"DLK" (space) message & send to 7575

مشرق وسطیٰ میں نئی تحریکوں کے آثار

کچھ ہفتوں سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں پھر سے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ سات سال قبل بحر اوقیانوس کے ساحلوں سے بحر ہند کے کناروں تک عرب اور شمالی افریقہ کے ممالک میں تحریکیں ابھرنے کے بعد اب سماج میں ایک نئی ہلچل ہے۔ اگرچہ یہ مظاہرے 2011ء کی نسبت چھوٹے سہی لیکن ان سماجوں میں ایک نئی بیداری کی نوید ہیں۔ یہ عوامی تحریک کے احیا کا اعلان ہے جو عوام کی لہر کے نشیب، پژمردگی اور رجعت کے ہاتھوں پیچھے چلی گئی تھی۔
مصر اپنی آبادی، کسی حد تک صنعتی بنیادوں، محل وقوع اور انقلابی تحریکوں کی روایات کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا اہم ترین ملک ہے۔ 2011ء میں بھی تحریک کی شدت سب سے زیادہ مصر میں تھی جہاں حسنی مبارک کی جابرانہ حکومت کو نکال باہر کیا گیا۔ لیکن کارپوریٹ میڈیا اور اخوان المسلمین کی قیادت نے اس تحریک کو 'جمہوریت‘ میں زائل کر دیا۔ انقلابی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکی، نظام بدستور قائم رہا اور مصری عوام سماجی اور معاشی نجات سے محروم رہے۔
اخوان کے محمد مرسی کے مقابلے میں بائیں بازو کا کوئی سنجیدہ امیدوار نہیں تھا۔ 'اسلامی فلاحی ریاست‘ کا نعرہ لگا کر وہ آئی ایم ایف اور دوسرے سامراجی اداروں کے احکامات پر عمل کرتا رہا‘ جس سے عوام کی حالت بد سے بد تر ہوتی گئی۔ کچھ مہینوں میں ہی اس 'اسلامی حکومت‘ کے خلاف ایک اور عوامی بغاوت ہوئی اور تحریک میں قیادت کے خلا کا فائدے اٹھاتے ہوئے فوج نے مرسی کو برطرف کر دیا۔ جنرل عبدالفتاح السیسی کی سفاکانہ آمریت آئی‘ جس نے بعد میں ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ لیکن اب السیسی آمریت کے خلاف نئی سیاسی اپوزیشن کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ 31 جنوری کو مصر میں اپوزیشن گروپوں کے اتحاد نے مارچ میں ہونے والے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے انہیں 'پاگل پن کی حد تک بیہودہ‘ قرار دیا ہے کیونکہ تمام سنجیدہ امیدواروں کو گرفتار یا ڈرا دھمکا کر کارنر کر دیا گیا ہے۔ آٹھ اپوزیشن جماعتوں کے گروپ کے ایک مشترکہ اعلامیے میں عوام سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کو کہا گیا ہے اور صدر السیسی پر ''ہر طرح کے منصفانہ مقابلے‘‘ کو روکنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تر بورژوا اور مذہبی پارٹیاں شامل ہیں لیکن یہ سماج میں حکومت اور نظام کے خلاف پنپتے ہوئے عدم اطمینان اور نفرت کا اظہار ہے۔ 
السیسی کے دورِ حکومت میں مصری عوام نہ صرف سخت سیاسی جبر کا شکار ہیں‘ بلکہ عالمی سامراجی اداروں کی بنائی ہوئی ظالمانہ سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے ہاتھوں معاشی طور پر برباد بھی ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے 12 ارب ڈالرقرضے کے معاہدے کی شرط کے طور پر مصری پائونڈ کی قدر کو منڈی پر چھوڑ دینے کے نتیجے میں اس کی قدر 0.112 ڈالر سے گر کر 0.057 رہ گئی ہے اور افراط زر35 فیصد تک جا پہنچا ہے۔محنت کشوں کی جدوجہد کے راستے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ہڑتال کرنا قانوناً جرم ہے۔2016 ء اور 2017ء میں کم از کم 180 محنت کشوں کو کام کی جگہوں پر پر امن ہڑتال اور احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ آزاد ٹریڈ یونین پر عملی طور پر پابندی ہے۔السیسی کی کٹھ پتلی پارلیمنٹ نے دسمبر میں ایک نیا ٹریڈ یونین قانون پاس کیا ، جس کی رو سے کئی پابندیاں برقرار رہیں گی اور آزاد ٹریڈ یونین کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ واحد تسلیم شدہ یونین حکومتی کنٹرول میں مصری ٹریڈ یونین فیڈریشن ہے جس کے بورڈ کے انتخابات بارہ سال سے نہیں ہوئے اور عالمی لیبر لاز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت ہی اس سے لیڈر نامزد کرتی آ رہی ہے۔ جبری گمشدگیاں، ٹارچر اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کا بازار گرم ہے۔ لیکن مزدور تحریک ہی عوامی مزاحمت کا اہم ترین ممکنہ راستہ ہے۔منظم محنت کش معیشت اور ریاستی مشینری کے کلیدی حصوں کو جام کر سکتے ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں نچلی سطح پر خود کو منظم کرنے کا تجربہ اور اسباق اس سلسلے میں بہت اہم ہیں۔ان روایات کو کچلنے کی حکومتی کوششوں کے باوجودحالیہ ہڑتالیںاور ہڑتال کی کوششیں حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔یہ مزدور تحریک میں ایک نئے ابھار کا پیش خیمہ بن کر آنے والے دنوں میںبڑی جدوجہد کا راستہ ہموار کر سکتی ہیں۔
یہ کیفیت مصر تک محدود نہیں ہے۔ مراکش، تیونس، ایران اور دوسرے کئی ممالک میں بھی تحریکوں کے ابتدائی آثار نظر آ ئے ہیں، جو ایک بڑے پیمانے کی بغاوت بن سکتی ہیں۔ تیونس اور ہمسایہ ممالک کے چھوٹے شہروں میں مقامی مظاہرے ہوئے ہیں۔ مراکش میں پچھلے سال کے احتجاج کے بعد غصے میں اضافہ ہو رہا ہے۔رواں برس کے آغاز سے سوڈان میں مظاہروں کا غیر معمولی سلسلہ شروع ہے۔ کچھ ہفتے قبل ایران میں ہونے والے مظاہروں سے حکومت کانپ گئی ہے۔ٹرمپ، نیتن یاہو اور دوسرے مغربی سامراجی حکمرانوں کے منافقت بھرے بیانات تہر ان میں ان کی 'مخالف‘ حکومت کے لیے نعمت ثابت ہوئے اور مظاہرے کچھ شہروں تک محدود رہے۔ ان تمام واقعات میں قدر مشترک آئی ایم ایف کے تجویز کردہ اقدامات ہیں جن میں عوامی اخراجات میں کمی، سرکاری شعبے میں برطرفیاں، ایندھن اور دوسری بنیادی اجناس پر سبسڈی کا خاتمہ شامل ہیں۔
جوں ہی کسی سماجی تحریک کا حجم ایک حد سے تجاوز کرتا ہے تو وہ ناگزیر طور پر معاشی سے سیاسی نوعیت اختیار کر لیتی ہے۔لیکن اس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ حسنی مبارک اور بن علی کے وقت احتجاج کا ہدف ان آمریتوں کا خاتمہ تھا اور تحریکیں اِس سے آگے نہیں بڑھ پائیں۔ لیکن آج یہ عدم اطمینان کہیں گہری سماجی و معاشی نوعیت کا ہے۔ جنرل یونین آف تیونس ورکرز (یو جی ٹی ٹی) ان مظاہروں کو وسیع اور ان کی قیادت کر سکتی تھی، لیکن انہوں نے حکومت سے مصالحت کی راہ اپنا لی۔تیونس میں ٹریڈ یونین تحریک تاریخی طور پر مضبوط رہی ہے اور سماج میں اس کی جڑیں موجود ہیں۔ لیکن قیادت نے انقلابی راستہ اپنانے کی بجائے مفاہمت کا فیصلہ کیا ہے۔ نتیجتاً یو جی ٹی ٹی کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
2011ء کے بعد سے آئی ایم ایف کی بڑھتی ہوئی نیو لبرل جارحیت کے نتیجے میں تیونس، مصر، ایران، مراکش اور دوسرے ممالک کے عوام بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔وہ 'معاشی معجزہ‘ رونما نہیں ہو سکا جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔ 2011ء میں تحریکوں کی پسپائی، بنیاد پرستوں اورسامراجیوں کی دہشت گردی اور حکومتوں کے بے رحمانہ سماجی اور معاشی جبر کے صدموں سے سنبھلنے پر لوگ ایک بار پھر تحریک میں ابھر سکتے ہیں۔ 2011ء کے 'عرب بہار‘انقلاب کو ایک طویل دورانئے کے انقلابی عمل کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں کئی نشیب و فراز ہیں۔ ایک انقلابی تبدیلی کے بغیر خطے میں استحکام نہیں آ سکتا۔ طبقاتی بنیادوں پر انقلابی کردار کی حامل ایک عوامی تحریک ہی وہ قوت ہے جو ا س خطے سے دہشت اور خونریزی کاخاتمہ کر سکتی ہے۔ انقلابی نظریات اور قیادت میسر آنے پر یہی تحریک خطے کی رجعتی عرب بادشاہتوں، فوجی اور نیم جمہوری آمریتوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جابر صیہونی حکومت کا بھی خاتمہ کر سکتی ہے۔ایک سوشلسٹ انقلاب ہی محکوم قومیتوں اور مجبور طبقات کی نجات کا باعث بن سکتا ہے۔2011ء کی طرح اس انقلابی تبدیلی کے اثرات بھی پورے مشرق وسطیٰ کے علاوہ دور دور تک مرتب ہوں گے جس سے دنیا بھر میں طبقاتی جدوجہد اور عوامی تحریکوں کو ایک نئی تقویت ملے گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں