4 نومبر کو سعودی عرب میں شروع ہونے والے آپریشن میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور کچھ قتل ہوئے۔ تمام نجی جہازوں کو پرواز کرنے سے روک دیا گیا اور جیسے ہی کسی شہزادے نے بھی جہاز یا ہیلی کاپٹر پر فرار ہونے کی کوشش کی اس کو مار گرایا گیا۔ درجنوں شہزادوں، وزیروں اور مذہبی راہنمائوں کو گرفتار کرکے ریاض کے 'رٹزکارلٹن ہوٹل‘ کی لابی میں نظر بند کرتے ہوئے‘ ہوٹل کو سخت ترین سکیورٹی میں محصور کر دیا گیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کو زیادہ تشویش دو افراد کی گرفتاری کی ہوئی۔ ان میں پہلے شہزادہ ولیدبن طلال ہیں‘ جس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا اور مہنگا ترین جہاز ہے اور وہ'ایپل‘، سٹی گروپ اور امریکی نیوز کارپوریشن کے بڑے حصص کی ملکیت بھی رکھتا ہے۔ ولید بن طلال کا نام دنیا کے50 امیرترین اشخاص میں بھی شامل ہے ۔ دوسرا شہزادہ ‘سعودی بن لادن گروپ کا مالک ہے، جس کے اثاثوں میں تعمیرات کے بڑے پروجیکٹ اور مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا سٹیلائٹ نیٹ ورک MBC‘ شامل ہیں۔ چند ماہ قبل سعودی عرب کے کرائون پرنس اور وزیر داخلہ محمد نائف کو برطرف کرکے شاہ سلمان نے اپنے بیٹے سلمان کو کرائون پرنس بنا دیا تھا۔ تمام تر سرکاری خبروں کے برعکس ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دوسرے انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ان کو ایک محل میں نظر بند کر دیا گیا تھا‘ اور ابھی تک وہ زیرِ حراست ہیں۔ ہفتہ 4 نومبر کو ہونے والے ''کریک ڈائون‘‘ میں زیادہ اہم گرفتاری شہزادہ متعب بن عبداللہ کی تھی جو نیشنل گارڈ کا کمانڈر تھا۔ اس کی گرفتاری پر بہت سے مبصروں کا یہ تجزیہ ہے کہ یہ واقعہ کرپشن کے خلاف کوئی آپریشن نہیں تھا‘ بلکہ ایک محلاتی بغاوت تھی‘ جو شاہی خاندان کے اندر سے ابھری تھی‘ اور اس کو کچل دیا گیا۔ اس آپریشن میں دو بیرونی ممالک کی عسکری قوتوں کے کردار کی خبریں بھی زوروں پر ہیں۔ السعود خاندان کی تاریخ میں یہ حیران کن واقعہ ہے اور اس کے حمامیوں کے لئے شدید تکلیف کا باعث ہے۔ تقریباً 90 سال سے اس خاندان کی بادشاہت سعودی عرب پر حاکمیت کرتی چلی آرہی ہے۔ شاہ عبدالعزیز کی پسندیدہ بیگم حسا بنت احمد السداری کے سات بیٹوں اور ان کی اولاد میں زیادہ تر طاقت کے اہم ستون تقسیم ہوتے چلے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک‘ شہزادہ سلطان 48 سال تک وزیر دفاع رہا۔ شہزادہ نائف اور بعد ازاں اس کے فرزند محمد بن نائف کے پاس زیادہ تر وزاتِ داخلہ کا قلم دان رہا۔ 1963ء سے اب تک وزارتِ دفاع اور فوج کی کمان شہزادہ عبداللہ کی اولاد کے پاس تھی۔ اب یہ تین ریاستی ستون شاہ سلمان کے 32 سالہ بیٹے محمد بن سلمان کے قبضے میں آ گئے ہیں۔ جب سے طاقت شہزادہ بن سلمان کے پاس منتقل ہوئی ہے‘ سعودی عرب کی خارجی، اقتصادی اور سماجی پالیسیوں میں جارحیت پر مبنی ایک نمایاں شدت آ گئی ہے۔ اسی نے سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی دفعہ خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت دی ہے تو دوسری جانب یمن پر ڈھائی سال قبل حملہ کرانے میں بھی محمد بن سلمان کی ہی جارحانہ پالیسی کارفرما ہے، جس سے پہلے سے موجود خطے کا خلفشار مزید خونریز ہو گیا ہے۔ 2015ء سے اب تک اس یمنی جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور یمنی حوثی ابھی تک شمالی یمن اور دارالحکومت صنعا پر قابض ہیں۔ اسی طرح اس سال قطر پر اقتصادی آبی اور ہوائی راستوں پر جو پابندیاں لگائی گئیں‘ وہ بھی قطر کے شاہی خاندان کو جھکانے میں ناکام رہی ہیں۔ دوسری جانب طویل عرصے سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ''سر د جنگ‘‘ اور پورے خطے کے ممالک میں پراکسی لڑائیاں بھی شدت اختیار کر گئی ہیں۔ لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کا پچھلے ہفتے ملک سے فرار ہونا‘ اسی لڑائی کا نتیجہ اور لبنان میں ایران کی بڑھتی ہوئی بالادستی کو ظاہر کرتا ہے۔ سعد حریری نے بھی 2011 ء میں تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کی طرح معزول ہونے کے بعد سعودی عرب ہی آن پڑائو ڈالا ہے۔ شاہی خاندان میں تنازعات اور تضادات کے پھٹنے اور مزید انتشار کے امکانات کی بنیادی وجہ 'معاشی بحران‘ میں شدید اضافہ ہے۔ تیل کی قیمتوں کے گرنے اور معاشی گراوٹ کے دور میں شاہی خاندان و سعود ی اشرافیہ کے بے دریغ اخراجات سے نہ صرف سعودی خزانہ بہت گر گیا ہے اور پچھلے چند سالوں سے سعودی حکومت آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں سے بڑے قرضے لینے پر مجبور ہے۔ اس خسارے میں زیادہ بڑھوتی کی وجہ وہ بھاری اسلحہ ہے جو امریکی اور دوسری اسلحہ ساز اجارہ داریوں سے مسلسل خریدا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اس خریداری سے دنیا کے پانچ سب سے زیادہ جدید اور مہنگا اسلحہ خریدنے والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے مغربی اقتصادی ماہرین کی مشاورت سے اس بحران سے نکلنے کے لئے‘ معیشت کی نجکاری اور اس کے ڈھانچے تبدیل کرنے کی جو پالیسیاں اختیار کرنا شروع کی ہیں، ان سے یہ بحران حل ہونے کی بجائے زیادہ پُر انتشار ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ محلاتی تصادم اس کی غمازی کرتا ہے۔ محمد بن سلمان کی سب سے بڑی اقتصادی مہم جوئی دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو (Aramco) کی نجکاری کا آغاز کرنا ہے۔ آرامکو کی نجکاری کے مسئلے پر اور بن سلمان کی دوسری ''اصلاحات‘‘ بھی ان شاہی خاندان کے تنازعوں کا باعث بنی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شاہی خاندان جیسے پہلے شاہ خرچیوں والی زندگی گزار رہا تھا اب یہ مشکل ہوتا جا رہا ہے اور بن سلمان کی ''اصلاحات‘‘ بھی اس اقتصادی زوال کو روک نہیں سکیں گی۔ یہ شہزادے ان مشکلات کے خوف اور دبائو سے آپس میں دست و گریباں ہیں۔ اس نجکاری سے پیسے تو بہت ملیں گے، لیکن جس طرح سعودی مالیاتی خساروں کا اندھا کنواں مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے‘ اس میں اس پیسے کے غرق ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ تیل پر معیشت کے انحصار کو منتقل کرنے کے لئے دوسرے دیوہیکل صنعتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ سامراجی اجارہ داریوں کو سعودی عرب میںمزید ''سرمایہ کاری‘‘ کی ترغیب دینے کے لئے جن سہولیات اور رعایتوں کا اعلان کیا جا رہا ہے اس سے سعودی معیشت کو کم اور سامراجیوں کو زیادہ منافعے حاصل ہوں گے۔ ٹرمپ اپنے اور محمد بن سلمان سے گہرے یارانے کو 'امریکی بحران زدہ معیشت‘ کے لئے سعودی وسائل کو لوٹنے کے لئے بروئے کار لا رہا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت شہزادہ بن سلمان نے پورے مشرقِ وسطیٰ اور جنوب ایشیا میں سب سے بڑا ''معاشی زون‘‘ بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس زون کا نام ''نیوم‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس 'زون‘ پر پہلے سے مالیاتی بحران میں مبتلا سعودی بادشاہت 500 ارب ڈالر صرف کرے گی تاکہ وہ بنیادی ڈھانچے اور ضروریات استوار کی جائیں جو مغربی اور چینی سرمایہ کاروں کو تیز اور زیادہ منافع خوری کے لئے درکار ہیں۔ لیکن اس منصوبے میں سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ اس میں قائم ہونے والی صنعتوں میں مزدوروں کے لئے کوئی کام نہیں ہو گا اور مزدورں کا کام کرنے کے لئے 'روبوٹس‘ نصب کرنے پر بھاری اخراجات صرف کیے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب میں کل کام کرنے والے محنت کشوں کی 80 فیصد تعداد بیرون ملک سے آنے والے مزدوروںکی ہے۔ ان مزدوروںکو محنت کے عوض جو تھوڑی بہت اجرت ملتی تھی‘ اور وہ اس کو اپنے کنبوں کو پاکستان، ہندوستان اور دوسرے ممالک ترسیل کرتے تھے، اس کے خاتمے کا آغاز ہو گیا ہے۔ لاکھوں مزدوروں کو سعودی عرب سے ملک بدر کیا گیا ہے اور مزید لاکھوں ملک بدر ہوں گے، کیونکہ باقی صنعتوں میں مندی کے رجحان سے روزگار کے مواقع ختم ہو رہے ہیں۔ لیکن اس معاشی زون کے ترقی کرنے کے امکانات بھی مخدوش ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کے بحران کی بحالی نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری بہت ماند پڑ چکی ہے۔ اس بحران کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آ رہے اس لیے یہ نظام سعودی عرب میں بھی کوئی ترقی نہیں دے سکتا۔ یہ وہ بنیادی بحران ہے میرے خیال میں جس کی وجہ سے شاہی خاندان میں 'موجودہ تصادم‘ نے جنم لیا ہے۔ موجودہ 'انتشار‘ تو شایدکسی حد تک دبا دیا جائے مگر نیچے معاشرے میں ابھرنے والی بغاوت کچلنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔