حالیہ دنوں یورپ میں ہونے والی شدید سردی کی لہر نے ایک دفعہ پھر ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی زندگی پر اس کے خطرناک اثرات کو اجاگر کیا ہے۔ شدید برفباری کی وجہ سے معاملات زندگی متاثر ہو رہے ہیں۔ پروازیں منسوخ کر دی گئیں اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔ سردی کی یہ لہر، جسے برطانیہ میں 'مشرقی درندہ‘ کہا جا رہا ہے، پورے براعظم یورپ میں خون جما دینے والی سردی کا باعث بن رہی ہے۔ یورپ کے مختلف حصوں میں اس موسم کو مختلف نام دیئے گئے ہیں۔ ہالینڈ میں اسے 'سائبیرین ریچھ‘ جبکہ سویڈن میں 'برفانی توپ‘ کہا جا رہا ہے۔ اب تک کئی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے لیکن یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اب پورے سیارے کے سماجوں کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکی ہے۔
تاہم یہ ماحولیاتی بحران اور ماحولیاتی تبدیلی کوئی قدرتی آفت نہیں ہے۔ یہ دراصل بحران زدہ سرمایہ داری کا نتیجہ ہے۔ شرح منافع میں گراوٹ کی وجہ سے نیو لبرل سرمایہ داری کی منافع کی ہوس مزید بڑھ چکی ہے۔ اپنے زوال کے اس عہد میں یہ محنت کش طبقات کا وحشیانہ طریقے سے استحصال کر رہی اور انہیں کچلتے ہوئے کبھی نہ دیکھی گئی غربت اور نابرابری پھیلا رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ماحولیات کو برباد کرکے کرہ ارض کو تاراج کر رہا ہے۔ روس، چین اور مشرقی یورپ میں سرمایہ داری کی بحالی اور عالمی منڈی میں دوبارہ شمولیت سے کارپوریٹ سرمائے کی جغرافیائی عملداری میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس پھیلائو کی وجہ سے عالمی ماحولیاتی بحران میں شدت آئی ہے۔
عالمی سطح پر فوسل فیول کی توانائی کے استعمال کے نتائج آج واضح ہو چکے ہیں۔ کرہ زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیر پگھل رہے ہیں، سطح سمندر میں اضافہ، پانی کی سطح میں کمی، صحرائوں میں اضافہ، تازہ پانی نایاب جبکہ زراعت شدید خطرات کی زد میں ہے اور شدید موسمی حالات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ فلپائن میں سُپر ٹائفون ہائیان کے اثرات سائنسدانوں کی پیش گوئیوں سے بھی بڑھ کر تھے۔ پیش گوئیاں پہلے سے ہی حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔ اس کے تباہ کن اثرات محض ان علاقوں تک محدود نہیں جو اس سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں بلکہ یہ تنائو کے سلسلوں کو جنم دے رہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کے ذخائر کے کنٹرول کے لیے کھنچا تانی دراصل اس بڑی دشمنی کا حصہ ہے جو جنوب ایشیائی برصغیر میں پھیلی محرومیوں کی ایک وجہ ہے۔ پاکستان میں بہنے والے اکثر دریا ہندوستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک سے آتے ہیں۔
سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ زمین کے ماحولیاتی درجہ حرارت میں 2 سینٹی گریڈ کے اضافے کے بعد اس کے ماحولیاتی نتائج آنا شروع ہوں گے جو ناقابل واپسی ہوں گے۔ برف کی تہوں اور گلیشیرز کے پگھلائو سے سطح سمندر میں اضافہ ہو گا، جس سے پوری دنیا میں ساحلی علاقے اور جزیروں پر مشتمل ممالک‘ مالدیپ اور بنگلہ دیش جیسے خطے اور نشیبی ممالک خطرے میں پڑ جائیں گے۔ مغربی انٹارکٹکا کے وسیع برفانی خطے میں عدم استحکام کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اور اگر یہ پگھل گیا تو سطح سمندر میں 7 میٹر کا اضافہ ہو جائے گا۔
پچھلی کچھ دہائیوں میں زیادہ تر پیٹی بورژوا زی کی جانب سے سگریٹ نوشی کے خلاف بے تحاشا مہمات چلائی گئیں۔ بہت سے ممالک نے عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگا دی۔ لیکن دنیا کے اکثر علاقوں میں آلودگی مزید بڑھ گئی ہے۔ سگریٹ کے علاوہ دوسری چیزوں سے اخراج ہونے والی کاربن گیسز کی فضائی آلودگی اس سے بھی زیادہ ہے۔ یہ فضائی آلودگی ہر سال ایڈز، ملیریا، ذیابیطس اور ٹی بی کے امراض سے ہلاک ہونے والے افراد سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کرتی ہے۔ یورپ اور امریکہ میں فضائی آلودگی کی حالت یہ ہے کہ اس کے اثرات روزانہ 0.4 سے 1.6سگریٹ پینے کے برابر ہیں۔ چین میں کیفیت اس سے بھی بد تر ہے‘ جہاں فضائی آلودگی کے صحت پر اثرات روزانہ تین پیکٹ سگریٹ (60سگریٹ) پینے کے نقصانات کے برابر ہیں۔ فضائی آلودگی آج دنیا میں بلاشبہ سب سے بڑی ماحولیاتی تباہی کی وجہ ہے۔ آٹوموبل انڈسٹری سے لے کر فوسل فیول کی اجارہ داریاں پوری عالمی معیشت اور سیاست پر قابض ہیں اور معاشی طور پر بحران زدہ ریاستیں خود ان پر منحصر ہیں۔
جیسے جیسے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ویسے ویسے تازہ پانی کے ذخائر پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سے خشک سالی اور گرمی کی شدت مزید بڑھے گی۔ گلیشیرز تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں اور زیر زمین آبی ذخائر خشک ہو رہے ہیں۔ دریا خشک ہو رہے ہیں۔ دنیا کے تازہ پانی کا 50 فیصد پہاڑوں کے چشموں اور برف کے پگھلنے سے آتا ہے۔ آنے والے دنوں میں پانی کے ذخائر پر جنگیں لڑی جائیں گی جبکہ پہلے سے ہی بنی نوع انسان خونی پراکسی جنگوں کی تباہ کاریوں سے رُل رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فیکٹری فارمنگ اور کیڑے مار ادویات کا بے تحاشا استعمال کرہ زندگی کو تباہ کر رہا ہے۔ سب سے اہم چیز خوراک پر اختیار ہے جو لوگوں کو وہ حقوق اور ذرائع مہیا کرتا ہے جس سے وہ خود اپنا غذائی نظام وضع کر سکیں۔ اس سے اختیار ان لوگوں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے جو خوراک پیدا، تقسیم اور صرف کرتے ہیں نہ کہ مٹھی بھر اجارہ داریاں اور منڈی سے منسلک ادارے‘ جو عالمی غذائی نظام پر حاوی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمینوں پر قبضے کو ختم کیا جائے تاکہ زمینوں کو خوراک پیدا کرنے والوں کے اختیار میں لایا جائے لیکن اس طرح کا نظام خوراک اور زراعت کے شعبے میں رائج منافع کے نظام کے خاتمے اور منصوبہ بند معیشت کے اجرا کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے۔
ماحولیاتی بحران کا شاید سب سے زیادہ خطرناک پہلو حیاتی تنوع پر اس کے پڑنے والے اثرات ہیں جسے 'چھٹی معدومی‘ (The Sixth Extinction) کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت تین درجے بڑھ جاتا ہے تو 50 فیصد حیوانات و نباتات معدوم ہو جائیں گے۔ تمام تر میملز کے ایک چوتھائی حصے کو معدومی کا خطرہ ہے۔ سمندروں میں تیزابیت کے بڑھنے سے کورل ریف کے خاتمے کا خطرہ ہے۔ کورل ریف کو جاندار اپنے خول میں کیلشیم پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا اپنا مستقبل اس حیاتی تنوع کے بحران سے الگ نہیں ہے۔
پاکستان کے ماحولیاتی مسائل میں جنگلات کی کٹائی، فضائی آلودگی، پانی کی آلودگی، آواز کی آلودگی، ماحولیاتی تبدیلی، کیڑے مار ادویات کا بے تحاشا استعمال، زمینی کٹائو، قدرتی آفات اور ویرانی کا عمل شامل ہے۔ پاکستان کو درپیش ماحولیاتی مسائل نہایت سنجیدہ ہیں اور معیشت کے بحران کے ساتھ مزید خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ بحران زدہ ریاست ان مسائل کو حل نہیں کر سکتی کیونکہ وہ خود اپنی حکمرانی کے بحران میں دھنسی ہوئی ہے۔ مسخ شدہ اور پرانتشار معاشی نمو میں ریئل اسٹیٹ کے ان داتا جہاں فوری منافع جات اور کالے دھندوں کے لیے زرخیز زمینوں کو برباد کر رہے ہیں وہیں پر تمام تر بڑی پارٹیوں اور ریاستی حکمرانوں کے دھڑوں کو کنٹرول بھی کرتے ہیں۔ اس لیے ماحولیاتی تحفظ کے لیے صرف زبانی جمع خرچ اور ظاہری اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی ماحولیاتی کیفیت کے بارے میں ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ نے اسے ''غربت اور ماحولیاتی تنزلی کا ایک شیطانی چکر‘‘ قرار دیا ہے۔
سرمایہ دارانہ منافع خوری سے جنم لینے والی ماحولیاتی تباہی کو ختم کرنے کا نقطۂ آغاز سماجی ماحولیاتی جدوجہد ہے تاکہ ''صرف ماحولیات نہیں بلکہ پورے نظام کو بدلا جائے‘‘۔ اس جدوجہد کی بنیاد محض ماحولیاتی تبدیلی کے گرد اکٹھ پر نہیں ہو سکتی۔ سرمایہ داری کی حدود کے اندر جدوجہد ناکارہ ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محکوم عوام کو درپیش تمام مسائل کو بڑے مسئلے کے ساتھ جوڑنا ہو گا کیونکہ ان کا حل اور آزادی صرف طبقاتی جدوجہد کی فتح سے ہی ممکن ہے۔