"DLK" (space) message & send to 7575

کوریا کا بحران

جنوبی کوریا کے نومنتخب صدرکی تقریب حلف برداری میں عام طورپرہفتوں لگ جاتے ہیں۔لیکن نومنتخب صدرمون جین نے اپنی فتح کے اعلان کے چندگھنٹے بعدہی حلف اٹھا لیا۔جزیرہ نماکوریا میں یہ ہنگامہ خیز لمحات ہیں جنہیں امریکی سامراج بڑے اضطراب سے دیکھ رہا ہے۔
مون سیاست میں آنے سے پہلے ایک لیبروکیل تھا۔اس نے اپنی انتخابی مہم میں شمالی کوریا سے براہ راست مذاکرات اورمعاشی تعاون کے وعدے کیے تھے۔مون نے امریکہ سے مطالبہ کیاتھاکہ وہ اپنی کمپنی 'لاک ہیڈمارٹن‘کے تیارکردہ 'تھاڈ‘نامی میزائل سسٹم کی تنصیب کومؤخرکرے۔اگرچہ آخری دنوں میں،جب اس کی جیت کے امکانات روشن ہوگئے تھے،وہ اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گیا۔
وہ ملک کے داخلی اورخارجی بحران کے وقت اقتدارمیں آیا ہے۔ جنوبی کوریاکواس وقت آمدن میں بدترین عدم مساوات، نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اورایک بے جان معاشی نموجیسے بڑے چیلنجوں کاسامناہے۔ مون نے بڑے پیکیج کااعلان کیاہے جس سے 8لاکھ 10ہزار نئی سرکاری آسامیاں پیداکرنے اورکام کے طویل اوقات کارکوکم کرنے کے وعدے شامل ہیں۔کام کے طویل اوقات کاراورکم اجرتیں ‘نوکریوں کی دستیابی کومزیدمخدوش کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک کروڑچالیس لاکھ میں سے تقریباً چالیس لاکھ بیروزگار ہیں۔نوجوانوں نے ملک کا نام '' دوزخی سلطنت ‘‘ رکھ دیا ہے۔ 
بحیرہ جنوبی چین میں جاپان کے ساتھ تنازعہ اورسب سے بڑھ کرشمالی کوریاکے ساتھ دیرینہ جھگڑاشدیدہوتا جارہاہے۔ایک لبرل جنوبی کوریائی اخبار نے اپنے اداریے میں خبردارکیا، ''جزیرہ نما کوریامیں ایک فوجی تصادم نہ صرف جنوبی اورشمالی کوریا بلکہ تمام ہمسایہ ممالک کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوگا... یہ جنگی کیفیت جنوبی اورشمالی کوریاکی پوری آبادی کویرغمال کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
مون نے یہ ظاہرکرنے کی کوشش کررہاہے ستر سال کی تقسیم کوختم کرتے ہوئے دونوں کوریائوں کوجوڑنا ہی اسکی منزل ہے۔اس نے ٹائم میگزین کوبتایاہے کہ '' جنوبی اورشمالی کوریامیں بسنے والے لوگ ایک ہی ہیں،جن کی ایک ہی زبان اور5000سال قدیم مشترکہ تہذیب ہے...ناگزیرطورپرہمیں ایک ہوناہو گا۔‘‘اِسی قسم کی صورتحال ہمیں جنوب ایشیا ئی برصغیر میں بھی ملتی ہے جہاں حکمرانوں کی آپسی لڑائی میں عوام پس رہے ہیں۔ 
شمالی کوریامیں بھی بڑھتے ہوئے بحران نے'کِم‘خاندان کی سٹالنسٹ حاکمیت کوماندکردیاہے۔ اگرچہ اب بھی اختلاف رائے کوسختی سے کچل دیاجاتاہے تاہم منڈی کی معیشت کوجڑیں پکڑنے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔نئے سال کی تقریب کے دوران 'کِم جانگ اُن‘ نے یہاں تک کہہ دیاتھاکہ وہ جنوبی کوریا کے ساتھ بات کرنے کوتیارہے۔تاہم مون کی اقتصادی معاونت کی پالیسیاں ماضی کی یادوں سے زیادہ اس بحران زدہ سرمایہ داری کی ضرورت ہیں ۔ وہ چاہتاہے کہ جنوبی کوریاکی کمپنیوں کوشمالی کوریاکی سستی محنت میسرآسکے۔اس نے ٹائم میگزین کوبتایاکہ '' باہمی اقتصادیات سے صرف شمال کوفائدہ نہیں پہنچے گابلکہ اس سے جنوب کوبھی ترقی کی نئی جہت ملے گی،جس سے جنوبی کوریاکی معیشت کودوبارہ اپنے پائوں پرکھڑا ہونے کاموقع میسرآئے گا۔‘‘ 
نوے کی دہائی میں نواز شریف جیسے سیاست دان جنوبی کوریااوردوسرے نام نہاد''ایشین ٹائیگر ز‘‘کوپاکستانی سرمایہ داری کے لیے رول ماڈل کے طورپرپیش کرتے تھے۔تاہم 1997ء کے کریش کے بعدیہ 'ٹائیگرز‘ بلیاں بن گئے اوراب تک جنوبی کوریاکی شرح نموبحال نہیں ہوپائی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعدجاپان،جنوبی کوریااورتائیوان جیسی ایشیائی ریاستوں کی تیزمعاشی ترقی کسی 'آزاد منڈی‘ کی بجائے امریکی سامراج کی بھاری مالی امداداورجنرل ڈیگلس میکارتھرکے کَوڑے کے تحت سخت ریاستی منصوبہ بندی کانتیجہ تھی۔یوں اِن ریاستوں میں بورژوا انقلابات کے فرائض پورے کیے گئے جس کامقصد'سرخ آندھی‘ کاراستہ روکناتھا۔ 
کوریابھی کئی دوسرے خطوں کی طرح دوسری عالمی جنگ کے اواخرمیں سٹالن اورسامراجیوں کے درمیان بندربانٹ کی وجہ سے تقسیم ہوا۔شمال کے علاقوں پرروسی فوجوں نے قبضہ کیاتھا۔یہاں بعدازاں سٹالنسٹ طرزپرسرمایہ داری اورجاگیر داری کاخاتمہ کیاگیاجس سے ابتدائی دہائیوں میں تیزترین معاشی و سماجی ترقی ہوئی۔امریکی افواج نے 8 ستمبر 1945ء کوجنوبی کوریاپرقبضہ کیااوریہاں فوجی حکومت قائم کی اور کوریاکی سی آئی اے کاقیام عمل میں لایاگیا۔ کوریاجنگ کاآغازجون 1950ء میں ہواجو تین سال تک جاری رہی اورجس نے دنیاکوایک اورعالمی جنگ کے دہانے پرلاکھڑاکیا۔ تین ملین کوریائی قتل ہوئے۔ جنگ کے دوران امریکی کٹھ پتلی حکومت نے بدترین جنگی جرائم کئے اورایک لاکھ کے قریب بائیں بازو کے کارکنان کوقتل کیاگیا۔ 
جنوبی کوریا میں امریکہ نے مجبوراًزرعی اصلاحات لاگوکیں اورپچیس سال کے عرصے میں ایک ایسی صنعت کاری کی گئی جس کی بنیاددرآمدات سے بتدریج برآمدات کی طرف تھی۔معیشت کے کلیدی حصے سرمایہ دارانہ ریاست کے کنٹرول میں تھے، جبکہ دفاع زیادہ ترامریکی نگرانی وامدادکے تابع تھا۔یوں کوریائی سرمایہ دار طبقے کی پیوندکاری کی گئی۔ 
امریکی گماشتہ حکومتوں نے کوریا کے محنت کش طبقے پربدترین جبرروارکھاہے۔ 'کوریائی معجزے‘ کی بنیاد ہی محنت کش طبقے کاشدیداستحصال تھا۔لیکن طلبہ اورمحنت کشوں نے بھی کئی تحریکیں برپاکی ہیں۔مئی 1980ء کے خونی جبرکے بعدواشنگٹن اورٹوکیوکی حمایت سے ایک نئی جابرانہ آمریت قائم کی گئی۔لیکن 1985ء سے امریکیوں نے بتدریج اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے فوجی آمریت،جوانہیں بہت مہنگی پڑتی اوراکثرہاتھ سے نکل جاتی تھی،کی بجائے کٹھ پتلی جمہوریت کاراستہ اپنایا۔تاہم عوامی تحریکیں وقتاًفوقتاًابھرتی رہی ہیں۔26دسمبر1996ء میں1948ء کے بعدپہلی عام ہڑتال نے پورے ملک کوجام کیاتھا۔محنت کش لیبر قوانین میں ان اصلاحات کے خلاف احتجاج کررہے تھے جس سے مزدوروں کونوکریوں سے برطرف کرنازیادہ آسان ہوجاتا۔چوبیس دن کی ہڑتال کے بعدانہوں نے اپنے مطالبات منوائے اورحکمرانوں کوشکست ہوئی۔لیکن 1997ء کے ایشیائی بحران کے بعدمحنت کشوں کی جیتی گئی اصلاحات کوختم کرنے کاعمل شروع ہوا۔ 
پچھلے چندسالوں میں کوریائی سماج اورمعیشت کابحران مزیدبڑھ گیاہے۔ پورے ملک میں سیاسی اشرافیہ اور کارپوریٹ مالکان کی کرپشن کاچرچاہے۔ پچھلے سال نومبر میںسابق صدرپارک گیون ہائی کی بدعنوان حاکمیت کے خلاف دس لاکھ سے زائد لوگوں نے مارچ کیا۔دسمبر 2016ء میں قومی اسمبلی نے اُسے برطرف کردیا۔ اسی طرح جنوبی کوریا کی سب سے بڑی کمپنی سام سانگ کے مالک 'لی جے یانگ‘کوبھی کرپشن کے الزامات کے تحت پابندسلاسل ہونا پڑا۔ سامراجیوں کایہ سرمایہ دارانہ'کوریائی معجزہ‘اب ناکام ہورہا ہے۔ صدرمون کو شدید داخلی اورخارجی بحرانات درپیش ہیں،ٹرمپ انتظامیہ کادبائو ایک اورمسئلہ ہے۔تاہم اس نے کہا ہے کہ''مجھے یاد ہے کہ اس (ٹرمپ) نے ایک مرتبہ کہاتھا کہ وہ کِم جونگ سے چائے کی ایک نشست میں بات کرسکتاہے...مزیدمذاکرات کے ذریعے ہم بغیرکسی پریشانی کے ایک معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘یکم مئی کو ٹرمپ نے کہاکہ''مناسب حالات‘‘میں کِم جونگ سے ملنااُس کیلئے ''اعزازکی بات‘‘ہو گی۔ تاہم ٹرمپ کی خواہشات نہیں بلکہ امریکی سامراجی اسٹیبلشمنٹ ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن امریکہ کی جانب سے کسی فوجی آپریشن یامداخلت کے امکانات نہایت ہی کم ہیں۔دھونس و دھمکیاں اپنی جگہ لیکن دونوں اطراف جانتی ہیں کہ کھلا تصادم صورتحال کوبے قابو کردیگا۔جنوبی کوریاکی ٹوری یونیورسٹی کے مشرقی ایشیاکے ماہر'ڈینیل پنکسٹن‘نے کہاہے کہ ''امریکہ کی جانب سے شمالی کوریاپرکوئی بھی حملہ یاکارروائی امریکہ کے ایشین سکیورٹی الائنس کاشیرازہ بکھیردیگی۔یہ محض پاگل پن ہوگا۔‘‘
چین کے اس خطے میں بھاری مفادات ہیں۔آخری تجزئیے میں کِم جونگ کی ڈوریاں چین کے ہاتھ میں ہیں۔ جنوبی کوریامیں امریکہ کی 28500 فوجی چھائونیاں ہیں اورشمال و جنوب کاملاپ ان کوچین کی سرحد کے قریب تر لے جائے گا۔علاوہ ازیں کوئی انتشار بڑے پیمانے پر مہاجرین کی چین آمد کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ یوں نہ تو چین اور نہ ہی امریکہ دونوں 'کوریائوں‘ کے اتحاد کے حق میں ہیں؛ تاہم آبادی کی بڑی اکثریت اس تقسیم کی ہمیشہ سے مخالف رہی ہے۔ لاکھوں خاندان آج تک منقسم ہیں۔ مون نے بھی اپنی الیکشن مہم کے دوران کہا تھا کہ ''میری ماں (اپنے خاندان میں سے) واحد انسان تھی جو جنوب کی طرف آئی، وہ 90 سال کی ہے ، اس کی چھوٹی بہن ابھی بھی شمال میں زندہ ہے، میری ماں کی آخری خواہش اس کو دیکھنا ہے۔‘‘ ایک امریکی صحافی کے بقول '' یہ خواہش جنگی سرحد کے دونوں اطراف کے ان گنت افراد کے دلوں کی آہ ہے۔‘‘ لیکن چین و امریکہ جیسی سامراجی قوتیں،جنوب کے سرمایہ دار اور شمال کی افسرشاہی اپنے اپنے مفادات کے تحت اس تقسیم کو بھڑکاتے رہتے ہیں۔ صرف دونوں اطراف کے محنت کش عوام ہی ایک انقلابی تبدیلی کے ذریعے کوریا کو متحد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح سے سرمایہ دارانہ اور افسرشاہانہ جبر کا بھی خاتمہ ہوگا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں