مارکسی فلسفے کی ایک بنیادی شق یہ بھی ہے کہ کیسے چیزیں اور رشتے کسی مخصوص معیاری تبدیلی سے ایک دوسرے کی نفی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف اور ن لیگ کے مریم دھڑے کے خلاف کچھ قوتوں کی یلغار صرف اس بنیاد پر سمجھی جا سکتی ہے کہ وہ ان قوتوں کا نشانہ اوران کے مخالف کیسے بن گئے! اسی طرح کچھ حلقوں سے ہمیشہ تضادات رکھنے والی پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے پارٹی کو انہی حلقوں کے سب سے مطیع آلہ کار کے کردار تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن جیسے لینن نے کہا تھا کہ ''سیاست‘ معیشت کی مجتمع شدہ شکل ہوتی ہے‘‘ اس لیے اس سیاست اور ریاستی خلفشار کی بنیادی وجہ اُس بحران کی شدت ہے جو اس ملک کی معیشت اور سماج کو درپیش ہے۔
طبقاتی کشمکش‘ طبقات پر قائم کسی بھی سماج کا لازمی جزو ہوتی ہے۔ مختلف ادوار میں اس کشمکش کی شدت کو مدِنظر رکھ کر ہی حکمران طبقہ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے طویل عرصے تک اسے زائل یا کمزور کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار یہ تنائو نظام کے تضادات کی حدت اور شدت کی بدولت حکمرانوں کی حاکمیت کے لیے چیلنج بن جاتا ہے۔ یہ انتہائی غیر معمولی حالات ہوتے ہیں جو تاریخ میں کبھی کبھار ہی رونما ہوتے ہیں۔ لیکن نو آبادیاتی ممالک کے حکمرانوں کا المیہ اس سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔ اپنی تاریخی نااہلی اور کمزوری کی وجہ سے یہ سماج کو ترقی کے اس معیار تک لے جانے میں ناکام رہتے ہیں جہاں اصلاحات وغیرہ کے ذریعے طبقاتی کشمکش کو طویل عرصوں کے لیے ماند کر سکیں۔ نتیجتاً ان معاشروں کے حکمرانوں کے سر پر ہر وقت سماجی بغاوتوں کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ جس وجہ سے حکمران طبقہ ماضی کے متروک عقائد اور تعصبات کا سہارا لینے پر مجبور رہتا ہے۔ لیکن اپنی حکمرانی کو قائم رکھنا ان کے لئے پیچیدہ مسئلہ بنا رہتا ہے۔ ایسے معاشروں میں ریاستی اداروں کا کردار مبالغہ آرائی کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ تقسیم کے ستر سال بعد حالت پہلے سے زیادہ خراب ہے۔ سماجی ارتقا کا کوئی ایک اشاریہ بھی خوش آئند نہیں ہے۔ دولت کی انتہائی غیر منصفانہ اور ناہموار تقسیم کی بدولت سماجی تفریق کی مختلف شکلیں اور انتہائیں ہیں۔ سامراجی جبر اور سرمایہ دارانہ مجبوریوں کی وجہ سے ٹیکنالوجی کی جدت اور سماجی پسماندگی کا بے ہنگم ملغوبہ ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ کلاسیکی ارتقا کے ذریعے پروان نہ چڑھ سکنے کی وجہ سے پورا نظام مختلف تضادات کا شکار ہے اور دیو ہیکل قدر زائد پیدا کرنے کی صلاحیت میں ناکامی کی بدولت معیشت لاغر ہے۔
معیشت میں بڑ ے پیمانے کی گروتھ کی صلاحیت نہیں ہے اور پھر عالمی سرمایہ داری زوال پذیر ہے معیشت نحیف اور ناتواں ہے کیونکہ یہ ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہونے کے بجائے عارضی اور کمزور سہاروں پر چل رہی ہے لیکن ملکی تاریخ میں جب بھی مخصوص مقامی اور عالمی حالات کی بدولت معاشی شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے‘ اس نے اتنے ہی گہرے اور شدید سماجی تضادات کو ابھارا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر 1968-69ء کی تحریک پھٹ پڑی تھی اب ماضی کی عارضی اور ناہموار ترقی اور گروتھ نے معاشی اور سماجی تضادات کو نئی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ موجودہ حکومت نے پوری طاقت سے گلا پھاڑ کر سی پیک کو ترقی اور خوشحالی کا پیش خیمہ بنا کر پیش کیا ہے‘ اب اس کی حقیقتیں بھی سامنے آنا شروع ہو جائیں گی۔ آج کے عہد میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداوار نے معاشرے کو 'مستقل بے روزگاری‘ کے ایک نئے مظہر سے روشناس کرایا ہے جبکہ دوسری طرف قرضوں کے پہاڑ پر سی پیک منصوبوں کی تکمیل‘ یہاں کے باسیوں کو نسلوں تک نادار اور محتاج بنا دے گی۔ ویسے بھی چین جیسے کمزور سامراج کی طرف پاکستانی بورژوازی کا جھکائو اس کے بند گلی میں پھنس جانے کی علامت ہے۔ ٹرمپ کا دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کو ''راہِ راست‘‘ پر لانے کا خطرناک طریقۂ کار نئے تضادات اور خلفشار کو ابھارنے کا موجب بن رہا ہے۔ خطے کے جنوب کی طر ف چینی اثر و رسوخ میں اضافے پر امریکی سامراج کو شدید تشویش ہے۔ یہ بلاشبہ ایک نئی گریٹ گیم ہے‘ جس میں پاکستان جیسی ریاستیں مختلف سامراجی قوتوں کی پراکسی جنگ کے لیے تیزی سے میدان جنگ بنتی جا رہی ہیں۔ اس حوالے سے امریکی سامراج کی طرف سے پاکستانی ریاست شدید دبائو کا شکار ہے جو کہ عالمی تنہائی اور ہزیمت کا باعث بن رہا ہے۔
چین اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تضادات نے اس ملک کے کمزور اور لاچار حکمرانوں کو دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جس سے خلفشار، ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تضادات مختلف سیاسی پارٹیوں کے ٹکرائو کی شکل میں بھی اپنا اظہار کر رہے ہیں، عدلیہ کا بھی خوب استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ تحریک انصاف کے غبارے سے ایک بار پھر ہوا نکل رہی ہے۔ سیاست سرمائے کے دھنوانوں کی لونڈی سے زیادہ کچھ بھی نہیں جس کا اظہار پہلے تو سینیٹ الیکشن کے دوران لوٹ مار میں ہوا پھر چیئرمین کے انتخاب نے اس سرمائے کی سیاست کی ساری قلعی ہی کھول دی ہے‘ جس میں محنت کشوں، کسانوں، محروموں اور ناداروں کی کوئی بات ہے نہ پروگرام۔ لیکن یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک میں محنت کش طبقے کی وسیع پرتیں سیاسی عمل میں متحرک نہیں ہیں۔ تاریخی طور پر نواز شریف کی بنیادیں سرمایہ دار اور پیٹی بورژوا طبقات میں ہی موجود رہی ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حصہ داری کے مسائل کے ساتھ ساتھ بھارت سے تعلقات اور ریاست کی پرانی سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی میں تبدیلی کے حوالے کی وجہ سے نواز شریف کے ساتھ تنائو اپنی انتہائو ں پر ہے۔
پرانے معمول کی طرف واپسی کے امکانات کم ہی ہیں۔ ایسے میں حالات کے جبر کے تحت مزید جارحانہ لفاظی کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ نااہل ہونے کے بعد نواز شریف کا اپنے جلسوں میں انتہائی الفاظ کا استعمال ان کی فرسٹریشن کا اظہار ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ حکمران طبقات کی عمومی سیاست اور ریاست کی زوال پذیری کا اظہار ہے کہ ان کا اپنا نمائندہ ریاستی اداروں کونشانہ بنا رہا ہے۔ پچھلے چالیس سالوں کی ریاستی خارجہ پالیسی اور ''افغان جہاد‘‘ کے لیے تیار کئے گئے ''اثاثوں‘‘ کو مین سٹریم سیاست میں لانے سے سیاسی و ریاستی توازن میں مسلسل بگاڑ پیدا ہوا ہے۔
بظاہر سماج کی سطح پر ایک سکوت ہے جو حکمرانوں کی آپسی لڑائیوں کے شور میں مزید دبا ہوا ہے لیکن نیچے ایک لاوا پک رہا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر تحریکیں بھی وقتاً فوقتاً نظر آتی رہتی ہیں۔ محنت کشوں اور عام لوگوں کے ذہنوں میں محرومی، غربت اور لاچاری کے نتیجے میں ایک طوفان پل رہا ہے جو ایک مخصوص نہج پر پھٹ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سماج بظاہر کسی ثانوی نوعیت کے ایشو پر پھٹ پڑے لیکن جتنی محرومی اور ذلت ہے‘ دھماکہ اتنا ہی شدید ہو گا۔ ہر سیاسی پارٹی نے محنت کشوں کے مسائل سے منہ موڑ لیا ہے اور اقتدار میں آنے کے لیے ریاستی اشیرباد کو واحد راستہ تسلیم کر لیا ہے۔ سرمایہ داری کی موجودہ کیفیت میں کسی بھی عوامی مسئلے کا دیرپا حل ایک سراب ہے۔ معیشت کے میکرو اکنامک اشاریوں میں بہتری بالکل سطحی اور عارضی ہے۔ محنت کش طبقہ زندگی کی اذیت میں سلگ رہا ہے‘ ایک چنگاری اسے بھڑکا کر کبھی نہ دیکھی گئی بغاوت کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔