"DLK" (space) message & send to 7575

افغانستان کی خونی دلدل

افغانستان میں ہفتہ 27 جنوری کو ہونے والا 'ایمبولنس بم دھماکہ‘ پچھلے 40 سال کے سب سے ہولناک قتل عام میں شمار ہو رہا ہے۔ اب تک 103 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 158 زخمی ہیں۔ کابل شہر کے مصروف ترین حصے، جہاں وزارت داخلہ کی پرانی عمارت تھی، میں ہونے والا یہ دھماکہ کروایا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس سے خوف و ہراس پھیلے اور افغانستان میں خلفشار اور بدامنی میں مزید اضافہ ہو۔ طالبان نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ دھماکہ کابل کے پر تعیش 'انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل‘ میں ہونے والی دہشت گردی کے چند ہی دن بعد ہوا ہے۔
امریکی سامراج کی طویل ترین جارحیت پر مبنی جنگ اور قبضے کے 17 سال بعد افغانستان کی موجودہ صورتحال اور ان کی کٹھ پتلی حکومت کی رٹ کا کابل تک محدود ہونا ان کی شکستِ فاش کی غمازی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں یہ دہشت گردی کی کارروائیاں تواتر اختیار کر گئی ہیں۔ وسطی کابل کو ایک قلعہ نما زون بنا دیا گیا ہے۔ اونچی کنکریٹ کی بھاری دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں، لیکن یہ سب کچھ ان حملوں کو روکنے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ پچھلے عرصے میں امریکہ نے ایک نئی 'حکمت عملی‘ سے کارروائیاں شروع کی تھیں جس سے انہیں امید تھی کہ جنگ کا پانسہ پلٹ جائے گا۔ افغانستان سے سامراجی اخراج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے اس ماہ کے آغاز میں امریکی میڈیا گروپ 'سی بی ایس‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ''نئی پالیسی فیصلہ کن ہو گی اور آخری معرکہ ثابت ہو گی۔ اس سے ہم فتح حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔ اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجوں کے انخلا کا وعدہ کیا تھا لیکن فوجی کمانڈروں کے دبائو کے تحت اس کو اُلٹ پالیسی لاگو کرنا پڑی اور اوباما کے دور کی فوجی تعیناتی میں‘ مزید فوجی دستے بھیج کر اضافہ کیا گیا۔ امریکی فوجی کارروائیاں پچھلے چند ہفتوں میں تیز تر کر دی گئی ہیں اور امریکی جنگی طیاروں نے فضائی بمباری کے لئے زیادہ سے زیادہ اڑانیں بھرنا شروع کر دی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے طالبان بھی اپنے حملوں میں شدت لے آئے ہیں۔ وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ حکمت عملی انہیں کمزور کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت پر جتنا دبائو بڑھ رہا ہے اس کی افسر شاہی بوکھلاہٹ کا شکار ہو رہی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے اس دہشت گردی کی کارروائی کا سارا الزام 'حقانی نیٹ ورک‘ پر لگایا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا موردِ الزام پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو ٹھہرانا چاہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے مغربی میڈیا 'حقانی نیٹ ورک‘ کو پاکستانی ریاست کی پراکسی کے طور پر پیش کر رہا ہے جبکہ حکومتِ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں ''پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے افغانستان کی حکومت اور عوام سے یکجہتی‘‘ کا اعادہ کیا ہے۔افغانستان میں بھارت جیسے ممالک کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ سیاسی اور عسکری پراکسیاں افغانستان کی اس خونی دلدل کو مزید گہرا کر رہی ہیں۔ چھپ کر وارکرنے کی وارداتوں سے افغانستان اور پاکستان کے مغربی علاقوں کے غریب عوام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی اگرچہ مسلسل وفاداریاں بدلتے رہے لیکن کچھ رجائیت کا تاثر دینے کی کوشش ضرور کرتے تھے، لیکن موجودہ صدر اشرف غنی تو بالکل ہی حوصلہ ہار چکے ہیں۔ حال ہی میں 'سی بی ایس‘ کی صحافی لارا لوگن سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے حیران کر دینے والا بیان دیا کہ ''اگر امریکی فوجیں افغانستان سے نکال لی جاتی ہیں تو افغانستان کی فو ج چھ ماہ میںہی ڈھیر ہو جائے گی... ہم اس وقت مجبور ہیں... عوام کو دہشت زدہ کر کے طالبان نے ہماری حکومت کے بار ے میں شدید شکوک و شبہات پیدا کر دئیے ہیں۔ اس دہشت سے عوام سڑکوں پر مظاہروں میں آئے اور 'اشرف غنی کو پھانسی دو‘ کے نعرے لگا رہے تھے‘‘۔ یہ کسی ایسے حکمران کا بیان نہیں ہو سکتا جس کو ہار کے علاوہ کچھ نظر آ رہا ہو، لیکن یہ کیفیت ہر اس حکمران کا مقدر ہوتی ہے جو اپنے ہی لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور سامراجی آقائوں کی دلالی کرتا ہے۔ اگر ان کی زندگی کا وقت گزر بھی جائے تو وہ ننگ زمیں، ننگ آسماں اور ننگ وطن کے طور پر ہی جانے جاتے ہیں۔
پہلے عراق اور اب افغانستان میں امریکی سامراج کو شکست ہوئی ہے۔ اس کا اعتراف تقریباً آٹھ سال پہلے افغانستان میں امریکی فوجوں کے سپہ سالار جنر ل سٹینلے میکرسٹل نے اپنے استعفیٰ کی شکل میں کر لیا تھا۔ 17 سال قبل کی گئی جارحیت کا خمیازہ سامراجیوں کو بہت بری طرح بھگتنا پڑا ہے۔ آج افغانستان کا 90 فیصد بجٹ امریکی خزانے سے آتا ہے۔ اِس کے برعکس یورپی سامراجی خاصے کفایت شعار اور منافقانہ سفارتکاری کے حامل ہیں۔ اسی عرصے میں 2400 سے زیادہ امریکی فوجی، جن کی اکثریت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھی، مارے جا چکے ہیں۔ اس جنگ پر امریکہ ایک ٹریلین ڈالر صرف کر چکا ہے اور انجام ساری دنیا کے سامنے ہے۔ طالبان کے کنڑول میں‘ خود امریکی حکام کے مطابق 47 فیصد افغان سرزمین ہے۔
افغانستان کئی صدیوں تک سامراجی گریٹ گیم کا اکھاڑہ بنا رہا ہے۔ افغانستان کے عوام کے لیے امید کی کرن تب ابھری تھی جب 27 اپریل 1978ء کو نور محمد ترکئی کی سربراہی میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) نے اقتدار پر قبضہ کر کے ایک انقلابی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ اس سوشلسٹ حکومت نے جو ریڈیکل اقدامات کئے‘ ان میں سرمایہ داری اور جاگیرداری کاخاتمہ، تعلیم اور علاج کی مفت فراہمی، خواتین اور چھوٹی قومیتوں پر جبر کا خاتمہ اور دہقانوں میں زمینوں کی تقسیم شامل تھی، لیکن یہ انقلابی رجحانات عالمی سامراج اور علاقائی حاکمیتوں کے لیے بڑا خطرہ تھے۔ اس انقلابی حکومت کے خاتمے کے لئے افغانستان پر ڈالر کی یلغار کر دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق سامراجیوں کا سب سے بڑا سہولت کار تھا، جس نے اس رجعتی خانہ جنگی میں پاکستان کو دھکیل کر یہاں کلاشنکوف کلچر اور مذہبی دہشت گردی کو فروغ دلوایا۔ 14 سال بعد بائیں بازوکی حکومت تو داخلی غداریوں سے گر گئی لیکن افغانستان برباد ہو گیا اور پورے خطے کو بنیاد پرستی اور خونریزی کا ہولناک عفریت نگلنے لگا۔ آج اِنہی ''مجاہدین‘‘ کے درجنوں گروہ ہیں‘ جو اپنے ہی تخلیق کاروں کے لیے درد سر بن گئے ہیں۔ سامراجی اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے سب کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں۔ روم سے لے کر خاندان مغلیہ تک‘ تمام سلطنتوں کا زوال اسی طر ح ہوا تھا۔ آج امریکی سامراج اس کیفیت سے دوچار ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی بیہودہ حرکتیں اِس عمل کو تیز تر کر رہی ہیں۔
افغانستان کو سب عالمی اور علاقائی سامراجی گدھ نوچ رہے ہیں۔ کوئی 'تعمیر نو‘ کے نام پر یہ کھلواڑ کر رہا ہے تو کوئی منشیات کے کالے دھن پر پلنے والی پراکسیوں کی براہِ راست پشت پناہی کر رہا ہے۔ افغان کٹھ پتلی ریاست کرپٹ اور جابر ترین جنگی سرداروں پر مشتمل ہے۔ اقوامِ متحدہ اور اس جیسے گماشتہ اداروں اور نام نہاد 'عالمی برادری‘ کی اصلیت سب کے سامنے عیاں ہے۔ یہاں کے برباد عوام کے لیے 1978ء کا افغان ثور انقلاب ہی آج بھی مشعل راہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں