو نے سب سے پہلے خود اپنی اس غلطی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا: ''میں اس آزمائش میں اس لیے مبتلاہوںکہ میں نے دومتضاد مفادات کے حامل طبقات میں آبرو مندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی،مگر موجودہ فوجی بغاوت ثابت کرتی ہے کہ متضاد طبقات میں مصالحت ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔اس ملک میں ایک طبقاتی کشمکش ناگزیر ہے، جس میں کوئی ایک طبقہ ہی فتح یاب ہوگا۔ـ‘‘
جن اقدامات کو بھٹو نے خود غلطی تسلیم کیا، آج انہیں ہی ابھار کر بھٹو کے کردار کو مسخ کیا جاتا ہے۔اس کی اسلامی سربراہی کانفرنس، ایٹمی پروگرام، بلوچستان پر فوج کشی‘ آئین و جمہوریت وغیرہ پاکستان کے سرمایہ دارانہ حکمران طبقات اور اس ریاست کے تقاضوں کے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ اس انقلاب کی میراث قطعاً نہیں جس نے بھٹو کو تاریخ کے اوراق پر ثبت کیا تھا۔لیکن یہ لیڈر اس لیے ان اقدامات کو بھٹو کی میراث بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ اس مالیاتی سیاست و اقتدار کے کھیل میں اپنی وارداتوں کا جواز ڈھونڈ سکیں۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے تمام معیشت اور صنعت کو ضبط کرکے نیشنلائز کرنے کا منشور دیا تھا ۔تعلیم اور علاج مفت فراہمی کاسندیسہ دیا تھا۔
اس نے منڈی کی جگہ سوشلسٹ معیشت کے قیام اور ذرائع پیداوار کی ملکیت کے رشتوں کو یکسر بدل کر اشتراکی ملکیت کی بات کی تھی ۔ لیکن صرف یہی چند نکات آج کی پیپلز پارٹی قیادت کی سیاست اور طریقہ واردات کے لیے موت کا پیام بن جاتے ہیں۔اس پیسے کی جمہوریت کے نام پر اس قیادت نے پارٹی کے سوشلسٹ پروگرام کا قتل کیا ۔ پیپلز پارٹی کے سامراج دشمن کردار کو گماشتگی کی سیاست میں بدل دیا۔ نظام کو ختم کرنے اور بدلنے کے منشور کو اس نظام کی غلامی میں بدل دیا۔ نیشنلائزیشن کو مسترد کرکے نجکاری اور ''پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘ کی مزدور دشمن پالیسی اپنا لی۔ پھر بھی بھٹو کا نام لے کر، اس کی میراث سے جنم لینے والی سیاسی روایت پر براجمان ہو کر، اپنی دولت اور اقتدار کی سیاست کر رہے ہیں۔ بھٹو کے بدترین دشمنوں کو بھی بھٹو پر کرپشن کا الزام لگانے کی کبھی جرات نہ ہوئی۔ بھٹو نے اپنی سیاست کے دوران اپنا کوئی مکان نہیں بنایا۔ وہ اپنے قدیم آبائی گھر کی آج سے کہیں بہتر فن تعمیر سے خوش تھا۔ لیکن بھٹو کی تصویر کو استعمال کرنے والوںنے بھٹو کا کیا حشر کیا ہے! اُس نے کہا تھا کہ ''میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے ایک آمر کے ہاتھوں مرنا چاہوں گا۔‘‘ یہ اب بھٹو کو تاریخ کے ہاتھوں اپنے کرتوتوں کے ذریعے مارنا چاہتے ہیں۔ لیکن جس سوشلسٹ میراث اور عوام کی انقلابی امنگ کو وہ مٹا دینا چاہتے ہیں وہ ان سے بھی انتقام لے سکتی ہے۔ تاریخ کا مکافات عمل محنت کش عوام سے غداری اور اُن کی تضحیک کو کبھی معاف نہیں کرتا۔اس مرتبہ جب محنت کش بیدار ہو کر تاریخ کے میدان میں اتریں گے تو دولت کی اس سیاست کو بھسم کردیں گے۔ اس آگ سے جو پارٹی ابھرے گی اسے انقلابی سرکشی کو حتمی فتح کی منزل تک لے جانا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں