"DLK" (space) message & send to 7575

نقیب اللہ سے علی وزیر تک

تاریخ گواہ ہے کہ حکمران اپنی طاقت کے نشے، اپنی حاکمیت کے گھمنڈ اور وحشت میں ایسے کام کر بیٹھتے ہیں کہ ان کے یہ معمول کے مظالم بھی بعض اوقات غیر معمولی واقعات بن جاتے ہیں اور ان کی حاکمیت کو ہی خطرے میں ڈال دیتے تھے۔ ان کی خونیں وارداتوں سے عام لوگوں میں جو غم و غصہ بھڑکتا رہتا ہے اسے کبھی نہ کبھی پھٹنا ہوتا ہے اور پھر ایسی تحریکوں سے ان کی جابر حکمرانیاں لرزنے لگتی ہیں اور انہیں اکھاڑ پھینکے جانے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔
نقیب اللہ محسود جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا گیا کوئی پہلا معصوم نہیں تھا، نہ ہی اس استحصالی اور وحشیانہ نظام میں آخری ہو گا‘ لیکن نقیب اللہ کا وحشیانہ قتل‘ ریاست اور سیاست کے آقائوں کو بھاری پڑ گیا ہے۔ اس کے مبینہ قاتل رائو انوار کو نہ صرف ایف آئی اے نے اسلام آباد ائیر پورٹ پر باہر جانے سے ''روک ‘‘ کر پھر اندر کہیں غائب ہو جانے دیا‘ بلکہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود وہ میڈیا سے رابطے بھی کر رہا ہے، اپنے بیانات بھی دے رہا ہے لیکن اس ملک کے تمام صوبوں کی پولیس اور ریاست کی بڑی مہارت اور شہرت رکھنے والی ایجنسیاں اس کو گرفتار کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ یہ ریاست ایک ایسے قاتل کو گرفتار نہیں کر پا رہی ہے جس کی گرفتاری کے لئے خود حکمران بھی شور مچانے کا ناٹک کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں‘ اور میڈیا کا واویلا بھی جاری ہے۔ نظام عدل بھی یہاں بے بسی کا تماشا محسوس ہوتا ہے۔ گرفتاری کے اہداف کے دن بڑھانے اور پولیس کو احکامات دینے کے علاوہ کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا سے لے کر سیاستدانوں تک سب ان شخصیات کو بے نقاب کرنے سے گریزاں ہیں‘ جو رائو انوار سے یہ وارداتیں کرواتی رہی ہیں۔ جائیدادوں کے یہ دولت مند بیوپاری اتنے طاقتور ہیں کہ اس معاشرے میں کسی کا بھی منہ بند کروا سکتے ہیں۔ اگر وہ خاموش نہ ہو تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔
رائو انوار والا یہ تمام تر قصہ کسی مافیا فلم سے کم ہولناک نہیں ہے۔ میرے خیال میں وہ اسی لئے ابھی تک ہاتھ نہیں آیا ہے کہ اس کے پاس بڑے بڑوں کے مکروہ جرائم کے ایسے ثبوت ہیں جو اگر کھلے تو بات بڑی دور تک جائے گی۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ رائو انوار گرفتاری پیش کر دیتا اور پھر جیسا کہ اس ملک میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ کورٹ کچہریوں کی تاریخوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں اس کے جرائم گم ہو جاتے اور معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی وہ کسی دور دراز جزیرے پر باقی عمر عیاشی کرتا‘ لیکن اہل اقتدار میں پھوٹ اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ شاید ایک دھڑا دوسرے کو نہیں بخشے گا۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ خود رائو انوار کو ہی ٹھکانے لگا کر راستے سے ہٹا دیا جائے۔ لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اُس نے تمام تر بیانات اور ثبوت کہیں محفوظ کر دئیے ہوں جو اس کے مرنے کی صورت میں منظر عام پر آ جائیں اور اسے مروانے والے اور بڑی مصیبت میں پھنس جائیں، کئی موروثی سیاستیں فنا ہو جائیں اور کئی پارٹیاں بکھر کر ہمیشہ کے لئے صفحۂ ہستی سے ہی مٹ جائیں۔ 
میری نظر میں میڈیا کا ایک حصہ تو اِس ایشو کو کئی دوسرے ایشوز کی طرح اچھال کر پھر غائب کرنے کے چکر میں تھا۔ لیکن حکمرانوں کے لئے جو اصل مصیبت کھڑی ہو گئی‘ وہ وزیرستان کے قبائل اور دوسرے علاقوں کے پشتون اور غیر پشتون مظلوموں کا اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنا ہے۔ پہلے پہل اِس کا مکمل بلیک آئوٹ کیا گیا‘ لیکن پھر مجبوراً کوریج دینا پڑی۔ شاید ا س دھرنے کو منظم اور متحرک کرنے والے ایسے کارکنان ہیں جو اِن مقتدر قوتوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور نیچے سے عام لوگوں کا غم و غصہ اتنا شدید ہے کہ ماضی کے طرح دھرنے بٹھانا اور اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس دھرنے نے مختلف قبائل کو یک جا کر دیا ہے۔ ایسے قبائل جن میں نسلوں سے دشمنیاں بھی چل رہی تھیں ایک دوسرے کی قتل و غارت کی تاریخ پائی جاتی ہے‘ ان کی نئی نسل کو نقیب اللہ کے اس بہیمانہ قتل نے ایک یکجہتی میں پرو دیا ہے۔ مطالبات نقیب اللہ کے معاملے میں آگے بڑھ کر عمومی ریاستی جبر کو چیلنج کر رہے ہیں اور مقتدر حلقوں کے لئے مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ وہ کچھ کریں یا پھر نہ کریں، دونوں صورتوں میں مصیبت میں پھنستے ہیں۔ مذاکرات کا فریب بھی اب نامراد سا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس تحریک کو منظم اور متحرک کر کے قبائلی عوام کی آواز بننے والوں میں ایک اہم فرد علی وزیر بھی ہے۔ علی وزیر وانا جنوبی وزیرستان کا باسی ہے اور علاقے کی ایک مقبول سیاسی و سماجی شخصیت ہے جس کے نظریات انقلابی ہیں۔ پچھلے عام انتخابات میں علی وزیر نے 8750 ووٹ لئے تھے اور اس کے مد مقابل غالب خان، جس کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا، نے چند سو ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس وقت یہی نواز لیگ مقتدر قوتوں کی بڑی چہیتی تھی۔ جنوبی وزیرستان کے عام لوگوں کا خیال ہے کہ علی وزیر کو اس کے سوشلسٹ نظریات اور عوام دوست سیاست کی وجہ سے ہروایا گیا تھا۔ لیکن اُس نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل ٹھیلے والے غریبوں سے لے کر کچی آبادیوں کے باسیوں تک کی تحریکوں کو منظم بھی کیا اور ان کی 
قیادت بھی کی۔ وہ ہمیشہ غریب قبائلی عوام اور نوجوانوں کی آواز بنا ہے۔ اس کو رجعتی قوتوں کی دھمکیاں بھی جھیلنی پڑیں اور وہ سامراجی گماشتوں کے جبر کا بھی شکار رہا لیکن محنت کش طبقات کی قوت پر یقین اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد سے اس کی جدوجہد جاری رہی۔ پیر 5 فروری کو اسلام آباد میں دھرنے کے منتظم جرگے نے علی کو واپس اپنے علاقے میں اس دھرنے کی سہولت کے لئے نئے کارواں تیار کرنے کا فریضہ سونپ کر بھیجا۔ اسی دوران رجعتی دہشت گرد قوتوں نے ایک نوجوان ادریس وزیر، جو دھرنے کے لئے اسلام آباد جا رہا تھا، کو قتل کر دیا۔ اس کے خلاف مقامی آبادی کا غصہ پھٹ پڑا اور قاتلوں کے ٹھکانے کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ ان مظاہروں کی پاداش میں علی وزیر کو گرفتار کرکے بکتر بند گاڑی میں کسی خفیہ مقام پر لے جایا گیا۔ اسلام آباد کے دھرنے میں منگل کی شام کو علی وزیر کی گرفتاری کے خلاف بار بار مذمتی اعلانات ہوئے اور قراردادیں پیش کی جا رہی تھیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی عوام کا دبائو کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا۔ رات گئے اس کو چھوڑ تو دیا گیا‘ لیکن اس کی زندگی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس تحریک میں لانگ مارچ سے اسلام آباد دھرنے تک کی جدوجہد نے عام لوگوں کو بیدار کر دیا ہے۔ نقیب اللہ کے بہیمانہ قتل کے خلاف نہ صرف پشتونوں بلکہ پورے ملک کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اس دھرنے پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈر آ کر اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن شرکا ان کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ ان کے ادراک کا یہ عالم ہے کہ جس پارٹی کے لیڈر کا نام رائو انوار کے ساتھ جڑا ہوا ہے جب اس کا ایک کارندہ اس دھرنے میں تقریر کرنے آیا تو اس کو جوتوں کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام بے شعور اور بیوقوف نہیں ہوتے۔ انہیں اپنے قاتلوں کی اصلیت کا مکمل ادراک ہے۔ ان کے سینوں میں جابروں کے خلاف بھڑکنے والی نفرت کی آگ اب کی بار سڑکوں پر آ گئی ہے، جو پھیل کر اِس حاکمیت کو بھسم بھی کر سکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں